Monday, October 19, 2015

غیرسائنسی سوچ کی گرفت - Baloney Detection Kit

ہم لوگ انفورمیشن ایج میں رہ رہے ہیں۔ انفورمیشن ٹیکنالوجی کی وجہ سے معلومات کا ایک طوفان آ گیاہے۔ پہلے صرف پرنٹ میڈیا تھا جبکہ اب الیکٹرونک میڈیا کے ساتھ ساتھ انٹرنیٹ کا انقلاب بھی معلومات کا ایک خزانہ لئے ہماری زندگیوں کو اور ہماری سوچوں کو متاثر کررہے ہیں۔ معلومات کے ان ذرائع میں  اصل واقعات کے ساتھ ساتھ بعض اوقات جھوٹی کہانیاں بھی موجود ہوتی ہیں۔ اور کچھ تو سراسر پراپیگینڈہ مشن کا حصہ ہوتی ہیں جن کا مقصد لوگوں کو گمراہ کرنے کے سوا اور کچھ نہیں ہوتا۔ جدید دور کے ان معلومات کے ذخائر سے فائدہ اٹھانے کے لئے ہمیں حقیقی معلومات اور بےہودہ الفاظ کے مجموعہ میں فرق سیکھنا ہوگا۔ انٹرنیٹ پر ہمیں اکثرو بیشتر ایسے نیم حکیموں سے واستہ پڑتا ہے جو غیرمصدقہ باتوں کو سائنس کا درجہ دے رہے ہوتے ہیں اور اپنے دعوے کوسچ ثابت کرنے کے لئے من گھڑت کہانیاں بیان کرتے نظر آتے ہیں۔
مندرجہ ذیل مضمون میں بیان کردہ چند اصول آپ کو اصل معلومات اور جھوٹ میں فرق کرنے میں مدد دیں گے۔ یہ سائنسی اصول مائیکل شریمر نے اپنے مضمون میں بیان کئے۔ 

۔۱۔ کیا گیا دعوی کے ذرائع کتنے قابل اعتبار ہیں۔
جھوٹی کہانیاں بیان کرنے والے ہمیشہ بہت معتبرنظر آتے ہیں لیکن جب باریک بینی سے تجزیہ کیا جائے توصاف نظرآجاتا ہے کہ جو معلومات اور حقائق وہ بیان کر رہے ہیں وہ سب 
جھوٹے ہیں۔ ان کا بیانیہ اکثر سیاق و سباق سے باہر ہوتا ہے یا پھر مکمل جھوٹی کہانی بیان کی جارہی ہوتی ہے۔  یقینا غلطی ہر ایک سے ہوتی ہے۔ بعض اوقات تاریخی واقعات کو سمجھنے اور بیان کرنے میں غلطی کا عنصر بھی موجود ہوتا ہے۔ بیان کردہ واقعات میں سے غلطی یا فراڈ کو الگ کرنا عام طور پربہت مشکل ہوتا ہے۔ سوال یہ ہے کہ کیا معلومات اور اس کی توجیہات میں شعوری غلط بیانی کے اشارے موجود ہیں؟

۔۲۔ کیا یہ ذریعہ اکثر اسی قسم کے دعوے کرتا ہے؟
غیر سائینسی اور غیر حقیقی دعوے کرنے والوں کو اکثر اوقات جھوٹے دعوے کرنے کی عادت ہوتی ہے۔ آپ کو ایسی سطحی سوچ کے حامل مفکریں اور ان کی حقائق کو توڑنے موڑنے کی عادت کو پہچاننا ہوگا۔ 

۔۳۔ کیا یہ دعوے کسی اور غیرجانبدار ذریعہ سے تصدیق ہوسکتے ہیں؟
عام طور پر جھوٹی معلومات فراہم کرنے والے ایسے دعوے کرتے ہیں جو کسی بھی غیرجانبدار ذرائع سے تصدیق نہیں ہو سکتے۔ ان کو مہرتصدیق لگا کردینے والا اگر کوئی ہوتا ہے تو وہ ان کے دائرہ اثر میں شامل فرد ہی ہوتاہے۔ ہمیں معلوم ہونا چاہئے کہ کون ان دعووں کی تصدیق کرنے والا کون ہے۔ دعووں کی تصدیق اپنے حلقہ اثر سے باہر کسی قابل اعتبار شخصیت یا ادارہ کو کرنا لازم ہے۔

۔۴۔ کیا جانے والا دعوہ ہماری عقل سلیم کے معیار پر پورا اترتا ہے؟
عقل سلیم ہماری روزمرہ کی دنیا کے بارے میں سوجھ بوجھ کا نام ہے۔ کوئی ایسا دعوہ کیسے سچ ہوسکتا ہے جو ہمارے روزمرہ کے مشاہدہ اور سوجھ بوجھ سے متصادم ہو۔ جتنا بڑا دعوہ ہوگا اتنا ہی کڑا اس کا تقابلی جائزہ بھی ہوگا۔ ہمارے یہاں بہت بڑے بڑے دعوے بغیر کسی ثبوت کے کردئے جاتے ہیں اور ہم لوگ اکثر و بیش تر ثبوتوں کی پرواہ کئے بغیر ان دعووں کو یقین کا درجہ دے لیتے ہیں۔

۔۵۔ کیا کسی نے اس دعوے کے غلط ہونے کی سعی کی ہے؟
دعوہ کرنا اور اس کی پیروی آسان کام ہے اور ہم لوگ عام طور پرسہل پرست واقع ہوئے ہیں اس لئے آسان کام کو پسند کرتے ہیں۔  دعووں کی حقیقت جاننے کے لئے ضروری ہے کہ اس کے مخالف سمت کے دلائل اور ثبوتوں کا تجزیہ کیا جائے۔ ایسا کرنے کے بجائے اگر ہم کسی کے دعووں کے حق میں دلائل کو مرتب کرنا شروع کردیں تو یہ تصدیقی تعصب کہلاتا ہے۔ اسی لئے سائنس میں تصدیق دوبارہ تصدیق پھر جانچ پڑتال اور پھر سے اس عمل کو دوہرانا اور خاص طور پر کسی دعوے کو غلط ثابت کرنے کی کوشش کرنا بہت اہم ہے۔ اگر تمام تر کوششوں کے باوجود کسی دعوے کو رد نہ کیا جاسکے تو ایسا دعوہ حقیقت کے قریب ترین ہوتاہے۔

۔۶۔ کیا ثبوتوں کی زیادہ مقدار دعوہ کرنے والے کے اخز شدہ نتائج کی جانب اشارہ کررہی ہے یا کسی اور جانب؟
کسی دعوے کی سچائی معلوم کرنے کے لئے یہ ضروری ہے کہ اس کا دعوہ کرنے والے کی جانب سے مہیا کردہ ثبوتوں کو باریک بینی سے دیکھا جائے۔ الفاظ کے ہیرپھیر سے غیرمتعلقہ ثبوتوں کی اپنے لئے استعمال کیا جاتا ہے۔  جیسے کہ تمام انسان جھوٹ بولتے ہیں کا دعوہ ثابت کرنے کے لئے کوئی یہ کہے کہ کازب ہمیشہ جھوٹ بولتا ہے اور کازب ایک انسان ہے لہذا تمام انسان جھوٹ بولتے ہیں۔ ایسے بہت سے غیرمتعلقہ ثبوتوں کو ملا کر اپنا دعوہ سچ ثابت کیا جاتاہے۔

۔۷۔  کیا دعوہ کرنے والا موجودہ دور کےتحقیق اور تفتیش کے قابل اعتبار اور مقبول اصولوں کو مانتا ہے؟
یہ بات بھی بہت اہم ہے کہ کیا دعوہ کرنے والا موجودہ دور کےتحقیق اور تفتیش کے قابل اعتبار اور مقبول اصولوں کو مانتا ہے یا مطلوبہ نتائج حاصل کرنے کے لئے ان اصولوں کو رد کرتا ہے۔ سچائی کا اصل طلبگار دعوے کی نفی سے آغاز کرتا ہے جیسے کہ سائنسدان یوایف او یا خلائی مخلوق کے بارے میں اس مفروضے سے آغاز کرتے ہیں کہ کوئی خلائی مخلوق موجود نہیں ہے اس کے بعد دعوےداروں کو اپنے دعوے کو ثابت کرنے کے لئے تگڑے ثبوت لانے پڑتے ہیں لیکن اگر ان کے دعوے کو ثبوتوں سے پہلے ہی قبول کرلیاجائے تو پھر اس سے متعلق جھوٹی خبر بھی سچی لگے گی۔

۔۸۔ کیا دعوہ کرنے والا اپنے دعوے کی تصدیق کے لئے وضاحت مہیا کررہا ہے یا وضاحت سے انکاری ہے؟
عام طور پر جب کسی کے پاس اپنے دعوے کے ثبوت دینے کو نہیں ہوتے تو وہ اپنے مخالفین پر چڑھ دوڑتا ہے۔ اپنے دعوے کو سچا ثابت کرنے کے لئے مخالفین کو تنقید و ذلت کا نشانہ بنایا جاتاہے۔ اس طرح دعوے کے ثبوتوں کی اہمیت ثانوی ہوجاتی ہے اور توجہ مخالف کے کردار پر مرتکز ہوجاتی ہے۔ یہ بہت مثالی طریقہ کار ہے جس میں مخالف پر تنقید کی جاتی ہے اور کبھی بھی دعوے کی وضاحت میں ثبوت مہیا نہیں کئے جاتے۔ اس طرح کی چالیں سائنس میں ناقابل قبول ہوتی ہیں۔

۔۹۔ اگر دعوہ کرنے والا نیا دعوہ کرتا ہے توکیا پہلے سے موجود وضاحتوں کو مدنظر رکھتا ہے؟
ایسا دعوہ جو پہلے سے موجود حقیقتوں کی نفی کرتا ہو اس پر یقین کرنے کے لئے ٹھوس شواہد ہونا ضروری ہے۔ اور ان وضاحتوں کی نئی توجیہ بھی مہیا کرنا لازم ہے۔

۔۱۰۔ کیا دعوہ کرنےوالے کے ذاتی اعتقادات اور تعصبات کا نتائج ہیں یا اس کے مخالف ہیں؟
ہر سائنسدان کے اپنے سماجی ، سیاسی اور نظریاتی اعتقادات ہوتے ہیں جو اس کا جھکاو طے کرتے ہیں۔ اس کی وجہ سے موجود معلومات کی وضاحت ہوتی ہے۔ 
اس لئے سائنس میں پئرروئیوسسٹم رائج ہے جس میں ہم مرتبہ افراد کسی بھی دعوہ کا جائزہ لیتے ہیں اور انھیں قبول یا نا منظور کرتے ہیں۔ اس طرح سے ایک شخص کے تعصبات اور ذاتی اعتقادات کے برخلاف نتائج حاصل کئے جاتے ہیں اور حقیقت سامنے آجاتی ہے۔

درحقیقت بےہودہ سوچ اور سائنسی طریقہ سوچ میں کوئی حد بندی لگانا بہت مشکل کام ہے۔ مگر سائنسی سوچ میں اور غیرسائنسی سوچ میں ایک بنیادی فرق ہے اور وہ یہ کہ سائنسدان ہمیشہ احتمال و امکان کو مدنظر رکھتا ہے۔ جو بات سائنسی اصولوں پر پورا اترتی ہے اس کے ھونے کا امکان زیادہ جبکہ دیگر دعووں کے ہونے کا امکان کم ہوتا ہے۔ سائنسدان ایولوشن اور بگ بینگ کو اگر۹ نمبر دیتے ہیں تو اسی امکان کے اصول کے تحت خلائی مخلوق کے یو ایف او کو ۱ نمبر دیتے ہیں۔ جس کا مطلب ہے کہ بگ بینگ اور ایولوشن کے حقیقت ہونے کے امکانات زیادہ ہیں جبکہ دوسرے دعوے کے امکانات کم ہیں۔ ان کی نظر میں سائنس کے نظریات عارضی اور مسلسل تبدیل ہونے والے ہوتے ہیں اور یہی چیز بعض لوگوں کے لئے مایوسی اور پریشانی کا باعث ہوتی ہے۔ مگر اسی خاصیت نے سائنس کو انسانی دماغ کی سب سے شاندار تخلیق بنادیا ہے۔

No comments:

Post a Comment