Sunday, October 25, 2015

E=mc^2


ای برابر ہے ایم سی مربع کے





آئین سٹائین نے ۱۹۰۵ میں شائع ہونے والے سائینٹفک پیپرزمیں اپنی بین القوامی شہرت یافتہ مساوات متعارف کروائی۔ اس مساوات میں طاقت،جوہر اور روشنی کی رفتارکے باہم رشتے اور اس کے نتیجہ کو ریاضی بلکہ الجبرہ کی زبان میں بیان
 کیا گیاہے۔ یہ مساوات دنیا کی مشہور ترین مساوات میں سے ایک ہے۔ یہ ایک اسی مساوات ہے جس نے اس دنیا پر بہت حیرت انگیز اثرات چھوڑے ہیں۔  جن لوگوں کا سائنس سے کوئی واسطہ نہیں انھوں نے بھی اس کے بارے میں سن رکھا ہے۔ مگر بہت کم لوگوں کو معلوم ہے کہ اس مساوات کا دراصل مطلب کیا ہے؟
سادہ زبان میں بیان کریں تویہ مساوات طاقت اور جوہر کے درمیان باہمی رشتے کو پیش کرتی ہے۔ اور یہ کہ طاقت اور جوہر ایک دوسرے میں تبدیل کئے جاسکتے ہیں۔ اس سادہ مساوات نے ہمارا دنیا کو دیکھنے کا نظریہ ہی بدل دیاہے اور اس کے ساتھ ہی ساتھ اس کی وجہ سے بےشمار ٹیکنالوجیکل ترقی کا آغاز ہوا۔ ذیل کی سطور میں ہم الجبرہ کی اس مساوات کو سمجھنے کی کوشش کریں گے۔

مساوات کی تفہیم
مساوات کو سمجھنے سے پہلے ہمیں اس میں موجود تغیرپزیرقدروالے مختلف الفاظ کے معنی ڈھونڈنا ہوںگے۔  ہماری مساوات میں تین الفاظ ہیں جو اس عظیم مساوات میں استعمال ہوئے ہیں۔ ایک ہے ای۔ ای فار انرجی اور دوسرا ایم۔ ایم فار ماس اور تیسرا سی ، سی فار سپیڈ آف لائٹ۔

۔۱۔ روشنی کی رفتار 
روشنی کی رفتارایک مستقل قدر ہے۔ جو تبدیل نہیں ہوتی۔ اور یہ تقریبا ۳لاکھ کلو میٹرز فی سیکنڈ ہے۔ طاقت کی بنیادی 
خصوصیت کی وجہ سے اس کی گنتی کرتے ہوئے اس کو مربع میں تبدیل کیا جاتا ہے۔ کیونکہ ایک چیز اگر دوسری چیز سے دوگنا رفتار سے حرکت کرے تو اس میں طاقت دوسری چیز کی نسبت دو گنا نہیں بلکہ چار گنا ہوتی ہے۔ روشنی کی رفتار کو ایک مستقل قدر کے طور پر استعمال کیا گیا ہے کیونکہ اگر آپ کسی بھی چیز کو طاقت میں تبدیل کریں تو وہ روشنی کی رفتا سے حرکت کرے گی۔

۔۲۔ طاقت سے کیا مراد ہے؟
طاقت کی کئی قسمیں ہیں۔ جن میں حرارت کی توانائی، بجلی، کیمائی، ایٹمی اور دیگر کئی طرح کی توانائیاں شامل ہیں۔ 

۔ طاقت ایک نظام سےنکل کر دوسرے نظام میں منتقل ہوتی۔ طاقت اور جوہر کو کبھی ختم یا تباہ نہیں کیا جاسکتا۔ یہ تو صرف مختلف شکلیں تبدیل کرتے ہیں۔ مثلا کوئلہ میں 

۔ پوٹینشل انرجی ہوتی ہے اس کوتھرمل انرجی یا حرارت کی توانائی میں منتقل کیا جاتا ہے جب اس کو جلاتے ہیں۔

۔ کسی چیز کی توانائی اس چیز کے ماس یا اس کے وزن ضرب اس چیز کی مربع رفتاریعنی روشنی کی رفتارکےبرابر ہوتی ہے۔

۔۳۔ ماس یا جوہر کا کیا مطلب ہے؟
عام طور پر کسی چیز کے وزن کو ماس یا جوہر تصور کیا جاتاہے۔ یہ سمجھنا بہت اہم ہے کہ کسی چیز کا ماس اور اس کا وزن دو مختلف چیزیں ہیں۔ وزن تو وہ کشش کی طاقت ہے جو ایک چیز محسوس کرتی ہے۔ جبکہ ماس کی مطلب ہے کہ کتنا زیادہ میٹر یا جوہر اس چیز میں موجود ہے۔ وزن تو کشش ثقل کے تبدیل ہونے سے بدل جائے گا مگر اس چیز کا جوہراس وقت تک تبدیل نہیں ہوسکتا جب تک کہ اس کو فزیکلی یا جسمانی طور پر تبدیل نہ کیا جائے۔ جوہر کوکلوگرامزمیں جبکہ وزن کو نیوٹن میں ناپا جاتاہے۔

انرجی اور جوہر کبھی بھی بنائے یا تباہ نہیں کئے جاسکتے یہ صرف اپنی شکل تبدیل کرتے ہیں۔ جوہر میں کتنی انرجی ہوتی ہے اس کی ایک جھلک ہم لوگ جاپان کے شہروں ہیرشیما اور ناگاساکی میں دیکھ چکے ہیں۔ ایک انسان کے اندر ایک ایٹم بم سے ۸۸ ہزار گنا سے بھی زیادہ انرجی موجود ہے مگر ہمارے پاس ابھی ایسی ٹیکنالوجی نہیں آئی جس کی مدد سے اس توانائی کے ذریعے کو استعمال کرسکیں۔ دراصل انسانی جسم کے عناصر بہت مستحکم ہیں جبکہ یورینیم کے عناصراتنے مستحکم نہیں اس وجہ سے یورینیم کے ماس کو انرجی میں تبدیل کرلیا جاتاہے۔ ایٹم بم اسی عنصر کی پیداوارہے۔

مساوات کے فوائد 
اس مساوات سے ہمیں پتہ چلا کہ جسے ہم ہمیشہ الگ الگ چیزیں سمجھتے تھے درحقیقت وہ ایک ہی سکے کے دو رخ ہیں۔ طاقت جوہر میں اور جوہر طاقت میں تبدیل ہوسکتے ہیں۔ اس کے ساتھ ساتھ یہ مساوات یہ بھی واضع کرتی ہے کہ جوہر کے ایک بہت چھوٹے سے ٹکڑے میں بھی بہت بہت بڑی تعداد میں طاقت پوشیدہ ہوتی ہے۔  اسی مساوات کی وجہ سے ہم لوگ ریڈیائی قوت کو سمجھنے کے قابل ہوئے اور بہت سے مختلف ریڈیائی سکین بنالئے جن کی مدد سے انسانی جسم کے اندرونی تصویرحاصل ہوجاتی ہے جسکی وجہ سے جسم کے اندرونی حصوں میں بیماریوں کی موجودگی کا پتہ چلایاجاتاہے اور بروقت علاج ممکن ہوگیاہے۔ اس کے علاوہ ایٹمی توانائی انسان کو محفوظ اور بہترین متبادل مہیا کررہی ہے۔ اسی مساوات کی وجہ سے ہم نے مصنوعی سیارے خلاء میں بھیج سکے ہیں۔ جس کی مدد سے ٹیلی کیونیکیشن کے میدان میں انقلاب برپا ہوا ہے۔ یہ جو موبائل اور انٹرنیٹ ہرشخص کی پہنچ میں آیا ہے یہ اسی مساوات کی مرہون منت ہے۔ اس کے ساتھ ساتھ  ریڈیوکاربن کی مدد سے ہم تاریخی اشیاء کی صحیح عمر کا اندازہ لگانے کے قابل ہوگئے ہیں۔

No comments:

Post a Comment