Friday, October 11, 2024

ادویات کے بغیر صحتمند زندگی

شوگر، بلڈ پریشر، یورک ایسڈ جیسی بیماریوں سے نجات کا غذائی پروگرام


آج کے جدید دور میں زندگی کا تصور ادویات کے بغیر ناممکن ہوگیا ہے۔ یہ اب کوئی راز کی بات نہیں ہے کہ ہمارا لائف اسٹائل اور ہماری کھانے کی عادات ہمیں بیمار کررہی ہیں۔ جیسے ہی ہم چالیس کو عبور کرتے ہیں تو ہمیں بہت سی بیماریاں گھیر لیتی ہیں۔ چالیس سال کی عمر کے بعد شوگر بلڈ پریشر جیسی بیماریاں ہوجاہیں تو ہمیں یہ بات بہت نارمل محسوس ہوتی ہے کیونکہ چالیس کے بعد بیمار ہونے کیلئے ڈاکٹر بھی ہمیں ذہنی طور پر تیار کرتے رہتے ہیں۔ چالیس کے بعد یہ نہ کھائیں وہ نہ کھائیں ایسا نہ کریں ویسا نہ کریں۔ آپ ڈاکٹر کی ہدایات کو فالو کریں یا نہ کریں ہم میں سے تیس سے چالیس فیصد لوگوں کو شوگر، بلڈ پریشر، دل کے امراض، جوڑوں کا درد، یورک ایسڈ، آنکھوں کے مسائل، گردوں کی بیماری جیسی موذی امراض لاحق ہونے لگتی ہیں اور پھر ادویات ہمارا نیا جیون ساتھی بن جاتی ہیں۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔


ہم بھی دوسروں کی طرح شوگر اور بلڈ پریشر کے مریض بن گئے اور پھر ایک دوائی سے دوسری دوائی اور دوسری سے تیسری دوائی ہماری خوراک کا حصہ بنتی گئی۔ جیسے جیسے دوائیاں خوراک میں شامل ہوتی گئیں ویسے ویسے ہماری طبیعت مذید خراب ہوتی رہی۔ اور پھرایک دن ہمیں خوراک کی سائنس کے بارے میں معلوم ہوا۔ ہم نے جانا کہ ہماری بیماریاں ہماری اپنی پیدا کردہ ہیں اور یہ ادویات سے مذید بڑھ سکتی ہیں کم نہیں ہونگی۔ ادویات ہمیں وقتی آرام ضرور دیتی ہیں مگر پھر یہی ادویات لمبے عرصے میں بیماریوں کو بڑھانے کا باعث بنتی ہیں۔ اگر ہمیں واقعی بیماریوں سے نجات چاہئے تو پھر ہمیں اپنے کھانے پینے کے طریقوں میں تبدیلی لانی ہوگی۔ اورپھر میں نے نیوٹریشن سائنس کو سمجھنے کا سفر شروع کیا۔ کچھ نئی کتابیں نیٹ سے نکالیں اور انھیں پڑھنا شروع کیا۔ تو سمجھ آئی کہ خوراک ہماری زندگی پر کتنا زیادہ اثرانداز ہوتی ہیں۔ آج ہم سب اصل خوراک کو بھول چکے ہیں جعلی خوراکیں کھا کھا کر جسم کو بیمار کرلیا ہے۔ کارب اور چینی سے بنی اشیاء ہماری خوراک کا حصہ بن چکی ہیں۔ ہمارے یہاں شراب منع ہے مگر چینی کے نشے میں ہم شراب کی طرح ہی مبتلاء ہیں۔ چائے میں چینی کم ہو تو ہم سے چائے پی نہیں جاتی۔ کھانے میں روٹی نہ ہو تو ہم اسے کھانا نہیں سمجھتے۔ میں نے اور میری بیوی نے فیصلہ کیا کہ ہم ادویات سے نجات پائیں گے۔ ہم نے کھانے کی عادات کو بدلا اور چند ہفتوں میں ہمیں ادویات کی ضرورت نہ رہی۔ بہرحال ہم نے شوگر اور بلڈ پریشر کے ٹیسٹ جاری رکھے جو وقت کے ساتھ بہتر ہوتے گئے۔ میرا بلڈ پریشر تب سے نارمل شو ہورہا ہے اور شوگر کی ادویات پہلے آدھی اور پھر چند ماہ کے بعد مکمل ختم کردیں۔ چھ ماہ سے مسلسل ہسپتال سے اپنا بلڈ پریشر چیک کروانے کے بعد اور ہر بار نارمل 80/120 ریڈنگ دیکھنے کے بعد سوچتا ہوں کہ کیا بیس سال ادویات بلاوجہ ہی استعمال کیں۔ کارب کی حقیقت پہلے سامنے آجاتی تو کبھی انسولین کی، شوگر اور بلڈ پریشر کی ادویات کی ضرورت ہی نہ پڑتی۔


کارب کی حقیقت

نشاستہ دار غذا (کارب) کھاؤ اور خون میں شوگر کا لیول بلند ہوجائے گا۔ یہ حقیقت پہلے سال میں میڈیکل اسٹوڈنٹ جانتا ہے۔ ہر نرس اور ڈائیابیٹیس کی تعلیم دینے والا جانتا ہے۔ ہر وہ شوگر کا مریض جو کھانے سے پہلے اور کھانے کے بعد شوگر کا چیک اپ کرتا ہے جانتا ہے۔

کوئی بھی ایسی خوراک کھاؤ جس میں زیادہ مقدار میں کارب ہوتے ہیں تو شوگر بھی زیادہ آئے گی۔ جتنی زیادہ نشاستہ دار غذا اتنا ہی زیادہ شوگر لیول۔ ہر ڈاکٹر ہر سمجھدار مریض جانتا ہے کہ مکھن کھانے سے شوگر نہیں بڑھتی۔ گوشت اور دیگر چکنائی والی غذا کھانے سے شوگر نہیں بڑھتی۔


بیماریوں کا سونامی:

1980 سے شوگر، بلڈ پریشر اور دل کی بیماریوں میں اضافہ ہونا شروع ہوا۔۔ ایسا اس لئے ہے کہ تب سے ہم نے خوراک میں زیادہ جعلی خوراک کھانا شروع کردی۔ کمپنیوں کی بنائی ہوئی پیک کردہ جعلی غذا نے ہمیں بیمار کردیا۔

ہماری خوراک میں 80 فیصد کارب شامل ہوتے ہیں۔ کارب شوگر، بلڈ پریشر اور جسم میں سوزش کا باعث بنتے ہیں۔ آج کارب کھانا کم کردیں شوگر کی بیماری بھی کم ہوجائے گی۔ انسولین کی ضرورت نہیں رہے گی۔ ادویات سے نجات مل جائے گی۔


مسیحائی تعلیم اور تحائف

ہمارے ڈاکٹر بیماریوں کا علاج ادویات سے کرنے کیلئے ٹرینڈ ہوتے ہیں۔ انھیں بیماریوں کی علامات اور ان کا ادویات سے علاج تجویز کرنے کی تربیت دی گئی ہوتی ہے۔ وہ جہاں ادویات کو فٹ نہیں پاتے وہاں پروسیجر تجویز کرتے ہیں۔ بیماریوں میں غذا کا کیا کردار ہے کون کون سی بیماریاں ہمیں خوراک کی وجہ سے لگ رہی ہیں۔ اور کس طرح خوراک کو تبدیل کریں اور بیماری کو کنٹرول کریں یہ سب ان کا شعبہ نہیں ہے۔ پھر ایک گھناؤنا سچ یہ بھی ہے کہ ادویات بنانے والی کمپنیاں ڈاکٹرز پر انسویسٹ کرتی ہیں انھیں پیسہ اور دیگر مراعات دیتی ہیں تاکہ وہ زیادہ سے زیادہ ادویات بیچ سکیں۔ ڈاکٹر کا اور ادویات کمپنیوں کا بزنس آپ کی بیماری سے جڑا ہے۔

دوسری طرف ہم سب بھی اناج اور چینی کے نشے میں مبتلاء ہوچکے ہیں۔ ہمیں جب بتایا جاتا ہے کہ بطور شوگر کے مریض ہمیں اب چینی سے پرہیز کرنا ہے تبھی ہمارے اندر چینی کی خواہش زور پکڑ جاتی ہے۔ ہم چینی اور روٹی کے بغیر زندگی کا تصور نہیں کرپاتے اور یہیں سے شروع ہوتا ہے ہماری صحت کی بربادی کا سفر جسے ہم گولیوں اور ٹیکوں کی مدد سے جلد از جلد منزل مقصود پر پہنچانے کا بندوبست کرتے ہیں۔


شوگر

کی بیماری ایک گولی سے شروع ہوتی ہے پھر کچھ عرصے بعد بی پی کی گولی شروع ہوجاتی ہے پھر کلیسٹرول کنٹرول کرنے والی گولی پھر یورک ایسڈ پھر۔۔۔۔۔۔۔ آپ مٹھی بھر گولیاں کھاتے جائیں۔۔۔۔ اور جھوٹی صحت کو قائم رکھیں۔۔۔ اگر ہمیں واقعی صحت مند ہونا ہے اور ادویات سے نجات پانا ہے تو پہلے بیمار سوچ کو بدلیں۔ کھانے کو نشہ نہ بنائیں۔ صحتمند خوراک کھائیں ورنہ خوراک آپ کو کھاجائے گی۔


صحت مند خوراک کا تصور:

امریکی کارڈیالوجسٹ ڈاکٹر ولیم ڈیوس نے اپنی کتاب "ان ڈاکٹرڈ" میں لکھا ہے کہ سو سے زیادہ بیماریاں ایسی ہیں جنھیں ہم خوراک کی مدد سے بغیر ڈاکٹر کے ختم کر سکتے ہیں۔ ان میں بلڈ پریشر، ذیابیطس، ڈپریشن، الرجی، سانس کی بیماری، جسمانی کمزوری، جگر کی بیماری، جوڑوں کا درد، میگرین، سر درد اور موٹاپا شامل ہیں۔



جدید سائنس خوراک کی اہمیت پر زور دے رہی ہے۔ ہمارے حکماء بہت پہلے سے دیسی ادویات اور دیسی خوراک پر توجہ دیتے آرہے ہیں۔ اب جدید سائنس بھی اس حقیقت سے پردہ اٹھا رہی ہے کہ ہماری صحت پر ہماری خوراک کا اور ہمارے طرز حیات کا بہت زیادہ اثر ہوتا ہے۔ ہم جو کھاتے ہیں اسی سے ہماری صحت اور ہماری شخصیت ترتیب پاتی ہے۔ صحتمند خوراک ہمارے جسم اور دماغ کو صحتمند بناتی ہے۔ ہم زندگی میں زیادہ متحرک ہوجاتے ہیں اور ہمارا دماغ زیادہ بہتر سوچنے اور فیصلہ کرنے کی صلاحیت پا لیتا ہے۔


کیٹو ڈائیٹ

کیٹو صحتمند غذا کا ایسا نظام ہے جس میں آپ کم سے کم کارب کھاتے ہیں جبکہ چکنائی اور پروٹین کی مقدار زیادہ لیتےہیں۔ اس خوراک میں شوگر لیول نہیں بڑھتا، بلڈ پریشر کنٹرول میں رہتا ہے، آپ کے جسم اور اندرونی اعضاء پر اکٹھی ہونے والی خطرناک چربی گلنے لگتی ہے اور آپ کا جسم صحتیاب ہونے لگتا ہے۔ چند دنوں اور ہفتوں میں ادویات کی ضرورت یا کم ہوجاتی ہے یا پھرمکمل طور پر ختم ہوجاتی ہے۔ اس نظام کے تحت آپ کو چکنائی کی مقدار کو 70-75 فیصد تک لے کر جانا ہوتا ہے پروٹین کی مقدار 15-20 فیصد ہونی چاہیے جبکہ کارب صرف 5-10 فیصد شامل کرنا ہوتا ہے۔ اس نظام کو اختیار کرنے کے دوسرے دن سے آپ کے جسم میں تبدیلی محسوس ہونا شروع ہوجاتی ہے۔ ایک ہفتے کے اندر اندر آپ کی ادویات کی ضرورت نصف سے بھی کم رہ جاتی ہے۔


خوراک

اس نظام کے تحت آپ کو مندرجہ ذیل چیزوں کو اپنی خوراک کا لازمی حصہ بنانا ہوگا۔

انڈے، گوشت، مکھن،۔ دیسی گھی یا ذیتون کا تیل یا کم از کم سرسوں کا تیل، سبزیاں اور سلاد، دہی، اچار وغیرہ ۔۔۔۔



پرہیز: اس نظام کے تحت جن اشیاء سے آپ کو ہمیشہ کیلئے توبہ کرنی ہے ان میں شامل ہیں آٹا، چاول، چینی، بیکری، مٹھائی، بازاری تمام قسم کے کھانے، کمپنیوں کے ہر طرح کے کھانے کے تیل اور گھی وغیرہ۔۔۔۔

کیٹو خوراک کو اپنانا نہ مشکل ہے نہ ہی اتنا مہنگا جتنا بظاہر نظر آتا ہے۔ جب ادویات سے پیسے بچائیں گے تو اپنی صحت پر لگانے سے یہ نظام مہنگا نہیں پڑے گا۔



التجاء

میری ڈاکٹروں، ماہرین طب اور غذائی ماہرین سے التجاء ہے کہ نیوٹریشن سائنس بہت جدید معلومات سے بھری پڑی ہے۔ ادویات سے ہٹ کر معلومات کے نئے ذخائر پر بھی توجہ دیں۔ اس طرح نہ صرف آپ کی پریکٹس بہتر ہوگی بلکہ خلق خدا کی بھلائی بھی شامل ہوگی۔ ڈاکٹر میڈیسن کے ماہر ہوتے ہیں۔ ان کی ساری تربیت کا محور یہ ہے کہ اس خاص مرض کا علاج اس خاص دوا میں ہے۔ اپنے مریضوں کو ادویات تجویز کرنے سے پہلے اس کی حالت کے مطابق خوراک کو لازمی تجویز کریں۔ شوگر کی بیماری خون میں بڑھی ہوئی بلڈ شوگر کا نام نہیں ہے اس بیماری کا تعلق بڑھی ہوئی انسولین اور جسم میں اس کی بڑھی ہوئی مدافعت سے بھی ہے۔ جسے ماہرین انسولین ریزیسٹنس یا آئی آر کہتے ہیں۔ آئی آر کا تعلق ہماری غذائی بداعمالیوں کا نتیجہ ہے۔ جسے خوراک کی تبدیلی سے ختم کیا جاسکتا ہے۔ اگر ہم مریض کی آئی آر کو کنٹرول کر پائیں تو اس کی بےشمار بیماریاں خود بخود ختم ہونے لگتی ہیں۔ یہ بات میڈیسن کمپناں اور ان کے ریپ کبھی بریف نہیں کریں گے۔ ان کا کام ہے اپنی ادویات کیلئے نئی مارکیٹ ڈھونڈنا وہ آپ کو بیماروں کو ادویات کا مشورہ دیں گے یا پھر طاقت کی گولیوں کیلئے اکسائیں گے۔ بدقسمتی سے ہمارے یہاں عام طور پر ڈاکٹر حضرات بھی ایک بار کتابی علم حاصل کرلینے کے بعد نئی تحقیق پر کم ہی توجہ دیتے ہیں۔ آج میڈیکل سائنس بھی آئی ٹی فیلڈ کی طرح بہت متحرک ہوچکی ہے۔ اس فیلڈ میں بھی نت نئی دریافتوں نے ہمارے چند سال پہلے حاصل کردہ علم کو ناکارہ بنا دیا ہے۔ طب کی دنیا میں غذا کی اہمیت پہلے سے زیادہ اہمیت اختیار کرگئی ہے۔ اب یہ بات ماہرین جان چکے ہیں کہ صرف میڈیسن کی مدد سے آپ مریض کو صحت یاب نہیں کررہے بلکہ اسے کسی دوسری بیماری کیلئے تیار کر رہے ہیں۔ میڈیسن سے زیادہ خوراک کو اہمیت دیں۔ علاج بالغذا کا علم بہت وسیع ہوچکا ہے میری ماہرین طب سے التماس ہے کہ وہ نئی تحقیق پر نظر رکھیں ، ادویات انجیکشن اور پروسیجرز کے علاوہ خوراک کو اپنی پریکٹس کا حصہ بنائیں۔۔۔۔


Saturday, September 28, 2024

تعصب کی غلامی

 


تعصب کیا ہے؟

تعصب دراصل ایک بہت متاثرکن احساس ہے۔

کوئی بھی غیر معقول رویہ جو غیر معمولی طور پر عقلی و دانش کے خلاف مزاحم ہو تعصب کہلاتا ہے۔ گورڈن آلپورٹ نے تعصب کی تعریف ایک "احساس کے طور پر کی جو کسی اصل تجربے یا حقائق پر مبنی نہیں ہوتا۔ کوئی شخص بھی ایک بار کسی تعصب کا شکار ہوگیا تو وہ مخالفانہ سوچ کو سوچے سمجھے بغیر رد کردیتا ہے۔ وہ تبدیلی کا مخالف ہوتا ہے۔

تعصب ایک کہانی سے شروع ہوتا ہے۔ جو بھی اس کہانی پر ایمان لے آتا ہے وہ اس گروپ کا ممبر بن جاتا ہے۔ کہانی میں ہمیشہ ایک ہیرو اور ایک یا ایک سے زیادہ ولن ہوتے ہیں۔ ہیرو تمام اچھائیوں کا مرکز جبکہ ولن تمام برائیوں کی جڑ ہوتا ہے۔ کہانی سنانے والا جتنا متاثرکن شخصیت کا مالک ہوگا وہ کہانی اتنا ہی زیادہ سننے والے پر اثرانداز ہوسکتی ہے۔ کہانی سنانے والا اسے مذہبی رنگ دیدے تو یہ مذہبی فرقہ بن جاتا ہے۔ کہانی سیاسی ہو تو سیاسی جماعت بنتی ہے۔ کہانی معاشرے اور قبیلے کی ہو تو قوم بن جاتی ہے۔

 تعصب میں ہوتے ہوئے ہم لگام سے بندھے جانور کی طرح ہوتے ہیں جسے مالک جب چاہے جدھر چاہے موڈ سکتا ہے۔ ہم اپنے لیڈر یا اپنے فرقے کی ہر بات کو سوچے سمجھے بغیر درست مان لیتے ہیں۔ ہمیں مخالف کی ہر بات غلط بلکہ گھٹیا نظر آتی ہے جبکہ اپنے فرقے کی گھٹیا بات بھی یا تو اچھی لگتی ہے یا پھر بری محسوس ہونے کے باوجود ہم اسے ان دیکھا کردیتے ہیں۔ تعصب کی انتہائی شکل دہشتگری پر منتج ہوسکتی ہے۔

 

تعصب ایک طاقت

تعصب ہماری طاقت بھی ہے کمزوری بھی۔ اس کی مدد سے ہم کسی خاص مقصد کے حصول میں خلوص دل سے اپنی تمام طاقت اور صلاحیت کو بروکار لے آتے ہیں۔ تعصب میں مبتلاء شخص اپنے نقطۃ نظر کو منوانے کیلئے کسی بھی حد تک جا سکتا ہے۔ تعصب کی یہی طاقت ہماری کمزوری بھی بن جاتی ہے۔ ہمارا لیڈر یا ہمارا گروپ ہمیں جس طرح چاہیں استعمال کرلیتے ہیں۔ تعصب کے اس استعمال سے دنیا کی تاریخ بھری پڑی ہے۔ گروہی لڑائیاں ملکوں کی دشمنیاں فرقوں کے فسادات سب تعصب کی پیداوار ہیں۔

اگر تعصب بڑے پیمانے پر پھیلایا جائے تو یہ خطرناک ہو سکتا ہے ۔ میڈیا جیسے اخبارات، ٹی وی، ریڈیو میں، یا سوشل میڈیا پراگر کسی مخصوص گروہ کے بارے میں منفی باتیں بار بار دہرائی جاتی ہیں تو ہمیں محتاط ہوجانا چاہئے۔ اگر کوئی منفی خیالات کا مقابلہ نہیں کرتا تو زیادہ سے زیادہ لوگ اس تعصب پر یقین کرنے لگتے ہیں۔

منفی تعصبات جو معاشرے میں عام ہیں گروہوں کے درمیان تناؤ کا سبب بن سکتے ہیں۔ یا اس کے نتیجے میں لوگوں کے گروہوں کے ساتھ امتیازی سلوک رکھنے کو جائز تصور کیا جانے لگتا ہے۔ بدتہذیبی اور گالم گلوچ کا دوسروں کیلئے استعمال ایک معمول بن جاتا ہے اور جہاں موقع ملے لوگ تشدد پر اتر آتے ہیں۔

 

نفرت کے خلاف جنگ

ایک مسلمہ بات یہ ہے کہ ہر کسی کے تعصبات ہوتے ہیں۔  سب سے پہلے تو ہمیں اپنے تعصب کو سمجھنا ہوگا۔ یہاں ہر کوئی کسی نہ کسی گروپ یا جماعت کا حصہ ہے۔ ہم سب تعصبات کی بنیاد پر فیصلے کرتے ہیں۔ تعصب انتہا کو پہنچ کر خطرناک ہوجاتا ہے۔ اپنے تعصبات کو ساتھ رکھتےہوئے ہمیں یہ احتیاط کرنا ہے کہ ہم کہیں نفرت کے سوداگر نہ بن جائیں۔ چند ضروری باتیں جن پر عمل کرکے ہم تعصب کے منفی اثرات سے بچ سکتے ہیں۔

-  ہمیں یہ سمجھنے کی ضرورت ہے کہ ہر کوئی ہمارے انداز فکر کو اپنا نہیں سکتا۔ لہذا اختلافی نقطہ نظر کو برداشت کرنے کی صلاحیت پیدا کرنا ہوگی۔ یہ ایک بات اگر آپ سمجھ لیں گے تو آپ نے بہت بڑا قدم پہلے ہی اٹھا لیا ہے۔

- دوسری اہم بات یہ ہے کہ آپ کا تعصب آپ کے رویے پر اثرانداز نہ ہو۔ تعصب کبھی بھی دوسروں کے خلاف امتیازی سلوک کی وجہ نہیں بننا چاہئے۔ اور یہ کہ آپ نفرت انگیز

تعصب کو پھیلانے کا باعث نہ بنیں۔

- تیسری اہم بات یہ ہے کہ اگر کوئی کسی کے خلاف پراپیگنڈہ کا حصہ بنتا ہے اپنے تعصب کو پھیلانے کیلئے دوسرے لوگوں یا گروہ کے بارے میں نفرت انگیز مواد پھیلاتا ہے تو آپ اس کے خلاف آواز اٹھائیں۔ منفی پراپیگنڈا کے خلاف آواز اٹھانے کیلئے آپ کو تمام حقائق جاننے کی ضرورت نہیں ہے۔ عقل سلیم اور ہمدردی آپ کا سب سے اہم اثاثہ ہوگا۔ جہاں تک ممکن ہو کسی متعصب شخص کے دعوے کو حقیقت کے ساتھ رد کرنے کی کوشش کریں۔ اسے احساس دلائیں کہ وہ نفرت کے نیٹ ورک کا حصہ نہ بنے۔ نفرت پھیلانے سے آپ دوسروں کیلئے تکلیف کا باعث بنتے ہیں۔ جہاں تک ممکن ہو محبت کا پیغام پھیلائیں۔

 

گزارشات: سلیم اعوان
28ستمبر 2024

Thursday, April 18, 2024

بھوک وہاں بھی ہے







امریکی خاندان بھوکے کیوں ہیں؟

کم آمدنی والے گھرانے پہلے ہی اپنی آمدنی کا بڑا حصہ کھانے پر خرچ کرتے ہیں۔ امریکی اوسط 12.7 فیصد کے مقابلے میں ہر سال 10,000 ڈالر سے کم کمانے والے گھرانوں کے اخراجات میں خوراک کا حصہ 16.4 فیصد ہے۔ کم از کم اجرت پر کل وقتی کام کرنے والا شخص تقریباً 14,500 ڈالر سالانہ کماتا ہے۔

تقریباً 15 فیصد امریکی گھرانے - 40 ملین سے زیادہ امریکی، بشمول 12 ملین بچے - دسترخوان پر کھانے کے لیے جدوجہد کرتے ہیں۔ یہاں بھوک کا پیمانہ "غذائی عدم تحفظ" ہے - ایک جاری غیر یقینی صورتحال کہ اگلا کھانا کہاں سے آئے گا۔ 5 میں سے 1 سے زیادہ امریکی بچے بھوک کے خطرے میں ہیں (سیاہ فام اور لاطینی (a) بچوں میں 3 میں سے 1)۔

بہت سے لوگوں کے لیے حیرت کی بات ہے، زیادہ تر امریکی (51.4 فیصد) 65 سال کی عمر سے پہلے کسی وقت غربت میں زندگی گزاریں گے۔



پوشیدہ بھوک کیا ہے؟


امریکہ میں، غربت کا سامنا کرنے والے اکثر "چھپی ہوئی بھوک" کا سامنا کرتے ہیں، یعنی اگر انہیں کافی مقدار میں خوراک مل رہی ہے، تو خوراک کے معیار - وٹامنز اور معدنیات کی کمی ہے۔ پوشیدہ بھوک
جسمانی نشوونما کو روک سکتی ہے اور بعد کی عمر میں کمزور عقلی فعل، کمزور مدافعتی نظام اور دائمی بیماریوں کا سبب بن سکتی ہے۔" کا سامنا کرتے ہیں، یعنی اگر انہیں کافی مقدار میں خوراک مل رہی ہے، تو
خوراک کے معیار - وٹامنز اور معدنیات کی کمی ہے۔ پوشیدہ بھوک جسم انی نشوونما کو روک سکتی ہے اور بعد کی عمر میں کمزور عقلی فعل، کمزور مدافعتی نظام اور دائمی بیماریوں کا سبب بن سکتی ہے۔

Saturday, March 23, 2024

ہم اتنے بیمار کیوں ہیں؟

 انسانی جسم کمال کی مشین ہے۔ یہ ایک صدی تو آرام سے چل سکتی ہے بشرطیکہ ہم اس کی مناسب دیکھ بھال کرتے رہیں اور اس کو صاف ایندھن مہیا کریں۔

 

دیگر مشینوں کی طرح عام طور پر اس کو ریگولر ڈاکٹر کے پاس جانے کی ضرورت نہیں ہوتی۔ انسانی جسم میں خدا نے ایک خودکارمرمت کا نظام رکھا ہے۔ یہ نظام 24 گھنٹے سرگرم عمل رہتا ہے۔ ہمارے جسم کو جہاں جس پرزے کو بدلنے کی ضرورت ہوتی ہے یہ اسے بدل دیتا ہے اور اس کی جگہ نیا پرزہ کام کرنے لگتا ہے۔ اس پراسیس کو سیل ریپئر پیتھالوجی کہتے ہیں۔ ہمارا امیون سسٹم باہر سے حملہ آور فسادیوں کو قابو کرتا اور انھیں ختم کرتا رہتا ہے۔

 

جسم بیمار تب پڑتا ہے جب ہم اس نظام کو خراب کربیٹھتے ہیں۔  امیون سسٹم یا مدافعتی نظام کی خرابی میں سب سے اہم کردار ہمارے کھانے پینے کی عادات ہیں اس کے بعد ہمارے رہن سہن اور کام کاج کی ضروریات ہیں جو ہمیں بیمار کرتی ہیں۔

 

ہم کھانے پینے کو معمولی بات گردانتے ہیں۔ جب بھی جو بھی کھانے کو ملتا ہے ہم کھا جاتے ہیں۔ جو پینے کو ملے ہم پی لیتے ہیں۔ ہماری نظر میں کھانے پینے کا معیار ایک ہی ہے کہ چیز کھانے میں مزیدار ہو۔۔۔۔ پھر چاہے وہ ہمیں اندر سے بیمارکر رہی ہو تو اس کا ہمیں زرہ برابر بھی احساس نہیں ہوتا۔

 

آج ہم جو کھاتے اور پیتے ہیں اس میں سے 90فیصد اشیاء جنک فوڈ کی کیٹیگری میں آتی ہیں۔ ہماری خوراک جسم کے توازن کو بگاڑ رہی ہے۔ اسی وجہ سے آج بوڑھے تو بوڑھے جوان بھی بہت شدید بیمار ہیں۔ اور بیماریوں کا تناسب بڑھتا جا رہا ہے۔

 

ہمارا ملک دنیا میں شوگر کے مریضوں کے تناسب سے سب سے اوپر جا پہنچا ہے۔ یہاں ہر100 میں 30 لوگ شوگر کا شکار ہوچکے ہیں۔ شوگر ایک بیماری نہیں یہ توجسم میں پیدا شدہ بہت سی امراض اور خرابیوں کی علامت ہے۔

 

خراب کھانے کی عادات کی وجہ سے انسولین رزیسٹنس پیدا ہوتی ہے، کئی سالوں تک انسولین اور گلوکوز کا آمیزہ ہمارے خون میں دوڑتا رہتا ہے جو بلآخر ہمارے جسم کو بیمار کردیتا ہے اور ہم جگر کی خرابی، پتے کی بیماری، دل کے امراض، جوڑوں کے امراض، معدے کے مسائل اور بےشماردیگر بیماریوں کا شکارہونے لگتے ہیں۔

 

اگر آپ ان 30 فیصد لوگوں میں شامل نہیں ہونا چاہتے جو تیزی سے بیمار ہورہے ہیں تو پھر آپ کو آج فیصلہ کرنا ہے۔ اچھی خوراک کو اپنائیں، جسم کو زیادہ سے زیادہ حرکت میں رکھیں اور مثبت رویہ اختیار کریں۔

 

تحریر: سلیم اعوان


Monday, March 18, 2024

ترقی کا سفر اور بونی قوم

 انسان کا ذہن بھی عجیب الخلقت شے ہے۔ آپ جس نظریہ کو اپناتے ہیں اس کیلئے دنیا جہاں کے دلائل اکٹھے کر لیتے ہیں۔ ذہن آپ کو ویسی ہی دنیا دکھاتا ہے جیسی آپ دیکھنا چاہتے ہیں۔ سوچ بدل جائے تو اردگرد کے حالات بھی بدلتے نظر آتے ہیں۔


پاکستان میں غلامانہ سوچ کی ترویج زیادہ کی جاتی ہے۔ ہمیں آج بھی یہ احساس دلایا جاتا ہے کہ ہم آزاد قوم نہیں بلکہ غلام ابن غلام ہیں۔ ہم نے پاکستان بننے سے آج تک کچھ حاصل نہیں کیا۔ ہمارا نظام خراب ہے ہمارے سیاستدان کرپٹ ہیں۔ 


یہ سبق ایک خاص سوچ کا عکاس ہے جس میں سب برا ہی نظر آتا یے۔ ہر طرف اندھیرے اور ظلمت کا راج ہے۔ قوم کی کسمپرسی کا زمہ دار حکمرانوں کو قرار دیا جاتا ہے۔ مگر یہاں کوئی نہیں سوچتا کہ جو قومیں ترقی کر گئی ہیں ان کے پیچھے صدیوں کی لمبی تاریک راہیں ہیں جن سے گزر کر وہ قومیں آج درخشاں حال اور روشن مستقبل کی مالک بن گئی ہیں۔ ان کے اس سفر میں حکومتوں کی کتنا ہاتھ ہے اور عوام کی اجتماعی سوچ کا کتنا عمل دخل ہے یہ تحقیق طلب معاملہ ہے۔ مگر ایک بات پکی ہے کہ وہاں بھی ترقی کا سفر آسان مرحلہ نہیں تھا۔ حکومتیں وہاں ہماری آج کی حکومتوں سے بہتر تو بلکل بھی نہیں تھیں۔ وہاں بھی ایلیٹ کلاس ہی حکمران رہی اور وہ بھی اپنے مفادات میں فیصلے صادر فرماتے تھے۔ ان کی جنگیں عوام کے مفاد میں نہیں بلکہ اپنی حکمرانی قائم کرنے کیلئے ہوتی تھیں جن میں لاکھوں لوگ مروا دئیے جاتے تھے وہاں عورتوں کو چڑیل بنا کر جلا دیا جاتا تھا وہاں کالے رنگ والوں کو غلام بنا کر رکھا جاتا تھا۔۔۔ یہ سب حکومتوں کی سرپرستی میں ہوتا تھا۔


مگر وہاں ایک عوام میں علم کی شمع جلتی رہی وہاں تعلیم کو عوام میں پزیرائی حاصل رہی وہاں دانشور طبقہ بکاؤ مال نہیں بنا وہاں مرد پیدا ہوتے رہے جو حکومتوں سے بھیک مانگنے کی بجائے خود کچھ کر گزرنے کے خواب دیکھا کرتے تبھی تو وہاں سائنس پروان چڑھی۔ وہاں گلیلیو نے حکومت کا شکوہ نہیں کیا بلکہ حکومت کے غیض و غضب کا نشانہ بنے مگر علم کا رستہ نہیں چھوڑا ۔۔۔ وہاں فورڈ کو کسی حکمران کے سپانسر نہیں کیا بلکہ مسٹر فورڈ نے خود ایک خواب دیکھا ۔۔۔۔ اور لوگوں کی مخالفت کے باوجود سچ کردکھایا۔۔۔۔ 


ہمارے یہاں مرد پیدا نہیں ہوئے زیادہ تر ہیجڑے پیدا ہوئے جو کبھی نظام کا گلا کرتے ہیں کبھی سیاستدانوں کا ۔۔۔ وہ خود کچھ کرنے کے قابل نہیں تو کسی پر تو غصہ نکالنا ہے تو کیوں نہ سیاست دانوں پر گالی نکال کر کر لیں۔۔۔۔۔۔


اگر ٹھیک سے پیارے وطن کی تاریخ مرتب کی جائے اور اسے سمجھ کر پڑھا جائے تو نظر آئے گا کہ ہمارا آج وجود قائم رکھ پانا بھی ایک بہت بڑا معجزہ ہے۔ ہم جس طرح کے حالات سے گزر کر آئے ہیں وہ غیر معمولی تھے ہمیں آج بھی دشمنوں نے گھیر رکھا ہے۔ ہمارے بارڈر پر طرف سے غیر محفوظ ہیں مگر آج بھی دنیا کی بہت سی قوموں سے بہتر زندگی گزار رہے ہیں۔۔۔۔ 


ہم نے بہت سست روی سے ترقی کی ہے۔ ہم دنیا میں ایمرجنگ ایکانومی بن کر ابھر چکے ہیں۔ دنیا کی بیس بڑی معیشتوں میں ہمارا نام لکھا جانا مقدر بن چکا تھا مگر پھر ہم اپنے مخصوص حالات اور اندرونی کمزوریوں کی وجہ سے پیچھے کے سفر پر چل نکلے ۔۔۔۔ 


آج حالات خراب ہیں مگر اصل بات یہ ہے کہ ہم کل کی جنگ لڑنے کیلئے آج زندہ ہیں۔۔۔۔۔ 


ترقی اور خوشحالی کوئی کم قیمت شے نہیں جو معمولی لوگوں کو مل پائے یہ تو آگ میں کندن ہوجانے والی قوموں کا مقدر بنتی ہے۔  یہاں ترقی کے معنی یہ ہیں کہ ہمیں جہدوجہد نہیں کرنا ہم نے نہیں بدلنا۔ ہم نے لائسنس نہیں بنوانے ہم نے ہلمٹ نہج۔ پہننا ہم نے دو نمبریاں نہیں چھوڑنا بلکہ یہ سب قائم رکھتے ہوئے حکومت قوم کو ترقی دلوائے۔۔۔


جس قوم میں بونے پیدا ہوتے ہیں وہاں بلندی کا معیار بھی نچلے درجے پر جا پہنچتا ہے۔۔۔۔

Saturday, December 9, 2023

What is Fundamental Analysis of a Stock



Fundamental analysis is a method of evaluating a stock's intrinsic value by examining various financial, economic, and qualitative factors that could affect its performance. This analysis is based on the idea that the market price of a stock may not always reflect its true or intrinsic value. Fundamental analysis aims to assess whether a stock is overvalued or undervalued by analyzing the company's financial health, operational efficiency, industry conditions, and other relevant factors. Here are key components of fundamental analysis:

1.         Financial Statements:

Income Statement: Examines the company's revenues, expenses, and profits over a specific period. Balance Sheet: Shows the company's assets, liabilities, and equity at a given point in time. Cash Flow Statement: Tracks the cash inflows and outflows, providing insights into a company's liquidity.

2.         Earnings Per Share (EPS):

EPS is calculated by dividing the company's net income by its number of outstanding shares. It gives an indication of the company's profitability on a per-share basis.

3.         Price-to-Earnings (P/E) Ratio:

The P/E ratio compares the current market price of a stock to its earnings per share. A high P/E ratio may indicate that investors expect high future growth, while a low P/E ratio may suggest undervaluation.

4.         Dividend Yield:

Dividend yield represents the annual dividend income as a percentage of the stock's current market price. Investors seeking income often look for stocks with a reasonable dividend yield.

5.         Book Value:

Book value is the difference between a company's assets and liabilities, divided by the number of outstanding shares. It provides an estimate of a company's intrinsic value.

6.         Debt-to-Equity Ratio:

This ratio indicates the proportion of a company's financing that comes from debt compared to equity. A high ratio may suggest higher financial risk.

7.         Return on Equity (ROE):

ROE measures a company's ability to generate profits from its shareholders' equity. A higher ROE is generally considered favorable.

8.         Growth Prospects:

Analyze a company's growth potential by looking at historical and projected earnings growth, new product launches, market share, and expansion plans.

9.         Industry and Market Conditions:

Consider the economic environment, industry trends, and competitive landscape. A company's performance is often influenced by broader economic factors and industry-specific conditions.

10.      Management and Corporate Governance:

Assess the quality and effectiveness of the company's management. Look at their track record, transparency, and adherence to corporate governance principles.

11.      Regulatory Environment:

Consider the impact of regulations on the company's operations and profitability.

12.      Macroeconomic Factors:

Evaluate broader economic indicators such as interest rates, inflation, and overall market conditions, as they can influence stock prices.

 

Fundamental analysis is often used by long-term investors who are interested in the underlying health and value of a company. It requires a comprehensive understanding of financial statements, economic trends, and industry dynamics. Investors may use fundamental analysis alongside other methods, such as technical analysis, to make well-informed investment decisions.

 

 

Earn Big Money from Paksitan Stock Exchage


Earning money from the Pakistan Stock Exchange (PSX) involves investing in stocks with the expectation that their value will increase over time. Here are the basic steps to get started:

1. Educate Yourself:

Before you start investing, it's crucial to understand the basics of the stock market, how it works, and the factors that influence stock prices. Familiarize yourself with financial statements, market trends, and investment strategies.

2. Set Financial Goals:

Determine your financial goals and risk tolerance. Are you looking for short-term gains or long-term growth? Understanding your objectives will help shape your investment strategy.

3. Open a Brokerage Account:

To buy and sell stocks on the PSX, you'll need to open a brokerage account with a licensed brokerage firm. Choose a reputable brokerage that offers the features and services that align with your needs.

4. Fund Your Account:

Deposit funds into your brokerage account. This money will be used to purchase stocks. Different brokerages have varying minimum deposit requirements.

5. Research and Analysis:

Conduct thorough research on companies listed on the PSX. Look at financial reports, historical performance, and industry trends. Stay informed about macroeconomic factors that could impact the market.

6. Diversify Your Portfolio:

Diversification involves spreading your investments across different stocks or sectors to reduce risk. Avoid putting all your money into a single stock.

7. Monitor the Market:

Keep a close eye on market trends and news that could affect your investments. Stock prices can be influenced by various factors, including economic data, company announcements, and geopolitical events.

8. Buy and Sell Stocks:

Once you've identified stocks you want to invest in, place buy orders through your brokerage platform. Similarly, you can sell stocks when you believe it's the right time to cash in your profits or cut losses.

9. Risk Management:

Understand and manage the risks associated with stock investing. Set stop-loss orders to limit potential losses and establish a risk management strategy.

10. Stay Informed:

Regularly update your knowledge about the stock market and the companies you've invested in. Attend seminars, read financial news, and stay informed about economic developments.

11. Long-Term Perspective:

While short-term trading is an option, many successful investors adopt a long-term perspective. Patience and discipline are often keys to successful investing.

12. Dividend Investing:

Some companies pay dividends to their shareholders. If you are interested in regular income, consider investing in dividend-paying stocks.

13. Seek Professional Advice:

If you're uncertain or new to investing, consider seeking advice from financial professionals or investment advisors. There are many sources to learn about stock exchange investment. Yon can learn from Books, Workshops, Online Courses, Youtube, Websites or even from ChatGpt.


I learnt from two sources. My first sources was youtube and then I started downloading books about investing and read those to have indepth knowledge. Withing a month I was able to decide to invest in a stock. I bought one and now I own twelve different company stocks in my portfolio. Most of my stocks are for long term investment and they are divident paying stocks. Couple of stocks are only for experiment purposes so that I might earn share value in few months or a year. You can also learn and earn by investing with little amount in hand.

Remember that investing always carries some level of risk, and past performance is not indicative of future results. It's important to do your due diligence and make informed decisions based on your financial situation and goals. If you're new to investing, consider starting with a small amount and gradually increasing your exposure as you gain experience and confidence in your investment decisions.

credits: ChatGpt

Friday, March 3, 2023

Ketosis ، بلڈ شوگر کنٹرول اور وزن کمی کا غذائی طریقہ

 


 
کیٹوسس جسم میں کیٹون کی سطح کی بلندی ہے۔ کیٹون کی پیداوار اس غذائی طریقہ سے بڑھ جاتی ہے، خاص طور پر جب آپ کارب والی غذائیں کم استعمال کرتے ہیں۔ عام طور پر، آپ کا جسم توانائی کے لیے بلڈ شوگر، جسے گلوکوز بھی کہا جاتا ہے، استعمال کرنے کو ترجیح دیتا ہے۔ تاہم، کیٹوسس کے دوران، آپ کے جسم کو اپنی توانائی کا زیادہ حصہ کیٹونز سے حاصل ہوتا ہے، جو کہ چکنائی سے پیدا ہوتے ہیں ۔

کیٹو غذائی طریقہ سو سال پرانا ہے یہ ابتدائی طور پرمریضوں پر آزمایا گیا۔ اور ڈاکٹروں نے اس کو بہت مفید پایا۔ اس طریقہ کو مرگی والے بچوں میں کم دورے، وزن میں کمی، اور بلڈ شوگر کا بہتر انتظام کیلئے کامیابی سے استعمال کیا گیا۔

اس پروگرام کی غذا کی پیروی کرنا مشکل ہو سکتا ہے اور یہ سب کے لیے موزوں نہیں ہو سکتا۔ لہذا اس پروگرام کو اپنانے سے پہلے آپ سوچ سکتے ہیں کہ کیا آپ کو اسے آزمانا چاہئے؟

کیٹوسس کیا ہے؟


کیٹوسس ایک میٹابولک حالت ہے جس میں آپ کے خون میں کیٹونز کا زیادہ ارتکاز ہوتا ہے۔ یہ جسم کو توانائی فراہم کرنے کا متبادل ذریعہ ہے۔ یہ اس وقت ہوتا ہے جب آپ کا جسم گلوکوز، یا بلڈ شوگر تک محدود رسائی کی وجہ سے چربی کو اپنے ایندھن کے اہم ذریعہ کے طور پر استعمال کرنا شروع کر دیتا ہے، عام طور پر فاقہ کشی، روزہ رکھنے، یا بہت کم کاربوہائیڈریٹ غذا کی پیروی کرنے سے کیٹوسس حاصل ہوتا ہے۔

جسم کے بہت سے خلیے ایندھن کے لیے گلوکوز کو ترجیح دیتے ہیں۔ جب آپ کے جسم میں ان خلیوں کو طاقت دینے کے لیے کافی گلوکوز نہیں ہوتا ہے، تو ہارمون انسولین کی سطح کم ہو جاتی ہے، جس کی وجہ سے جسم میں چربی کے ذخیروں سے فیٹی ایسڈز زیادہ مقدار میں خارج ہوتے ہیں۔ ان میں سے بہت سے فیٹی ایسڈ جگر میں منتقل کیے جاتے ہیں، جہاں وہ آکسائڈائز ہو کر کیٹونز میں تبدیل ہو جاتے ہیں، جنہیں کیٹون باڈیز بھی کہا جاتا ہے۔ یہ پھر پورے جسم میں توانائی کے متبادل کے طور پر استعمال ہوتے ہیں .فیٹی ایسڈز کے برعکس، کیٹونز خون کے دماغ کی رکاوٹ کو عبور کر سکتے ہیں اور گلوکوز کی عدم موجودگی میں آپ کے دماغ کو توانائی فراہم کر سکتے ہیں.

کیٹوسس اور کیٹوجینک غذا

کیٹوسس کی حالت میں داخل ہونے کے لیے، آپ کو روزانہ 50 گرام سے کم کاربوہائیڈریٹ کھانے کی ضرورت پڑسکتی ہے، بعض اوقات 20 گرام تک۔ صحیح کاربوہائیڈریٹ کی مقدار جو کیٹوسس کا سبب بنے گی انفرادی طور پر مختلف ہوتی ہے .اس کو حاصل کرنے کے لیے، آپ کو اپنی غذا سے کاربوہائیڈریٹ سے بھرپور غذاؤں کو ہٹانے یا بہت زیادہ کم کرنے کی ضرورت ہے،
ذیل میں چند ایک غذائیں درج ہیں جو بہت زیادہ کاربوہائیڈریٹ کا موجب بنتی ہیں:

اناج
دالیں
آلو
پھل
کینڈی
میٹھے سافٹ ڈرنکس اور شوگر میٹھے مشروبات
مصالحہ جات اور چٹنی جن میں چینی ہوتی ہے، جیسے کیچپ یا باربی کیو ساس وغیرہ۔۔۔
اس کو تناظر میں رکھنے کے لیے، روٹی کے 1 ٹکڑے (32 گرام) میں تقریباً 15 گرام کاربوہائیڈریٹ ہوتے ہیں، جب کہ 1 کپ (186 گرام) پکے ہوئے چاول میں تقریباً 53 گرام کاربوہائیڈریٹ ہوتے ہیں۔

لوگ دیگر وجوہات کے علاوہ وزن کم کرنے، اپنے خون میں شکر کی سطح کو بہتر طریقے سے منظم کرنے، یا مرگی سے متعلق دوروں کے واقعات کو کم کرنے کے لیے کیٹو ڈائیٹ پر عمل کرنے کا انتخاب کر سکتے ہیں۔

علامات

اگر آپ جان بوجھ کر کیٹوجینک غذا کی پیروی کر رہے ہیں، تو آپ حیران ہو سکتے ہیں کہ کیا آپ نے کیٹوسس حاصل کر لیا ہے۔ یہاں کچھ عام علامات اور علامات ہیں:

سانس کی بدبو، جو کہ ایسیٹون نامی کیٹون کی وجہ سے ہوتی ہے۔
وزن میں کمی
بھوک میں کمی
سر درد
متلی
دماغی دھند
تھکاوٹ
کیٹوسس میں نئے فرد کے لیے یہ عام بات ہے کہ وہ کیٹو فلو کے نام سے جانی جانے والی متعدد علامات کا تجربہ کرتا ہے، جیسے کہ سر درد، تھکاوٹ، متلی، اور پیٹ کی خرابی۔

یہ یقینی طور پر جاننے کے لیے کہ آپ کیٹوسس میں ہیں، بہتر ہے کہ آپ پیشاب یا خون کی پیمائش کرنے والے کے ذریعے اپنے خون کی کیٹون کی سطح کو چیک کریں۔ اگر آپ کے خون میں کیٹونز 0.5-3.0 ملیمول فی لیٹر (mmol/L) کے درمیان ہیں تو آپ نے کیٹوسس حاصل کر لیا ہے۔

صحت کے فوائد

ketosis میں ہونے کے کچھ ممکنہ صحت کے فوائد ہیں، خاص طور پر طویل مدتی۔ پھر بھی، یہ بات قابل غور ہے کہ تمام ماہرین متفق نہیں ہیں، اور بہت سے لوگ اعلیٰ معیار کی تحقیق کا مطالبہ کرتے ہیں۔

مرگی

مرگی ایک دماغی عارضہ ہے جس میں مریض کو بار بار دورے آتے ہیں۔ یہ ایک اعصابی حالت ہے اور دنیا بھر میں تقریباً 50 ملین افراد کو متاثر کرتی ہے۔ مرگی کے شکار زیادہ تر لوگ اپنے دوروں پر قابو پانے کے لیے دوائیں استعمال کرتے ہیں، حالانکہ علاج کا یہ اختیار تقریباً 30% لوگوں میں غیر موثر ہے۔ 1920 کی دہائی کے اوائل میں، کیٹوجینک غذا ان لوگوں میں مرگی کے علاج کے طور پر متعارف کرائی گئی جن کو ادویات سے افاقہ نہیں ہوا تھا۔ مرگی کے شکار بچوں اور بڑوں دونوں میں بہت سے مطالعے سے پتہ چلا ہے کہ یہ دوروں کو نمایاں طور پر کم کر سکتا ہے اور بعض اوقات مرض کو ختم کرنے کا سبب بھی بن سکتا ہے۔ غذا کے اس سسٹم کو طویل مدتی پیروی کرنا مشکل ہے اور عام طور پر ان لوگوں کے لیے مخصوص ہے جو روایتی علاج سے صحتیاب نہیں ہوتے۔

وزن میں کمی

حالیہ برسوں میں، کیٹوجینک غذا وزن میں کمی کو فروغ دینے کی صلاحیت کی وجہ سے مقبولیت میں بڑھ گئی ہے۔ بہت کم کاربوہائیڈریٹ والی خوراک کھاتے وقت، آپ کا جسم خود کو ایندھن دینے کے لیے جگر میں پیدا ہونے والی چربی سے حاصل ہونے والے کیٹونز پر انحصار کرتا ہے۔ وقت گزرنے کے ساتھ، یہ معنی خیز وزن اور چربی میں کمی کا باعث بن سکتا ہے۔

مزید یہ کہ لوگ کیٹوجینک غذا پر کم بھوک محسوس کرتے ہیں، جس کی وجہ کیٹوسس ہے۔ اس وجہ سے، خوراک کی پیروی کرتے وقت کیلوریز کو شمار کرنا عام طور پر غیر ضروری ہے۔

تاہم، یہ بڑے پیمانے پر تسلیم کیا گیا ہے کہ طویل مدتی کامیابی کے لیے سختی سے پابندی ضروری ہے۔ کچھ افراد کو کیٹوجینک غذا پر قائم رہنا آسان معلوم ہو سکتا ہے، جبکہ دوسروں کو یہ غیر پائیدار معلوم ہو سکتا ہے۔ یہ بات بھی قابل غور ہے کہ کچھ تحقیق بتاتی ہے کہ کیٹو ڈائیٹ وزن کم کرنے کا بہترین طریقہ نہیں ہو سکتا۔

ٹائپ 2 ذیابیطس

کیٹوجینک غذا پر عمل کرنے سے ذیابیطس کے مریضوں کو فائدہ ہوا ہے۔

تحقیق سے پتہ چلتا ہے کہ کیٹوجینک غذا کی پیروی لوگوں میں بلڈ شوگر کی سطح کو منظم کرنے کے لئے ایک مؤثر حکمت عملی ہے۔


کیٹوجینک غذا پر عمل کرنا طویل مدتی مشکل ہوسکتا ہے، اس لیے یہ اس حالت میں مبتلا بہت سے لوگوں کے لیے مناسب حکمت عملی نہیں ہوسکتی ہے۔ مزید برآں، یہ آپ کو ہائپوگلیسیمیا، یا بلڈ شوگر کی کم سطح کے زیادہ خطرے میں ڈال سکتا ہے۔

لہذا، صحت کی دیکھ بھال کرنے والے پیشہ ور کے ساتھ مل کر کام کرنا ضروری ہے۔ وہ آپ کی ذیابیطس کو منظم کرنے کا طریقہ تلاش کرنے میں مدد کر سکتے ہیں جو آپ کی صحت، طرز زندگی اور ترجیحات کے مطابق ہو۔

نقصانات اور خطرات

اگرچہ کیٹوجینک غذا کچھ فوائد فراہم کر سکتی ہے، لیکن یہ کئی ضمنی اثرات کو بھی متحرک کر سکتی ہے اور ہر کسی کے لیے موزوں نہیں ہے۔

قلیل مدتی ضمنی اثرات میں سر درد، تھکاوٹ، قبض، پانی کی کمی اور سانس کی بو شامل ہیں۔ یہ عام طور پر خوراک شروع کرنے کے چند دنوں یا ہفتوں کے اندر غائب ہو جاتے ہیں
غذا گردے کی پتھری، ہائی ایل ڈی ایل (خراب) کولیسٹرول، اور غذائی اجزاء کی کمی کے خطرے سے بھی وابستہ ہے۔

کیونکہ خوراک انتہائی پابندی والی ہے، یہ ان لوگوں کے لیے موزوں نہیں ہو سکتی جن کے کھانے کے اوقات خراب ہیں۔ اس کے علاوہ، ایسی سخت غذا کی پیروی کچھ لوگوں کے لیے سماجی طور پر الگ تھلگ محسوس کر سکتی ہے، کیونکہ کھانے کے اختیارات اکثر سماجی ترتیبات میں محدود ہوتے ہیں
یہ نوٹ کرنا بھی ضروری ہے کہ دودھ پلانے والی ماؤں میں جو کم کاربوہائیڈریٹ یا کیٹو ڈائیٹ کی پیروی کرتی ہیں ان میں ketoacidosis، جو کہ ممکنہ طور پر جان لیوا حالت ہے، کی اطلاعات موصول ہوئی ہیں۔ اگر آپ دودھ پلا رہے ہیں، تو اس خوراک کو آزمانے سے پہلے کسی ہیلتھ کیئر پروفیشنل سے بات کریں۔

وہ لوگ جو ہائپوگلیسیمک، یا بلڈ شوگر کم کرنے والی دوائیں لے رہے ہیں، انہیں کیٹوجینک غذا آزمانے سے پہلے کسی ہیلتھ کیئر پروفیشنل سے بھی مشورہ کرنا چاہیے، کیونکہ اس سے ان کی دوائیوں کی ضرورت کم ہو سکتی ہے۔

بعض اوقات کیٹوجینک غذا میں فائبر کم ہوتا ہے۔ اس وجہ سے، اچھی ہاضمہ صحت کو برقرار رکھنے اور قبض سے بچنے کے لیے کافی مقدار میں فائبر، کم کارب سبزیاں کھانا ایک اچھا خیال ہے۔

آخر میں، جب کہ کچھ لوگ کیٹوجینک غذا سے لطف اندوز ہوتے ہیں، زیادہ تر لوگوں کے لیے یہ ضروری نہیں ہے۔ اگر آپ نہیں چاہتے ہیں تو آپ کو وزن کم کرنے یا اپنی ذیابیطس پر قابو پانے کے لیے غذا آزمانے کی ضرورت نہیں ہے۔

اگر آپ بہت کم کاربوہائیڈریٹ والی خوراک میں تبدیل ہونے میں دلچسپی رکھتے ہیں، تو پہلے کسی ہیلتھ کیئر پروفیشنل سے مشورہ کریں۔



Translated from Article: https://www.healthline.com/nutrition/what-is-ketosis

Sunday, January 15, 2023

Life of The first Caliph



Abu Bakr as-Siddique (also known as Abu Bakr) was the first Caliph (leader) of the Islamic community after the death of the Prophet Muhammad. He was born in Mecca in 573 CE and was one of the early converts to Islam. He was a close companion and trusted advisor of the Prophet Muhammad and was known for his wisdom and fairness.

After the death of Prophet Muhammad, Abu Bakr was elected as the leader of the Muslim community in a shura, or consultative assembly. He was known for his strong leadership, and during his rule, he was able to unite the Muslim community and expand the Islamic empire. He also compiled the Quran in its current form. He served as Caliph from 632-634 CE. He is considered one of the "Rashidun" or "Rightly Guided" Caliphs, and his rule is seen as a key period in the early history of Islam.

How Abu bakr was elected

The caliph, or leader of the Islamic community, was traditionally elected through a process known as shura, or consultative assembly. This process involved a council of Muslim leaders who would gather to discuss and elect the next caliph.

After the death of Prophet Muhammad, the leaders of the Muslim community gathered to elect a new caliph. At this meeting, known as the Saqifah, Abu Bakr was elected as the first caliph of the Islamic community. The election of Abu Bakr was not without controversy, as some members of the community felt that the leadership should have passed to one of the Prophet's relatives.


Abu Bakr was elected based on his close companionship and trustworthy to Prophet Muhammad, his wisdom and fairness, his strong leadership and his ability to unite the Muslim community. He was considered as the most suitable person to lead the Muslim community after the death of the Prophet.


It's worth noting that the concept of caliph as a political leader and the way of selecting one developed after the death of Prophet Muhammad, and the selection process evolved over time.


Opposition on his election

Abu Bakr's election as caliph was not without opposition. Some members of the Muslim community felt that leadership should have passed to one of the Prophet Muhammad's relatives, such as Ali ibn Abi Talib, who was the Prophet's cousin and son-in-law. There were also some leaders from different tribes who felt that they should have been given more consideration for the role of caliph.

One of the most notable opposition to Abu Bakr's caliph position came from a group known as the "Shiatu Ali" or "Party of Ali". This group believed that Ali should have been the first caliph and that he was the rightful leader of the Muslim community. They felt that Abu Bakr's election was illegitimate and that Ali should have been given the opportunity to lead.

Another opposition came from a group called the "Kharijites" who rejected the idea of any human leader and believed that leadership should be based on piety and not on family or tribal ties. They rejected Abu Bakr's rule, and they later rebelled against the caliphates that followed.

Despite the opposition, Abu Bakr was able to establish his authority and maintain the unity of the Muslim community through his strong leadership and political acumen.


How Hazrat Umar Farooq helped him to become caliph

Umar ibn al-Khattab, also known as Umar Farooq, played a crucial role in supporting and consolidating Abu Bakr's position as caliph. He was a close companion of the Prophet Muhammad and was known for his military and administrative abilities.


When the Muslim community gathered to elect a new caliph after the death of the Prophet Muhammad, Umar was initially among those who supported the candidacy of Ali ibn Abi Talib. However, he later switched his support to Abu Bakr, recognizing his wisdom, fairness and his close companionship to the Prophet.

Umar's support was important because of his reputation as a strong leader and his ability to command the respect and loyalty of the Muslim community. His support helped to sway other leaders and community members to accept Abu Bakr as the new caliph.

After Abu Bakr's election, Umar played a key role in consolidating his authority. He supported Abu Bakr in his campaigns to expand the Islamic empire and to establish the authority of the caliph over the Muslim community. He also helped to organize the administration of the empire, and served as the chief advisor to the caliph. 


Challenges Hazrat Abu Bakr faced

Abu Bakr faced several challenges after he was elected as the first caliph of the Islamic community. Some of the main challenges he faced included:

Consolidating his authority: Abu Bakr faced opposition from some members of the Muslim community who felt that leadership should have passed to one of the Prophet Muhammad's relatives. He had to work to establish his authority and gain the support of the community.


Maintaining unity: The Muslim community was still in the process of mourning the loss of the Prophet Muhammad and was facing internal divisions and rivalries. Abu Bakr had to work to maintain unity and prevent further divisions.


Managing the empire: The Islamic empire was rapidly expanding, and Abu Bakr had to manage the administration of the empire and ensure that the conquered territories were properly governed.


Riots and Rebellions: There were several riots and rebellions that broke out in the empire, particularly in the newly conquered territories, and Abu Bakr had to put them down with force.


Managing the economy: The empire was facing economic challenges, particularly related to the distribution of spoils of war, and Abu Bakr had to find ways to ensure the economy was stable.

Managing the relations with neighboring states: The newly established Muslim empire was facing threats from neighboring states, and Abu Bakr had to manage relations with them, and also had to prepare for potential military conflicts.

Despite these challenges, Abu Bakr was able to establish his authority, maintain unity, and expand the empire through his strong leadership and political acumen.


Empire expansion in his rule 

During Abu Bakr's rule as caliph, the Islamic empire expanded significantly. After the death of the Prophet Muhammad, the empire consisted of the Arabian Peninsula and some parts of present-day Iraq. However, during Abu Bakr's rule, the empire expanded to include modern-day Iraq, Iran, Egypt, Palestine, Lebanon, Jordan, and parts of Syria.

Abu Bakr launched several military campaigns to expand the empire, including the Ridda Wars, which were fought against Arab tribes that had rebelled against the central authority of the caliph. He was successful in putting down the rebellion and bringing these tribes under the control of the Muslim empire.

He also launched military campaigns to conquer Iraq and Iran, which were known as the Persian and Byzantine campaigns. The Byzantine campaign was led by Khalid ibn al-Walid and resulted in the fall of several Byzantine fortresses and the conquest of many territories in Syria. The Persian campaign was led by Rabi'ah ibn Ziyad Al-Harithi, and resulted in the fall of several Persian fortresses and the conquest of many territories in Iran.

It's worth noting that the expansion of the empire was not only limited to military campaigns but also through peaceful means of negotiation and alliances with neighboring tribes and states.

In summary, during the two years of his rule, Abu Bakr expanded the empire from the Arabian Peninsula to include modern-day Iraq, Iran, Egypt, Palestine, Lebanon, Jordan, and parts of Syria.


When and How caliph died 

Abu Bakr died on August 23, 634 CE, after serving as caliph for two years. He died at the age of 63 and was buried in Medina, Saudi Arabia.

The exact cause of his death is not known, but it is believed that he died of natural causes. He had been suffering from an illness for some time before his death, and it is thought that this may have contributed to his death.

Before his death, Abu Bakr had nominated Umar ibn al-Khattab as his successor, and the Muslim community accepted his nomination. Umar then became the second caliph of the Islamic empire.


Abu Bakr's death was met with great sadness by the Muslim community. He was widely respected and admired for his strong leadership, wisdom, and fairness. He is considered one of the "Rightly Guided" caliphs in Islamic history, and his rule is seen as a key period in the early history of Islam.


Saturday, January 14, 2023

Unique Business ideas for Pakistan

 


Here are some unique and brilliant business ideas that may be successful in Pakistan:

1.      Urban farming and hydroponics business:
This can be a great way to provide fresh, locally-sourced produce to consumers in the city. This type of business involves growing plants in an urban environment, typically using hydroponic systems that don't require soil. Hydroponics allows for year-round crop production and efficient use of space, making it a great option for urban areas where land is limited. This type of business can provide fresh, locally-sourced produce to consumers in the city, and can also serve as a source of income for urban farmers.

2.      Electric vehicle charging stations:
As the market for electric vehicles grows in Pakistan, so too will the demand for charging stations. Electric vehicles (EVs) are becoming more popular in Pakistan, as they are more environmentally friendly and cost-effective to operate compared to traditional gasoline-powered vehicles. However, the infrastructure for EV charging is still relatively limited in Pakistan. Setting up EV charging stations in strategic locations, such as at shopping centers, parking garages, and hotels, can be a profitable business opportunity.

3.      Virtual and augmented reality services:
With the growth of technology, virtual and augmented reality services is becoming more in demand for various industries, such as real estate, gaming, and education. Virtual reality (VR) and augmented reality (AR) technology is becoming more accessible and affordable, making it possible for businesses to use it in a variety of ways. For example, real estate companies can use VR to give potential buyers virtual tours of properties, while gaming companies can use AR to create immersive gaming experiences.

4.      Sustainable packaging solutions:
As consumers become more environmentally conscious, businesses that offer sustainable packaging solutions, such as biodegradable packaging materials and refillable containers, will be in high demand. With the increasing awareness of environmental issues, consumers are looking for products that are packaged in an eco-friendly way. Businesses that offer sustainable packaging solutions, such as biodegradable packaging materials, refillable containers, and recycled packaging, will be in high demand.

5.      Online mental health and counseling services:
With the stigma around mental health slowly decreasing in Pakistan, online mental health and counseling services can be a great business opportunity. Despite the increasing awareness of mental health, there is still a lot of stigma surrounding it in Pakistan. Online mental health and counseling services can be a great way to provide access to mental health support for those who may not feel comfortable seeking it in person.

6.      Cybersecurity services:
With the increase of online activities, businesses and organizations will require services to protect their digital assets and data. The increasing use of digital devices and online services in Pakistan has also led to an increase in cyber-attacks. Businesses and organizations will require services to protect their digital assets and data, such as network security, data encryption, and penetration testing.

7.      Health and wellness retreats:
With the increase of stress and pressure, many people are looking for ways to relax and recharge. Health and wellness retreats can be a great business opportunity. With the increase of stress and pressure, many people are looking for ways to relax and recharge. Health and wellness retreats can be a great business opportunity. These retreats could offer yoga and meditation classes, healthy meals, massages, and other activities that promote relaxation and well-being.

8.      Mobile-based financial services:
There is a high potential for mobile-based financial services, such as mobile banking and digital payments, in Pakistan as the country is rapidly moving towards a cashless society. With the increased use of mobile phones and internet in Pakistan, there is a high potential for mobile-based financial services, such as mobile banking and digital payments. These services can make it easier for people to access financial services, especially in rural areas where traditional banking services may be limited.

9.      Waste management and recycling:
As the population grows and more waste is produced, businesses that offer waste management and recycling services will be in high demand. With the population growth and more waste produced, businesses that offer waste management and recycling services will be in high demand. These businesses can include garbage collection, recycling, composting, and other services that help reduce the amount of waste sent to landfills.

10.  Online language learning platforms:
With the increasing globalization, learning a new language is becoming more important. An online platform that teaches different languages could be a great business idea. With the increasing globalization, learning a new language is becoming more important. An online platform that teaches different languages could be a great business idea. The platform could offer classes, quizzes, and other resources to help learners improve their language skills.

Please keep in mind that these are just examples and it's always recommended to conduct a market research to determine the viability of the business in your area and target market.