Wednesday, November 28, 2018

کرتارپور کوریڈور اور اپنی رعایا


کل پاکستان میں ایک بڑا واقع ہوا ہے۔ اسے میڈیا نے بہت کوریج دی۔ وزیراعظم پاکستان نے کرتارپور بارڈر ہندوستانیوں کے لئے کھولنے کا افتتاح کیا۔ ہندوستان سے ہندوستانی وزراء بھی تشریف لائے۔ پاکستان میں اس پر بہت خوشی کا اظہار کیا گیا اور عمران خان حکومت کا قابل تحسین اقدام گردانا گیا۔ سن ۲۰۱۰ میں پاکستان نے کرتارپور بارڈر کھولنے کی آفر کی جس کو انڈین گورنمنٹ نے ٹھکرادیا۔ اب ہندوستان کی طرف سے رضامندی کا اظہار کیا گیا تو بارڈر کھول دیا گیا۔ 
کرتارپور پر ہندوستانیوں کو سہولتیں مہیا کرنے والوں سے سوال ہے کہ پہلے سکھ ہندوستان سے لاہور کے راستے کرتارپور جاتے تھے اور اس سفر میں وہ فارن ایکسچینج کو ملک میں لاتے اور یہاں خرچ کرتے تھے۔ لاہور کی سیر بھی کرتے اور اپنے مقدس مقام پر جاتے جاتے بہت سی خریداری بھی کرتے جس کا پاکستان کو فائدہ ہی ہوتا تھا۔ اب آپ نے ہندوستانیوں کو سہولت دے دی وہ سیدھا اپنے مقدس مقام پر جائے اور واپس ہندوستان لوٹ جائیں مگر اس آفر کے بدلے آپ نے کیا حاصل کیا؟ کیا یہی ہے آپ کی سفارت کاری کہ اس ہندوستان کو جس نے آپ کا پانی روک رکھا ہے جس نے کشمیر پر مظالم کی انتہا کر رکھی ہے جو آپ سے مذاکرات کےلئے ہاتھ آگے بڑھا کے پیچھے کھینچ لیتا ہے اور دنیا میں آپ کی جگ ہنسائی کا باعث بن رہا ہے اسے سہولتیں دے کر کس کا فائدہ کررہے ہو؟ کیا یہ کوئی ہندوستان نواز لابی برسراقتدار آگئی ہے کیا یہودیوں کو خوش کرنا مقصود ہے؟ کس کے ایجنڈے پر یہ سب سہولیات دی جارہی ہیں؟ 
ہم نے جو کیا وہ بہت اچھا ہے اس سے ہم نے اپنے اچھے ہونے کا ثبوت دیا ہے مگر اس کے بدلے میں ہمیں کیا ملنے جا رہا ہے؟ کیا ہم ہندوستان سے کچھ بھی لے پائے؟ کیا اس اقدام سے ہماری بات کی ہندوستان کی نسبت زیادہ اہمیت دی جائے گی؟ کیا انڈیا اب مذاکرات پر راضی ہوجائے گا؟ یا ہم اس بارڈر کو کھول کر اپنے حق میں کچھ تجارت کرپائیں گے؟

اتنے بےشمار سوالات ہیں اور ان سب کا ایک ہی جواب نظر آرہا ہے کہ جی نہیں بلکل نہیں۔ آپ کو کچھ ملنے والا نہیں۔ ہندوستانی وزیرخارجہ سشمیتا صاحبہ نے صاف الفاظ میں کہہ دیا ہے کہ 
کرتارپور کا بارڈر کھول دینے پر ہم پاکستان کے ساتھ مذاکرات شروع کرنے والے نہیں۔ اتنا اقدام کافی نہیں ہے۔ دہشتگردی اور مذاکرات ایک ساتھ نہیں چل سکتے۔ پاکستان کو کشمیر میں مداخلت بند کرنا ہوگی۔۔۔۔۔۔ ان محترمہ کی نظر میں کشمیر انڈیا کا لازمی حصہ ہے اور پاکستان کو یہ بات سمجھنا ہوگی۔ 

پاکستان کے حکمرانوں اور اس ملک کے دانشوروں سے میرا سوال ہے کہ اس اقدام سے ہم نے پاکستان کے لئے کیا حاصل کیا؟ ہم من حیث القوم سوچنے سے عاری ہوچکے ہیں یا جذباتیت کے خول میں بند ہو کر اپنی نالائقیوں کو چھپانا چاہتے ہیں؟ بین الاقوامی منظر نامے پر ملکوں کے اقدام اپنے قومی مفادات کے تناظر میں دیکھے جاتے ہیں۔ ہم جب بھی کسی بین الااقوامی ایشو پر کوئی بیان دیتے رہے ہیں اس میں جذباتیت کا عنصر سب سے نمایاں رہا ہے۔ ابھی حال ہی میں اسرائیل کے طیارے کا ایشو اٹھا اور پھر اسرائیل کی ریاست کو قبول کرنے پرشور مچا۔ اس سب پر ہمارا ردعمل خالصتا جذباتیت کے زیر اثر تھا۔  افغان وار میں شمولیت بھی ایک جذباتی لہر کے زیراثر تھی اور پھر اب کرتارپور بارڈر بھی اس سے مختلف نہیں۔ اس میں کوئی شک نہیں کہ انڈین سکھوں کو سہولت دے کر ایک اچھا اقدام کیا مگر کیا اس کے بدلے ہم کچھ بھی وہاں سے لے پائے۔ ہماری سفارتی کامیابی کی تقاضہ تھا کہ ہم کچھ تو ان سے مانگ لیتے۔ اپنے نہتے شہریوں پر جو ان ظالموں نے فائرنگ کا سلسلہ جاری کررکھا ہے اسی پر ان سے کوئی معاہدہ کرلیتے کہ اب یہ بارڈر تب تک کھلا رہے گا جب تک ہندوستانی فوج ہمارے بارڈر پر موجود آبادی کو نشانہ نہیں بناتی۔ جیسے ہی ان کی طرف سے اس طرح کا کوئی اقدام کیا گیا تو ہم ہی بارڈر بند کردیں گے۔۔۔۔  جناب خان صاحب سدھو کی قوم کا بھلا کردیا اچھا کیا مگر کچھ تو اپنی رعایا کو بھی سوچیں



No comments:

Post a Comment