Monday, October 12, 2015

عمران خان کی سیاسی بصیرت اورحلقہ این اے ۱۲۲

 حلقہ  این اے ۱۲۲ نے گزشتہ کئی دنوں سے میڈیا پر دھمال مچا رکھا تھا۔ ہر چینل پر اس کے تزکرے جاری تھے اور میرے ملک کے عظیم سیاسی اینکر ضمنی الیکشن کے نتائج کی پیشین گوئیاں کرنے میں مصروف تھے۔ ان میں سے اکثر کا خیال تھا کہ تخت لاھور اب شریفوں کا نہیں رھے گا۔
عمران خان کی انتخابی مہم سے صاف ظاہر تھا کہ حکومت نے انتخاب لڑنے کا فیصلہ کرکے عمران کو مشکل میں ڈال دیاتھا۔ وہ اپنی ساری پارٹی لے کر حلقہ  پر چڑ دوڑے۔ پارٹی کی ساری اعلی قیادت اس مہم میں مصروف تھی بلکہ کےپی کے کی حکومت بھی اس مہم میں سرگرم نظر آئی۔ عمران کے جلسوں کا مزاج وہی پرانا ہی تھا۔ گالی گلوچ اور الزام تراشی کی فلم دوبارہ چلتی رہی۔ الیکشن کمیشن پر دباو ڈال اپنا ہر مطالبہ منوایا۔ دھاندلی کے خلاف چوہدری سرور کے تجربے سے استفادہ بھی کیا۔ علیم خان کی دولت بھی خوب نچھاور کی مگر پھر بھی عمران خان کا وہ دعوہ سچ ثابت نہ ہوسکا کہ سردار ایازکو پچاس ہزار جعلی ووٹ ڈالا گیا۔ بلکہ اس انتخاب نے سردار ایاز کو دوبارہ صادق ثابت کردیا جبکہ عمران خان صاحب اپنے دیگر دعووں کی طرح اس میں بھی چوبارہ ہار کے مصدقہ کازب  ثابت ہوگئے۔

عمران نے اکثر اپنی حیرت کا اظہار کیا کہ نواز شریف کو کروڑوں ووٹ کیسے پڑگئے۔ مجھے امید ہے کہ اب عمران کو ان کے اس حیرت زدہ سوال کا جواب مل گیا ہوگا۔ اسے اندازہ ہوگیا ہو گا کہ نوازشریف اب بھی انتا پاپولر لیڈر ہے جتنا ۱۹۹۹ میں تھا۔ مسلم لیگ کا ووٹ بنک تو وہیں کا وہیں ہے تو پھرحیران کرنے والا سوال پیدا ہوتا ہے کہ عمران کو ووٹ کس نے ڈالا؟ تو جناب اس کا واضع جواب موجود ہے۔ مسلم لیگ کا ہمیشہ مقابلہ پییپلز پارٹی سے ہوا۔ یہ پارٹی ہمیشہ ٹاپ ٹو میں شامل رہی۔ کبھی مسلم لیگ نے حکومت بنائی تو کبھی پیپلزپارٹی نے۔ مگر اب وہ تیسرے نمبر پر نظر آتی ہے اور کہیں کہیں تو چوتھے درجے میں بھی نظر نہیں آتی۔  ہماری سیاست کے رنگ بھی نرالے ہیں۔ جانے کیسے پیپلز پارٹی کا ووٹ بینک پی ٹی آئی کی جھولی میں آن گرا ہے۔ یہ بھی انوکھا واقع ہے کہ ایک دائیں بازو کی جماعت جس نے پہلے دن سے جماعت اسلامی اور مولانا طاہرالقادری کی پی اے ٹی جیسی مذہبی سیاسی جماعتوں کواپنا سیاسی ہمنوا بنایا ہو، اور جس کے لیڈر نے ہمیشہ طالبان کی غمخواری کی ہو اس کے پاس زیادہ ووٹر اور پارٹی رہنما پیپلزپارٹی سے شامل ہوگئے۔ پیپلز پارٹی وہ پارٹی تھی جو کبھی بائیں بازو کی سوشلسٹ پارٹی کہلاتی تھی۔ اور اس کے ووٹر کو بڑا نظریاتی ووٹر تصور کیا جاتاتھا۔ جب نظریاتی لیڈرشپ ختم ہوگئ اور لٹیروں نے پارٹی پر قبضہ کرلیا تو اکثر نظریاتی ورکرز نے تو سیاست کو خیرآباد کہہ دیا باقی جو بچے وہ بےچارگی اور یتیمی کے احساس میں نظریات کی محبت چھوڑ کر شخصیات کی دشمنی کی مرض میں مبتلاء ہوگئے۔

پیپلز پارٹی کے اکثر ووٹرز پی ٹی آئی کا حصہ بن چکے ہیں۔ وہ عمران کا ساتھ کیوں دے رہے ہیں اس کا اظہار پیپلزپارٹی کے سابق وزیر جناب صمصام بخاری صاحب نے کچھ یوں کیا کہ میں اور میرے ساتھی پیپلز پارٹی کو اس لئے چھوڑ رہے ہیں کیونکہ پیپلز پارٹی نے مسلم لیگ سے مفاہمت کررکھی ہے اب عمران خان ہی ایسے لیڈرہیں جو مسلم لیگ سے مقابلہ کررہے ہیں۔ اس لئے ہم نے پی ٹی آئی جوائن کرنے کا فیصلہ کرلیا ہے۔ پیپلز پارٹی کے لیڈر نے عمران کی گالم گلوچ پالیسی کو ایک طرح سے انڈورز کیا ہے۔ پیپلز پارٹی کے ووٹر کو زرداری نے یتیم کردیا۔ پیپلز پارٹی میں نظریاتی بیماری نے ووٹرز کو کہیں کا نہ چھوڑا۔ ایسے میں عمران کی دشنامطرازی نے پیپلز پارٹی کے ووٹر کو اپنی جانب متوجہ کیا۔ اور یوں جیالہ بن گیا جنونی۔
پگڑی اچھالنے کی یہ پالیسی عمران کے کام آئی اور پیپلز پارٹی کا یتیم جیالہ اس کی پناہ میں آگیا۔ مگر اس کی یہ پالیسی زیادہ دیر تک سحر قائم نہ رکھ پائے گی۔
عمران خان کی جھوٹ پہ جھوٹ بولنے کی پالیسی اس کو لے ڈوبے گی۔ اس نے جتنے جھوٹ کنٹینر پر کھڑے ہوکر بولے وہ آہستہ آہستہ سب آشکار ہوتے جارہے ہیں۔ اس میں نواز شریف کی سیاسی بصیرت کا کافی عمل دخل ہے۔ بہت سوچ سمجھ کرچلی جانے والی سیاسی چالوں کو عمران اوران تجربہ کار ساتھی سمجھ ہی نہیں پائے۔ پی ٹی آئی کے ورکرز اور لیڈرز کا صرف اور صرف دشنامطرازی پر زور ہے اور اس پرالیکٹرانکس میڈیا ان کی مسلسل کوریج کرکے اس زعم میں مبتلاء کردیتا ہے کہ ہم بہت مقبول ہورہے ہیں۔ اگر کوئی اینکر تلخ حقیقت دکھانے کی زہمت کرتا ہے تو اس پر سوشل میڈیا پر ٹرائل شروع ہوجاتاہے۔  بڑے دبنگ نظر آنے والے اینکر پرسنز بھی پی ٹی آئی کے خلاف بولنے سے ڈرتے ہیں۔ ضمنی الیکشن کی خصوصی ٹرانسمشن میں چھ دبنگ بیٹھے تھے ان میں سے ایک نے بنی گالہ اور لاھور پی ٹی آئی کے درمیان کسی اختلاف رائے کی بات کی اور اس کی تفصیل ساتھی دبنگوں سے مانگی۔ کافی لے دے کے بعد فیصلہ یہی ہوا کہ ہم میں سے کسی کی جرات نہیں کہ پی ٹی آئی کے درمیان موجود اختلاف رائے کو رپورٹ بھی کر سکیں۔ میں حیران تھا کہ یہی حضرات نوازشریف اور اس کی حکومت پر بولتے ہیں تو باتوں باتوں میں اس کی دھجیاں بکھیر دیتے ہیں مگر عمران کی پارٹی پر بولتے ہوئے ان کے پر کیوں جل رہے ہیں۔ کہیں پی ٹی آئی ایک دوسری ایم کیو ایم تو نہیں بننے جارہی؟

دھاندلی کے شرکو ایک مرتبہ پھر ذلت آمیز شکست پر میرا تو ایک ہی پیغام ہے کہ عمران بھائی خدا کے لئے اب لڑائی لڑائی معاف کرو۔۔۔۔۔۔ اور کے پی کے میں جا کر کچھ کام کرو۔۔۔۔ امید ہے ضمنی انتخابات میں مسلسل شکست آپ کو راہ راست پر لے آئے گی اور آپ ملک میں مثبت سیاست کا آغاز کریں گے۔ کے پی کے میں جائیں اور وہاں کے مسائل پر توجہ دیں۔ آئندہ آنے والے الیکشن کی پلاننگ کریں اب تو آپ کے پاس لندن سے تجربہ یافتہ سیاسی لیڈر بھی ہیں ان کے ہوتے تو آپ کو سیاسی اخلاق کی اعلی مثال قائم کرنی چائیے۔ ان سے سیکھیں اور اپنے ورکرز کو بھی نظریاتی تربیت دیں۔ ایسا نہ ہو کہ آپ سے زیادہ گالم گلوچ کرنے والا کوئی آجائے اور آپ کا سارا میلہ ہی لوٹ کر لے جائے۔ بدکامی کی سیاسی کو ترک کردیں اور تعمیری سوچ کو آگے بڑھائیں۔  اسی میں ہم سب کا بھلا ہے اور اسی سے غریب کے مسائل کم کرنے میں مدد ملے گی۔ ورنہ دھرنا اور شارٹ کٹ کی سیاسی ہمیشہ تخریب کا باعث بنتی ہے۔ جس کا ہمارا ملک متحمل نہیں ہوسکتا۔ دل بڑا کریں اور ایاز صآدق کو جیتنے پر مبارک باد دیں اور اسمبلیوں میں اپنا مثبت کردار ادا کرنا شروع کریں۔ خدا ہم سب کا حامی وناصر ہو۔

No comments:

Post a Comment