Friday, October 30, 2015

سائنسی علوم شیطانی یا رحمانی؟ Science from God or devil

میرے حالیہ مضمون 
جس میں دنیا کے سب سے مشہور سائنسدان آئین اسٹائین کی اس مساوات کو زیربحث لایا گیا تھا جس نے ٹیکنالوجی کی دنیا میں انقلاب برپا کردیا تھا۔ اسے جب میں نے فیس بک پر پوسٹ کیا تو مجھے ای میل کے زریعے کچھ افسوسناک کمنٹس موصول ہوئے۔ ان میں سے محترمہ کا کہنا تھا کہ: قرآن کو سمجھنے کی کوشش کرو جو دنیا اور آخرت کی کامیابی ہے اور ان شیطانی علوم کو مارو گولی۔۔۔۔۔

مجھے اپنی جہالت پر افسوس ہوتا تھا اپنی اس کم علمی کو دورکرنے کی خاطر پڑھنے کو اور ہردم نیا سیکھنے کی کوشش
 میں لگا رھتا ہوں۔ مگر مجھے زیادہ افسوس اس پر ہوا کہ یہاں جہالت میں چند لوگ مجھ سے چار ھاتھ آگے بھی ہیں۔ سائنس کی محتاج اس انٹرنیٹ کو استعمال کرنا اور پھراسی کو شیاطانی علم قرار دینا۔ یقینا ایک کھلا تضاد ہی تو ہے۔ سائنس کیسے شیطانی علم ہوگیا یہ بات کوئی مجھے سمجھائے۔ دنیا اور کائینات کو خدا نے بنایا ہے اس کو چلانے کے لئے خدا نے قوانین بنائے ہیں۔ ساری کائینات ان قوانین کے تابع ہے۔ دن اور رات انہیں قوانین کے زیراثر بدلتے ہیں۔ گرمی اور سردی انھیں کا نتیجہ ہیں۔ بارشیں، سیلاب، زلزلے، طوفان سب انھیں قوانین کی وجہ سے وقوع پزیر ہوتے ہیں۔ جانداورں کی افزائش یا بےجان اشیاء کی بوسیدگی سب میں یہی اصول کارفرما ہیں۔ اقوام کے عروج و زوال بھی انھی قوانین کے تابع ہیں۔۔۔۔۔ ہمیں یہ یاد رکھنا چاہئے کہ یہ کائینات خدا کی بنائ ہوئی ہے اور اس کے تمام قوانین بھی اسی کے دیئے ہوئے ہیں۔ اب اگر کوئی شخص ان اصولوں کی دریافت میں جدوجہد کرتا ہے تو اس مجاہد کو سائنسدان کہتے ہیں۔ اور اس علم یا سائنس کو شیطانی نہیں رحمانی علم کہاجانا چاہیے

 اس خدائی علم کو شیطانی علم قرار دینا بہت بڑی ناانصافی ہے۔ اپنے اسی ظلم کی وجہ سے مسلمان ساری دنیا میں آج ذلیل و خوار ہے۔ سائنس خدا کی بنائی ہوئی اس کائینات کی سمجھ بوجھ کا علم ہے۔ اس کے علماء جو کہ  زیادہ تر غیرمسلم ہیں۔۔۔۔ وہ خدا کی خدائی کو سمجھ کر اور اس کے پوشیدہ رازوں کو جان کر اس علم کو انسانوں کی فلاح کے لئے استعمال کرتے ہیں۔ موبائیل کمیونیکیشن اور انٹرنیٹ کا انقلاب اسی سائینسی تحقیق اور مشقت کا نتیجہ ہے۔ بجلی اور اس سے چلنے والی تمام اشیاء اسی علم کی مرہون منت ہیں۔ آپ کی کاریں ، ٹرینیں اور ہوائی جہاز جنھوں نے آپ کو گدھوں کی سواری سے نجات دلائی ہے یہ بھی انھیں سائنسدانوں اور اسی علم کی مرہون منت ہے۔۔۔۔۔ قرآن کو سمجھو اس میں بھی خدا انسانوں کو دنیا اور کائینات کو سمجھنے کی بار بار دعوت دیتا ہے۔ نبی پاک نے فرمایا تھا علم حاصل کرو چاہے اس کے لئے تمھیں چین ہی کیوں نہ جانا پڑے۔۔۔۔۔ علم سے مراد تمام علوم ہیں۔۔۔۔ خدا کی نازل کی ہوئی کتاب بھی اور اس کی یہ کائینات کی بھی جس کے بہت سے راز ہم نے جانے اور اس کے بدلے میں خدا نے ہمیں اپنی رحمتوں سے مستفیز ہونے کے توفیق عطا کی۔۔۔۔۔ خدا کے ان علوم میں سے کسی سے بھی جو بھی قوم فائدہ اٹھائے گی خدا اس پر اپنی رحمتیں نچھاور کرے گا۔۔۔۔۔۔۔ اگر مسلمان نالائق ہیں تو کیا ہوا۔۔۔۔ اس کے جو بندے بھی اس کے بنائے ہوئے قوانین اور اصولوں کو سمجھ لیں گے وہ ان سے فائدہ اٹھا سکیں گے۔۔۔۔۔ 


خدا کے لئے جہالت کی باتیں بند کردیں ۔۔۔۔ اسی بوسیدہ سوچ کی وجہ سے قوم پہلے ہی بہت خوار ہوچکی۔۔۔۔ اب واپس علم کی روشنی میں آئیں۔۔۔۔۔ ایک وقت تھا جب مسلمانوں کا عروج تھا اس دور میں مسلمان دوسری قوموں کو کائینات کا علم سکھایا کرتے تھے۔ ریاضی ہو یا کیمیا , فلکیات ہو یا فزکس سب میں ہمارے علماء دوسری قوموں کے معلم تھے ۔۔۔۔۔ اس وقت ان قوموں نے سمجھداری کا ثبوت دیا انھوں نے اسلام دشمنی میں یہ نہیں کہا کہ یہ مسلمانوں کا علم ہے اس کو حاصل نہ کرو۔۔۔ بلکہ انھوں نے علم کو ہم سے حاصل کیا اور پھر اسے آگے بڑھایا۔۔۔۔ اس دور میں علم قابل قدر تھا عمل میں تفریق نہ تھی۔ بعد کے زمانوں میں جب علم کی برکت سے ہم لوگ دنیاوی طور پر پرآسائش زندگی گزارنے کے قابل ہوئے تو راہ سے بھٹک گئے۔  مسلم حکمرانوں نے آمریت  کی بنیاد ڈالی اور خاندانی حکومتوں کا سلسلہ چل نکلا۔ خاندانی بادشاہت میں کردار اور قابلیت نہیں بلکہ ولادت دیکھی جاتی ہے۔ اس لئے جب مسلم علاقے کمزور اور نالائق حکمرانوں کے قبضہ قدرت میں آگئے تو انھیں اور کچھ نہ سوجھا تو عمارتیں بنانے پرزور دے ڈالا۔۔۔۔۔ علماء سے وہ خائف رہنے لگے اور چاپلوسی کرنے والے درباروں میں جگہ بنانے لگے۔ یہیں سے علم دشمنی کی بنیاد پڑی۔ ہمارے حکمران جب بڑے بڑے قلعے اور جوبصورت باغات و مقبرے بنانے میں مصروف تھے اسی دور میں یورپ کے لوگ جنھوں نے ہم سے ہی دنیاوی علوم حاصل کئے وہ لوگ وہاں بڑی بڑی یونیورسیٹیز بنانے میں مگن تھے۔ اس طرح وہ خدا کی بنائی ہوئے کائینات کو سمجھنے میں  لگ گئے۔ انھوں نے کائینات کو تسخیر کرنے کا منصب سنبھال لیا ہے جو کہ بطور مسلم ہمارا کام تھا۔ اب تسخیر کائینات تو دور کی بات جو بھی نئی چیز ہمارے سامنے آتی ہے ہم اسے شک کی نگاہ سے دیکھتے ہیں۔  ہمارے علماء جب کسی چیز کو سمجھ نہیں پاتے تو اس کے خلاف فتوہ دے دیتے ہیں۔ مزے کا بات یہ ہے کہ یہ لاوڈاسپیکر جس سے مولوی حضرات دن رات چمٹے رہتے ہیں جب یہ نیا نیا برصغیر میں وارد ہوا تو اس پر بھی علماء دین نے فتوہ جاری کیا۔  علماء نے فرمایا کہ اس میں سے جو آواز نکلتی ہے وہ دراصل شیطان کی آواز ہے لہذا جو کوئی اس مشین میں بولے گا اس کا نکاح ٹوٹ جائے گا۔ وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ اس کی افادیت کا اندازہ ہوا تو اس کا استعمال عام ہوتا گیا۔ اور آج علماء حضرات کی کوئی محفل اس کے بغیر سج نہیں سکتی۔

آج ہم نے سائینس اور قرآن کے علوم میں تفرقہ ڈال دیا۔ قرآن کا علم حاصل کرنا تو ثواب مگر خدا کی بنائی دنیا کی سمجھ بوجھ حاصل کرنا فضول علم؟ اسی فضول علم کی بدولت دوسری اقوام ہم پر حکومت چلا رہی ہیں اور ہم دنیا کی ہر نعت کے لئے ان کے محتاج ہو کر رہ گئے ہیں۔ بس کردو اب یہ تفریق بند کردو۔ سائنسی علوم سے دشمنی ختم کرو۔ اسی میں ہماری بقا  ہے۔ کیا ایسا نہیں ہے؟

No comments:

Post a Comment