Wednesday, October 28, 2015

قائداعظم کے نظریات اور ان کے وارث

Photo Credits  : flickr

قائداعظم محمدعلی جناح برصغیر کے مسلمانوں کے کتنے بڑے محسن ہیں اس بات کا کبھی اتنا احساس نہیں ہواہوگا جتنا ہندوستان میں حالیہ دنوں میں مسلمانوں اور دیگر اقلیتوں کے ساتھ ہونے والے سلوک کے بعد ہوا ہے۔ بچپن سے اپنے اس محسن کے بارے میں پڑھتے آرہے ہیں۔ ان کی پاکستان بنانے میں کوششوں کا ذکرنصابی کتابوں میں درج ہے مگر ہماری نصابی کتابیں کبھی بھی قائد کی اصل شخصیت کو اجاگر نہیں کرسکیں۔ ہمارے نوجوان قائد کے چودہ نکات کو رٹا لگاکر امتحان تو پاس کرلیتے ہیں مگر چودہ نکات اوران کے مقاصد کو کبھی سمجھ نہیں پاتے۔  ہماری کمزوریوں سے فائدہ اٹھاتے ہوئے ملک دشمنوں نے جہاں ہماری سرحدوں پر یلغار کئے رکھی وہیں ہماری نظریاتی سرحدیں بھی محفوظ نہ رہیں. پاکستان میں جمہوریت کو کبھی طاقتور ہونے نہ دیاگیا۔ کمزور حکمرانوں کی وجہ سے یہاں ایسے لوگ طاقتور ہوتے گئے جو نظریاتی طور پر ہمیشہ قائد کے حریف رہے اور  قائد اعظم کو کافراعظم کا خطاب دیا کرتے تھے۔ ان لوگوں نے قائد کی شخصیت کو اور اس کے نظریات کو مسخ کر ڈالا۔ اسی پاکستان میں مایوسی کے دور میں ایسا وقت بھی آیا جب لوگوں کویہ کہتے بھی سنا گیا کہ قائد اعظم انگریزوں کا ایک ایجنٹ تھا۔ اور پاکستان بنا کر بہت بڑی غلطی کی گئی۔۔۔۔۔۔ 

یقینا اس طرح کی باتیں ہمارے یہاں ہندوستانی ایجنٹس کی وجہ سے پہنچیں۔ اب تو بہت واضع ہوچکا کہ کون کون اس ملک میں ہندوستان کے پےرول پر تھا۔ ابھی شاید چند کرداروں کے چہرے افشاں ہونا باقی ہو مگر ایک بات تو طے ہے کہ ہم لوگ اپنے قائد اور اس کے نظریات کی حفاظت نہیں کرپائے۔ قائد کی زندگی پر تحقیق اور ان کے نظریات کو سمجھنے کی کوشش نہیں کی گئی۔ بلکہ قائد کے نظریات کو توڑ موڑ کر پیش کیا گیا۔ یہ سب اس لئے ہوا کیوں کہ وہی لوگ میرکاروان بن گئے جو کاروان کا حصہ بھی نہ تھے۔

قائد اعظم کی حیات کے بہت سے پہلو ہیں جو ہم سے چھپے رہ گئے ہیں۔ ان کی سیاسی جدوجہد کا توذکربہت سنا ہے مگر ان کے کردارو اخلاق ،دوراندیشی ، معاشرتی شعور، بے خوفی اور دیانت کا ذکر زرہ کم کم ہی سنا گیا ہے۔ قائداعظم شروع میں مسلم ہندو اتحاد کے بہت بڑے داعی تھے۔ آپ ایک سیکولر سوچ کے حامل مسلمان تھے جو اپنی مذہبی شناخت پر فخر محسوس کرنے کے ساتھ دوسروں کے عقائد کا بھی اتنا ہی احترام کرتے تھے۔ آپ کے بارے میں مشہور تاریخ دان آرنلڈ ٹوین بی لکھا کہ ’جناح دنیا کے عظیم سیاستدانوں میں سے ایک ہیں’

 ہمیشہ مسلمانوں کی آواز اٹھانے پرآپ کے بارے میں مشہور تھا کہ آپ فرقہ پرست ہیں۔ مگر جب ایک ہندو شدت پسند کو سزا ہوئی تو آپ نے ہی اس کا دفاع کیا اور اس کی سزا کو ختم کروایا۔ اور یہ قائد اعظم ہی تھےجنھوں نے بھگت سنگھ کے حق میں اسمبلی میں بات کی تھی۔ جبکہ نہرو نے بھگت سنگھ کو ایک پاگل قرار دے دیا تھا۔ آپ ایک پکے نیشنلسٹ تھے اسی لئے تو آپ اکثر انگریزوں کے سامنے ڈٹ جاتے تھے جبکہ ان کے مدمقابل گاندھی کئی مرتبہ انگریزوں کے آگے جھک گئے۔ جلیاں والا کے اندوھناک واقعہ کے بعد انگریزوں کی حکومت نے امن ہونے کی خوشی پرایک جشن منانے کا احتمام کیا اور مختلف سیاسی لیڈروں کو اس میں مدعو کیا تو قائد اعظم نے اس دعوت کا بائیکاٹ کیا جبکہ گاندھی نے اس میں شرکت کی تھی۔

قائد اعظم ہمیشہ اس بات پر ڈٹے رہے کہ سیاست اور مذہب کو آپس میں نہ جوڑا جائے۔ اسی لئے آپ نے تحریک خلافت کی مخالفت کی تھی۔ ایک باشعوراور قانون کی پاسداری کرنے والے شہری ہونے کے ناطے آپ نے گاندھی کی سول نافرمانی کی تحریک کی بھی مخالفت کی۔

قائد اعظم ۱۹۳۹ تک ہندو مسلم اتحاد کی کوشش کرتے رہے۔ آپ کی جدوجہد مسلم مینارٹی کے حقوق کے لئے تھی مگر ہندو کی متعصبانہ سوچ نے آپ کو ہندو اکثریت کے سامنے کھڑا کردیا۔ ہندو لیڈر آپ کی شخصیت سے خوفزدہ تھے اس لئے قائد کو مسلمانوں کا نمائیدہ ماننے سے انکار کردیا۔ اور ۱۹۳۹ میں رامگڑھ سیشن میں آپ کی بجائے انھوں نے مولانا آزاد کواپنا صدر منتخب کیا۔  اس کے دو ماہ بعد مارچ ۱۹۴۰ میں لاہور قرارداد سے اپنے نئے سفر کا آغاز کیا۔ اب آپ جان چکے تھے کہ ہندو آزادی کے بعد کبھی مسلمانوں سے برابری کا سلوک روا نہیں رکھے گا۔ اس دن سے آپ نے ایک نئی ریاست کی جدوجہد کا آغاز کردیا۔

قائداعظم کی تمام سیاسی عمر میں آپ کودو محاذوں پر لڑنا پڑا۔ ایک طرف ہندو مخالفین جو آپ کو ہندوستان کا دشمن جانتے تھے کیونکہ آپ نے ہمیشہ اقلیتوں کے حقوق کے لئے آواز بلند کی۔ اور اب تو آپ نے مسلمانوں کے لئے الگ ملک کا مطالبہ کردیا تھا۔ دوسرے طرف مسلمان شدت پسند تھے جو آپ پر کفر کے فتوے لگا رہے تھے۔ ایک طرف ایک ہندو لیڈر نے ایک ہندو شدت پسند کو پچاس ہزار روپے اور ایک پستول دیا تاکہ وہ قائد کو جان سے ماردے۔ دوسری طرف ایک جنونی مسلمان جو خاکسارتحریک کا ممبر تھا اس نے آپ کی جان لینے کی کوشش کی۔ 

قائد اعظم کو میرا سلام جنھوں نے ان تمام مشکلات کو برداشت کیا اور اکیلے ہی ہندووں پنڈتوں اور مسلمان مولانوں کا سامنا کیا۔ آپ کا احسان ہے جو ایک الگ خطئہ زمیں ہمیں حاصل ہوگیا جہاں ہم لوگ ہندووں کے تعصب سے محفوظ ہوگئے۔ 

مگر رکیں۔۔۔۔۔ ہندووں سے کہاں محفوظ رہے۔۔۔۔ ہندو ایجنٹوں نے میرے قائد کے ملک کا تو نقشہ ہی بدل دیا ہے انھوں نے وہی ہندووں والی عدم برداشت کی بیماری ہم لوگوں میں بھی بو دی ۔۔۔ ہم بھی اسی فصل کا پھل کھا رہے ہیں جس سے بچانے کے لئے  ہمارے قائد نے اپنی زندگی کو داو پہ لگا دیا۔۔۔۔ ہم لوگوں کی نئی لیڈرشپ نے آپ کی ۱۱ اگست ۱۹۴۷ کی تقریر کو چھپا دیا اور ملک کا قبلہ ہی بدل دیا۔

ہم نے قائد کے ساتھ بےوفائی ان جانے کے بعد نہیں کی بلکہ ہم ان کو اور ان کے نظریات کو اس وقت ہی ترک کرچکے تھا جب آپ تربت سے واپس کراچی پہنچے۔ آپ کی صحت بہت خراب ہوچکی تھی۔ آپ کو فورا ہسپتال پہنچنا تھا۔ ہم نے اپنے قائد کو کراچی کی سڑکوں پر مرنے کے لئے چھوڑ دیا تاکہ جلد از جلد ان کا ایک شاندار مقبرہ تعمیر کیا جاسکے۔ جس میں ان کے ساتھ ان کے نظریات اور سیاسی بردباری کوبھی دفن کیا جاسکے۔ پہلے تو جب آپ کراچی ائیرپورٹ پہنچے تو کوئی نمایاں مسلم لیگی آپ کو رسیو کرنے نہیں پہنچا اور پھرہسپتال کے راستے میں آپ کو لے کرجانے والی ایمبولینس خراب ہوگئی۔ وہاں ان کی زندگی کے آخری لمحات میں کوئی نہ پہنچا۔ آپ کی افسوسناک موت نے واضع کردیا کہ آپ کی اور آپ نے نظریات کی اب اس قوم کو ضرورت نہیں رہی۔ اب آپ سے زیادہ سمجھ بوجھ والے افراد نے کنٹرول سمنھال لیا ہے اور قوم کوبھی وہ لوگ قائد کی طرح عبرت کا نشان بنائیں گے کیوں کہ ان کے پاس ہے حتمی سچائی اور وہ عقل کل بھی ہیں۔




Few Lines from Quaid e Azam Muhammad Ali Jinnah's 
Presidential address to the Constituent Assembly of Pakistan
August 11, 1947

... Now I think we should keep that in front of us as our ideal and you will find that in course of time Hindus would cease to be Hindus and Muslims would cease to be Muslims, not in the religious sense, because that is the personal faith of each individual, but in the political sense as citizens of the State.

Well, gentlemen, I do not wish to take up any more of your time and thank you again for the honour you have done to me. I shall always be guided by the principles of justice and fairplay without any, as is put in the political language, prejudice or ill-will, in other words, partiality or favouritism. My guiding principle will be justice and complete impartiality, and I am sure that with your support and co-operation, I can look forward to Pakistan becoming one of the greatest nations of the world.....

No comments:

Post a Comment