Friday, October 11, 2024

ادویات کے بغیر صحتمند زندگی

شوگر، بلڈ پریشر، یورک ایسڈ جیسی بیماریوں سے نجات کا غذائی پروگرام


آج کے جدید دور میں زندگی کا تصور ادویات کے بغیر ناممکن ہوگیا ہے۔ یہ اب کوئی راز کی بات نہیں ہے کہ ہمارا لائف اسٹائل اور ہماری کھانے کی عادات ہمیں بیمار کررہی ہیں۔ جیسے ہی ہم چالیس کو عبور کرتے ہیں تو ہمیں بہت سی بیماریاں گھیر لیتی ہیں۔ چالیس سال کی عمر کے بعد شوگر بلڈ پریشر جیسی بیماریاں ہوجاہیں تو ہمیں یہ بات بہت نارمل محسوس ہوتی ہے کیونکہ چالیس کے بعد بیمار ہونے کیلئے ڈاکٹر بھی ہمیں ذہنی طور پر تیار کرتے رہتے ہیں۔ چالیس کے بعد یہ نہ کھائیں وہ نہ کھائیں ایسا نہ کریں ویسا نہ کریں۔ آپ ڈاکٹر کی ہدایات کو فالو کریں یا نہ کریں ہم میں سے تیس سے چالیس فیصد لوگوں کو شوگر، بلڈ پریشر، دل کے امراض، جوڑوں کا درد، یورک ایسڈ، آنکھوں کے مسائل، گردوں کی بیماری جیسی موذی امراض لاحق ہونے لگتی ہیں اور پھر ادویات ہمارا نیا جیون ساتھی بن جاتی ہیں۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔


ہم بھی دوسروں کی طرح شوگر اور بلڈ پریشر کے مریض بن گئے اور پھر ایک دوائی سے دوسری دوائی اور دوسری سے تیسری دوائی ہماری خوراک کا حصہ بنتی گئی۔ جیسے جیسے دوائیاں خوراک میں شامل ہوتی گئیں ویسے ویسے ہماری طبیعت مذید خراب ہوتی رہی۔ اور پھرایک دن ہمیں خوراک کی سائنس کے بارے میں معلوم ہوا۔ ہم نے جانا کہ ہماری بیماریاں ہماری اپنی پیدا کردہ ہیں اور یہ ادویات سے مذید بڑھ سکتی ہیں کم نہیں ہونگی۔ ادویات ہمیں وقتی آرام ضرور دیتی ہیں مگر پھر یہی ادویات لمبے عرصے میں بیماریوں کو بڑھانے کا باعث بنتی ہیں۔ اگر ہمیں واقعی بیماریوں سے نجات چاہئے تو پھر ہمیں اپنے کھانے پینے کے طریقوں میں تبدیلی لانی ہوگی۔ اورپھر میں نے نیوٹریشن سائنس کو سمجھنے کا سفر شروع کیا۔ کچھ نئی کتابیں نیٹ سے نکالیں اور انھیں پڑھنا شروع کیا۔ تو سمجھ آئی کہ خوراک ہماری زندگی پر کتنا زیادہ اثرانداز ہوتی ہیں۔ آج ہم سب اصل خوراک کو بھول چکے ہیں جعلی خوراکیں کھا کھا کر جسم کو بیمار کرلیا ہے۔ کارب اور چینی سے بنی اشیاء ہماری خوراک کا حصہ بن چکی ہیں۔ ہمارے یہاں شراب منع ہے مگر چینی کے نشے میں ہم شراب کی طرح ہی مبتلاء ہیں۔ چائے میں چینی کم ہو تو ہم سے چائے پی نہیں جاتی۔ کھانے میں روٹی نہ ہو تو ہم اسے کھانا نہیں سمجھتے۔ میں نے اور میری بیوی نے فیصلہ کیا کہ ہم ادویات سے نجات پائیں گے۔ ہم نے کھانے کی عادات کو بدلا اور چند ہفتوں میں ہمیں ادویات کی ضرورت نہ رہی۔ بہرحال ہم نے شوگر اور بلڈ پریشر کے ٹیسٹ جاری رکھے جو وقت کے ساتھ بہتر ہوتے گئے۔ میرا بلڈ پریشر تب سے نارمل شو ہورہا ہے اور شوگر کی ادویات پہلے آدھی اور پھر چند ماہ کے بعد مکمل ختم کردیں۔ چھ ماہ سے مسلسل ہسپتال سے اپنا بلڈ پریشر چیک کروانے کے بعد اور ہر بار نارمل 80/120 ریڈنگ دیکھنے کے بعد سوچتا ہوں کہ کیا بیس سال ادویات بلاوجہ ہی استعمال کیں۔ کارب کی حقیقت پہلے سامنے آجاتی تو کبھی انسولین کی، شوگر اور بلڈ پریشر کی ادویات کی ضرورت ہی نہ پڑتی۔


کارب کی حقیقت

نشاستہ دار غذا (کارب) کھاؤ اور خون میں شوگر کا لیول بلند ہوجائے گا۔ یہ حقیقت پہلے سال میں میڈیکل اسٹوڈنٹ جانتا ہے۔ ہر نرس اور ڈائیابیٹیس کی تعلیم دینے والا جانتا ہے۔ ہر وہ شوگر کا مریض جو کھانے سے پہلے اور کھانے کے بعد شوگر کا چیک اپ کرتا ہے جانتا ہے۔

کوئی بھی ایسی خوراک کھاؤ جس میں زیادہ مقدار میں کارب ہوتے ہیں تو شوگر بھی زیادہ آئے گی۔ جتنی زیادہ نشاستہ دار غذا اتنا ہی زیادہ شوگر لیول۔ ہر ڈاکٹر ہر سمجھدار مریض جانتا ہے کہ مکھن کھانے سے شوگر نہیں بڑھتی۔ گوشت اور دیگر چکنائی والی غذا کھانے سے شوگر نہیں بڑھتی۔


بیماریوں کا سونامی:

1980 سے شوگر، بلڈ پریشر اور دل کی بیماریوں میں اضافہ ہونا شروع ہوا۔۔ ایسا اس لئے ہے کہ تب سے ہم نے خوراک میں زیادہ جعلی خوراک کھانا شروع کردی۔ کمپنیوں کی بنائی ہوئی پیک کردہ جعلی غذا نے ہمیں بیمار کردیا۔

ہماری خوراک میں 80 فیصد کارب شامل ہوتے ہیں۔ کارب شوگر، بلڈ پریشر اور جسم میں سوزش کا باعث بنتے ہیں۔ آج کارب کھانا کم کردیں شوگر کی بیماری بھی کم ہوجائے گی۔ انسولین کی ضرورت نہیں رہے گی۔ ادویات سے نجات مل جائے گی۔


مسیحائی تعلیم اور تحائف

ہمارے ڈاکٹر بیماریوں کا علاج ادویات سے کرنے کیلئے ٹرینڈ ہوتے ہیں۔ انھیں بیماریوں کی علامات اور ان کا ادویات سے علاج تجویز کرنے کی تربیت دی گئی ہوتی ہے۔ وہ جہاں ادویات کو فٹ نہیں پاتے وہاں پروسیجر تجویز کرتے ہیں۔ بیماریوں میں غذا کا کیا کردار ہے کون کون سی بیماریاں ہمیں خوراک کی وجہ سے لگ رہی ہیں۔ اور کس طرح خوراک کو تبدیل کریں اور بیماری کو کنٹرول کریں یہ سب ان کا شعبہ نہیں ہے۔ پھر ایک گھناؤنا سچ یہ بھی ہے کہ ادویات بنانے والی کمپنیاں ڈاکٹرز پر انسویسٹ کرتی ہیں انھیں پیسہ اور دیگر مراعات دیتی ہیں تاکہ وہ زیادہ سے زیادہ ادویات بیچ سکیں۔ ڈاکٹر کا اور ادویات کمپنیوں کا بزنس آپ کی بیماری سے جڑا ہے۔

دوسری طرف ہم سب بھی اناج اور چینی کے نشے میں مبتلاء ہوچکے ہیں۔ ہمیں جب بتایا جاتا ہے کہ بطور شوگر کے مریض ہمیں اب چینی سے پرہیز کرنا ہے تبھی ہمارے اندر چینی کی خواہش زور پکڑ جاتی ہے۔ ہم چینی اور روٹی کے بغیر زندگی کا تصور نہیں کرپاتے اور یہیں سے شروع ہوتا ہے ہماری صحت کی بربادی کا سفر جسے ہم گولیوں اور ٹیکوں کی مدد سے جلد از جلد منزل مقصود پر پہنچانے کا بندوبست کرتے ہیں۔


شوگر

کی بیماری ایک گولی سے شروع ہوتی ہے پھر کچھ عرصے بعد بی پی کی گولی شروع ہوجاتی ہے پھر کلیسٹرول کنٹرول کرنے والی گولی پھر یورک ایسڈ پھر۔۔۔۔۔۔۔ آپ مٹھی بھر گولیاں کھاتے جائیں۔۔۔۔ اور جھوٹی صحت کو قائم رکھیں۔۔۔ اگر ہمیں واقعی صحت مند ہونا ہے اور ادویات سے نجات پانا ہے تو پہلے بیمار سوچ کو بدلیں۔ کھانے کو نشہ نہ بنائیں۔ صحتمند خوراک کھائیں ورنہ خوراک آپ کو کھاجائے گی۔


صحت مند خوراک کا تصور:

امریکی کارڈیالوجسٹ ڈاکٹر ولیم ڈیوس نے اپنی کتاب "ان ڈاکٹرڈ" میں لکھا ہے کہ سو سے زیادہ بیماریاں ایسی ہیں جنھیں ہم خوراک کی مدد سے بغیر ڈاکٹر کے ختم کر سکتے ہیں۔ ان میں بلڈ پریشر، ذیابیطس، ڈپریشن، الرجی، سانس کی بیماری، جسمانی کمزوری، جگر کی بیماری، جوڑوں کا درد، میگرین، سر درد اور موٹاپا شامل ہیں۔



جدید سائنس خوراک کی اہمیت پر زور دے رہی ہے۔ ہمارے حکماء بہت پہلے سے دیسی ادویات اور دیسی خوراک پر توجہ دیتے آرہے ہیں۔ اب جدید سائنس بھی اس حقیقت سے پردہ اٹھا رہی ہے کہ ہماری صحت پر ہماری خوراک کا اور ہمارے طرز حیات کا بہت زیادہ اثر ہوتا ہے۔ ہم جو کھاتے ہیں اسی سے ہماری صحت اور ہماری شخصیت ترتیب پاتی ہے۔ صحتمند خوراک ہمارے جسم اور دماغ کو صحتمند بناتی ہے۔ ہم زندگی میں زیادہ متحرک ہوجاتے ہیں اور ہمارا دماغ زیادہ بہتر سوچنے اور فیصلہ کرنے کی صلاحیت پا لیتا ہے۔


کیٹو ڈائیٹ

کیٹو صحتمند غذا کا ایسا نظام ہے جس میں آپ کم سے کم کارب کھاتے ہیں جبکہ چکنائی اور پروٹین کی مقدار زیادہ لیتےہیں۔ اس خوراک میں شوگر لیول نہیں بڑھتا، بلڈ پریشر کنٹرول میں رہتا ہے، آپ کے جسم اور اندرونی اعضاء پر اکٹھی ہونے والی خطرناک چربی گلنے لگتی ہے اور آپ کا جسم صحتیاب ہونے لگتا ہے۔ چند دنوں اور ہفتوں میں ادویات کی ضرورت یا کم ہوجاتی ہے یا پھرمکمل طور پر ختم ہوجاتی ہے۔ اس نظام کے تحت آپ کو چکنائی کی مقدار کو 70-75 فیصد تک لے کر جانا ہوتا ہے پروٹین کی مقدار 15-20 فیصد ہونی چاہیے جبکہ کارب صرف 5-10 فیصد شامل کرنا ہوتا ہے۔ اس نظام کو اختیار کرنے کے دوسرے دن سے آپ کے جسم میں تبدیلی محسوس ہونا شروع ہوجاتی ہے۔ ایک ہفتے کے اندر اندر آپ کی ادویات کی ضرورت نصف سے بھی کم رہ جاتی ہے۔


خوراک

اس نظام کے تحت آپ کو مندرجہ ذیل چیزوں کو اپنی خوراک کا لازمی حصہ بنانا ہوگا۔

انڈے، گوشت، مکھن،۔ دیسی گھی یا ذیتون کا تیل یا کم از کم سرسوں کا تیل، سبزیاں اور سلاد، دہی، اچار وغیرہ ۔۔۔۔



پرہیز: اس نظام کے تحت جن اشیاء سے آپ کو ہمیشہ کیلئے توبہ کرنی ہے ان میں شامل ہیں آٹا، چاول، چینی، بیکری، مٹھائی، بازاری تمام قسم کے کھانے، کمپنیوں کے ہر طرح کے کھانے کے تیل اور گھی وغیرہ۔۔۔۔

کیٹو خوراک کو اپنانا نہ مشکل ہے نہ ہی اتنا مہنگا جتنا بظاہر نظر آتا ہے۔ جب ادویات سے پیسے بچائیں گے تو اپنی صحت پر لگانے سے یہ نظام مہنگا نہیں پڑے گا۔



التجاء

میری ڈاکٹروں، ماہرین طب اور غذائی ماہرین سے التجاء ہے کہ نیوٹریشن سائنس بہت جدید معلومات سے بھری پڑی ہے۔ ادویات سے ہٹ کر معلومات کے نئے ذخائر پر بھی توجہ دیں۔ اس طرح نہ صرف آپ کی پریکٹس بہتر ہوگی بلکہ خلق خدا کی بھلائی بھی شامل ہوگی۔ ڈاکٹر میڈیسن کے ماہر ہوتے ہیں۔ ان کی ساری تربیت کا محور یہ ہے کہ اس خاص مرض کا علاج اس خاص دوا میں ہے۔ اپنے مریضوں کو ادویات تجویز کرنے سے پہلے اس کی حالت کے مطابق خوراک کو لازمی تجویز کریں۔ شوگر کی بیماری خون میں بڑھی ہوئی بلڈ شوگر کا نام نہیں ہے اس بیماری کا تعلق بڑھی ہوئی انسولین اور جسم میں اس کی بڑھی ہوئی مدافعت سے بھی ہے۔ جسے ماہرین انسولین ریزیسٹنس یا آئی آر کہتے ہیں۔ آئی آر کا تعلق ہماری غذائی بداعمالیوں کا نتیجہ ہے۔ جسے خوراک کی تبدیلی سے ختم کیا جاسکتا ہے۔ اگر ہم مریض کی آئی آر کو کنٹرول کر پائیں تو اس کی بےشمار بیماریاں خود بخود ختم ہونے لگتی ہیں۔ یہ بات میڈیسن کمپناں اور ان کے ریپ کبھی بریف نہیں کریں گے۔ ان کا کام ہے اپنی ادویات کیلئے نئی مارکیٹ ڈھونڈنا وہ آپ کو بیماروں کو ادویات کا مشورہ دیں گے یا پھر طاقت کی گولیوں کیلئے اکسائیں گے۔ بدقسمتی سے ہمارے یہاں عام طور پر ڈاکٹر حضرات بھی ایک بار کتابی علم حاصل کرلینے کے بعد نئی تحقیق پر کم ہی توجہ دیتے ہیں۔ آج میڈیکل سائنس بھی آئی ٹی فیلڈ کی طرح بہت متحرک ہوچکی ہے۔ اس فیلڈ میں بھی نت نئی دریافتوں نے ہمارے چند سال پہلے حاصل کردہ علم کو ناکارہ بنا دیا ہے۔ طب کی دنیا میں غذا کی اہمیت پہلے سے زیادہ اہمیت اختیار کرگئی ہے۔ اب یہ بات ماہرین جان چکے ہیں کہ صرف میڈیسن کی مدد سے آپ مریض کو صحت یاب نہیں کررہے بلکہ اسے کسی دوسری بیماری کیلئے تیار کر رہے ہیں۔ میڈیسن سے زیادہ خوراک کو اہمیت دیں۔ علاج بالغذا کا علم بہت وسیع ہوچکا ہے میری ماہرین طب سے التماس ہے کہ وہ نئی تحقیق پر نظر رکھیں ، ادویات انجیکشن اور پروسیجرز کے علاوہ خوراک کو اپنی پریکٹس کا حصہ بنائیں۔۔۔۔


No comments:

Post a Comment