Tuesday, October 20, 2015

صدارتی نظام کی بحث

آج کل پاکستانی میڈیا کے ایک حصے میں ایک بحث بہت دنوں سے اور بہت زوروں سے چھڑی ہوئی ہے کہ پاکستان کی پارلیمانی نظام حکومت لوگوں کو ڈلیور کرنے میں ناکام ہوگئی ہے۔ جمہوریت نے غریب کی حالت نہیں بدلی۔ غریب غریب تر اور امیر امیر تر ہوتا جارہاھے لہذا جمہوریت میں ایک نیا تجربہ لازم ہوگیاہے اور مبصرین کی رائے میں صدارتی نطام ایک بہترین متبادل ہے۔ ہمارے علماء سیاست کے خیال میں صدارتی نظام کے نفاذ پر تمام نظام بدل جائے گا اور سب لوگ خودبخود پرفارم کرنا شروع کردیں گے یا پھرصدارتی نظام ان پر کو ایسی قدغن لگا دیگا جس کی وجہ سے ان میں کرپشن کی صلاحیت ختم ہوجائے گی۔۔۔۔۔ ایسی یوٹوپیائی سوچ سے مسائل حل نہیں ہوتے بلکہ ہم ایک گڑھے سے نکل کر دوسرے گڑھے میں گرجاتے ہیں۔ ہمیں پہلے تو سائنسی بنیادوں پر تجزیہ کرنا چائیے کہ ہم جس نظام کی وکالت کررہے اس کے فوائد ونقصانات کیا ہیں۔ اس طرزحکومت کا کتنےممالک میں تجربہ کیا گیا ہے اور جہاں اس طرزحکومت کو اپنایاگیا کیا اس نے پارلیمانی طرزحکومت سے بہتر پرفارم کیا ہے؟ دنیا کی ہر چیز کی طرح صدارتی طرز حکومت میں بھی چند خوبیاں اور چند خامیاں ہیں۔ ان پرمختصربحث درج ذیل ہے۔

صدارتی نظام کیا ہے؟
صدارتی نظام حکومت ایک ایسا نظام ہے جس میں حکومت کا سربراہ ہی  ریاست کا سربراہ ہوتا ہے۔ اور یہ انتظامی برانچ کا بھی سربراہ ہوتا ہے جو قانون ساز اسمبلی سے الگ ہوتا ہے۔ مثال کے طور پر امریکہ میں صدارتی نظام حکومت ہے۔ منتخب صدرقانون ساز اسمبلی کو جوابدہ نہیں ہوتا۔ صدارتی نظام کئی طرح کے ہیں مگر ان سب میں عام طور پرمندرجہ ذیل اصول متفقہ طور پر لاگو ہوتے ہیں۔

۔۔ انتظامیہ قانون ساز اسمبلی کے کسی عمل یا آرڈر کو ویٹو کرسکتاہے۔
۔۔ صدرکے دور حکومت کا وقت مقرر ہے۔ الیکشن اپنے مقررہ وقت پر ہی منعقد ہوسکتے ہیں۔ اور ووٹ آف نو کانفیڈنس یا کیسی طرح کے پارلیمانی طریقہ کو استعمال کرکے وقت سے پہلےالیکشن منعقد نہیں کروایے جاسکتے۔ 
۔۔ انتظامیہ فرد واحد کو جوابدہ ہوتی ہے۔ کابینہ کے ممبرصدر کی خوشی کے لئے کام کررہے ہوتے ہیں۔ کابینہ کے وزیر یا مختلف اداورں کے سربراہ قانون ساز اسمبلی کے رکن نہیں ہوتے۔ 
صدر کا عہدہ صدارتی نظام حکومت کے لئے ہی مخصوص نہیں ہے جیساکہ ایک آمرجو عام طور پر قانونی طور پر منتخب نہیں ہوتا وہ بھی صدر کہلاتا ہے۔ پاکستان سمیت بہت سے پارلیمانی نظام حکومت والے ممالک میں بھی صدر کا عہدہ ہوتا ہے۔ جو عام طور پر رسمی ہوتا ہے۔ ہمارے علاوہ جرمنی، انڈیا، آئرلینڈ، اسرائیل اور اٹلی وغیرہ قابل بیان مثالیں ہیں۔

چند ممالک میں طاقتور صدور ہوتے ہیں جو کہ قانون ساز ادارے سے منتخب ہوکرآتاہے۔ ان کا لقب تو صدر ہوتا ہے مگر وہ وزیراعظم کے برابراختیارات رکھتا ہے۔ ساوتھ افریکہ، بوٹسوانہ، نیرو اس طرز حکومت کی مثال ہیں۔

کچھ ممالک میں جزوی صدارتی نظام رائج ہے۔ اس میں وزیراعظم کا عہدہ تو ہوتا ہے مگروہ اسمبلی کے بجائے صدر کو جوابدہ ہوتا ہے۔ آزربائیجان اور مذمبیک ایسے ہی نظام سے منسلک ہیں۔

صدارتی نظام کے فوائد
اس نظام کے حامی عام طورپر چار بنیادی فوائد کا دعوہ کرتے ہیں۔
۔۱۔ براہ راست انتخاب
صدارتی نظام میں عام طور پر صدر براہ راست لوگ منتخب کرتے ہیں۔ اس سے صدر زیادہ طاقتوراور اس کی طاقت زیادہ قانونی ہوتی ہے ، اس لیڈر کی نسبت جس کو کہ بلاواستہ منتخب کیا جاتا ہے۔ تاہم یہ اس نظام کا لازمی خصوصیت نہیں ہے کیونکہ چند صدارتی ریاستوں میں غیرمنتخب یا بلاواستہ منتخب شدہ سربراہ ہوتے ہیں۔ 

۔۲۔ طاقت کے دو الگ مراکز
صدارتی نظام دو الگ طاقت کے مراکزقائم کرتاہے۔ اس طرز حکومت سے ایک دوسرے کو چیک کرنے اور نگرانی کرنے کا نظام وجود میں آتا ہے۔ جس سے طاقت کا غلط استعمال ہونے کا اہتمال کم ہوجاتا ہے۔

۔۳۔ رفتار اور فوری فیصلہ
طاقتور صدر تبدیلیوں کے وقوع پزیر ہونے پر فوری ردعمل دے سکتاہے۔ تاہم طاقت کے الگ مراکز کی وجہ سے نظام سست رفتار بھی ہوسکتاہے۔

۔۴۔ استحکام
وزیراعظم کی نسبت صدرکی مقرر وقتی اقتدار زیادہ استحکام مہیا کرتا ہے۔ جبکہ وزیراعظم کسی بھی وقت برطرف کیا جاسکتا ہے۔


صدارتی نظام پر تنقید اور اس کے نقصانات
نقاد عام طور پر تین بنیادی نقصانات کا دعوہ کرتے ہیں۔ 

۔۱۔ استبدادی رجحانات
بعض سیاسی سائنسدان کہتے ہیں کہ صدارتی نظام ریاست میں مذید بگاڑ کا ذریعہ بنتا ہے اور استبدادیت کی طرف گامزن کرسکتاہے۔

۔۲۔ سیاسی تعطل
صدارتی نظام دو مختلف اور متوازی ساختیں پیدا کرتاہے۔ ناقدین کہتے ہیں کہ یہ چیز سیاسی تعطل پیدا کرسکتا ہے۔ خاص طورپر جب صدر اور اسمبلی میں اکثریت دو مختلف جماعتوں سے ہوتے ہیں اور عام طور پر ایسا ہی ہوتا ہے۔ 
ایسا اس لئے ہوتا ہے کیونکہ ووٹرنئی پالیسیوں سے بہت جلد نتائج کی توقع کرتے ہیں۔ اس کی وجہ سے احتساب کرنا مشکل ہوجاتا ہے اس لئے کہ صدر اور اسمبلی ذمہ داری کو ایک دوسرے پر شف کردیتے ہیں۔

۔۳۔ رہنما کی تبدیلی میں رکاوٹیں
صدارتی نظام میں اکثر اوقات صدر کو عہدے سے ہٹانا کافی مشکل ہوتاہے۔ خاص طور پر جب وہ بہت غیرپسندیدہ کام کرنے لگ جائے۔اس پر رکاوٹ لگانا بہت دشوار ہوتا ہے۔

متوازی عناصر
عملی طور پر دونوں نظام ایک دوسرے سے ملتے جلتے ہیں۔ صدارتی نظام میں صدر اپنی حکومت منتخب کرتا ہے جو قانون ساز اسمبلی کو جوابدہ نہیں ہوتی۔ مگر اسمبلی کے پاس اختیار ہوتا ہے کہ وہ صدر کی تقریریوں کی جانچ پڑتال کرسکیں اور بعض اوقات کچھ حقوق کے ساتھ اسمبلی ان تقریریوں کو روک سکتی ہے۔ اس کے برعکس کابینہ جو کہ اسمبلی کو جوابدہ ہوتی ہے وہ اسمبلی میں موجود اکثریت کو پارلیمانی گرفت کے ذریعے سے کنٹرول کرسکتے ہیں۔ اس کے لئے پارٹی ممبرز کی پارٹی سے وفاداری کو لازمی قرار دے کر پارلیمنٹ کی گرفت کو کمزور کیا جاتاہے۔

No comments:

Post a Comment