Monday, November 9, 2015

ڈاکٹر محمد اقبال : سرخیل کارواں

                          جلانا ہے مجھے ہر شمع دل کو سوز پنہاں سے
 تیری تاریک راتوں میں چراغاں کرکے چھوڑوں گا

غالب کے بعد اردو شاعری میں ایک بہت بڑا خلاء پیدا ہوگیا تھا۔ اس خلاء کو علامہ اقبال نے اپنے منفرد انداز بیان اور بےمثال تخیل سے پر کردیا۔ آپ کی نظریاتی شاعری کا اثرعلامہ اقبال کی حیات میں ہی دنیا کے دور دراز علاقوں تک بھی پہنچ گیا تھا۔ علامہ اقبال نے فارسی ادب کا بہت مطالعہ کیا اور اسی کا نتیجہ تھا کہ آپ نے محققانہ کتاب مرتب کی جسے ہم فلسفہ ایران کی مختصر تاریخ کہہ سکتے ہیں۔ آپ کی اسی کاوش کی پزیرائی کرتےہوئے جرمنی والوں نے آپ کو ڈاکٹریٹ کی ڈگری دی۔ جب دنیا اس انمول جوہر کی پزیرائی کررہی تھی اور آپ کی شہرت چہار عالم پھیل گئی تو انگریز سرکار نے بھی آپ کو سر کا خطاب دے کر آپ کی علمی برتری کو تسلیم کیا۔ آپ کی ابتدائی تعلیم میں عربی اور فارسی زبانوں کی تعلیم شامل تھی۔ عربی اور فارسی کے بہترین معلم محترم جناب مولوی سید میر حسن آپ کے استاد تھے۔ اقبال ابھی سکول میں ہی تھے جب آپ نے شعروشاعری شروع کردی تھی۔ اس دور میں پنجاب میں اردو مشاعروں کا بہت رواج تھا۔ سیالکوٹ میں بھی چھوٹا موٹا مشاہرہ ہوا کرتا تھا جس میں شامل ہونے کے لئے علامہ اقبال کبھی کبھار شعر لکھ دیتے تھے۔ 

۱۹۰۱  اقبال لاہور کے کالج طلباء میں شہرت حاصل کرچکے تھے۔ اپریل ۱۹۰۱ میں آپ کی پہلی نظم ’ہمالہ’ ایک نئے رسالہ ’مخزن’ میں شائع ہوئی۔ اس اشاعت کے بعد سے گویا علامہ اقبال کی شاعری ہر خس وعام میں مقبول ہونے لگی۔ ۱۹۰۵ تک آپ کی شاعری شائع ہوتی رہی۔ شیخ اقبال کالج کی تعلیم سے فارغ ہوکر وہاں پروفیسر ہوگئے تھے۔ لوگوں میں مقبولیت بھی خوب ہوچکی تھی۔ آپ کو فرمائش ڈلواکر مشاعروں اور محفلوں میں مدعو کیا جاتا تھا۔ آپ ترنم سے اپنی نظمیں پڑھتے اور اپنے سننے والوں کو اپنے ساتھ جھومنے پر مجبور کردیتے تھے۔ لاہور میں انجمن حمایت اسلام کے سالانہ جلسوں میں ہزاروں لوگ آپ کو سننے آتے تھے۔ 

اقبال کی شاعری کا دوسرا دور ان کے برطانیہ میں قیام کے دورانیہ کا ہے۔ اس دور میں آپ کی شاعری میں وہاں کے حالات و واقعات کا عکس موجود ہے۔ اسی دور کا ایک دلچسپ واقع مخزن کے ایڈیٹر جناب عبدالقادر نے رقم کیا ہے۔ انھوں نے لکھا کہ
 اقبال کے تین سالہ دور میں سے دو سال میں بھی وہیں رہائش پزیر تھا۔ میری اکثر شیخ اقبال سے ملاقات رہتی تھی۔ ایک دن اقبال نے کہا کہ میں شاعری کو ترک کرنے کا سوچ رہا ہوں اور جو وقت شاعری میں صرف ہوتا ہے اسے کسی مفید کام میں صرف کیا جائے۔ میں نے ان سے کہا کہ ان کی شاعری ایسی نہیں کہ ترک کیا جائے۔ ان کی شاعری میں ایسی تاثیر ہے  ممکن ہے کہ اس سے ہماری قوم اور ہمارے ملک کے امراض کا علاج ہوسکے۔ شیخ صاحب کچھ قائل ہوئے کچھ نہ ہوئے اور یہ قرار پایا کہ پروفیسر آرنلڈ صاحب کی رائے پر آخری فیصلہ کیا جائے۔ پروفیسر آرنلڈ نے بھی یہی رائے دی کہ اقبال کو شاعری نہیں چھوڑنی چاہئے۔
 اس طرح اس عظیم شاعر کی شاعرانہ تخلیق  کو دو اچھے دوستوں نے  مرنے سے بچایا۔  ۱۹۰۸ تک آپ نے جو شاعری کی وہ زیادہ تر اردو زبان میں کی۔ ۱۹۰۸ کے بعد اقبال کی شاعری کا تیسرا دور شروع ہوتا ہے جب آپ نے زیادہ نظریاتی شاعری شروع کی۔ یہ شاعری زیادہ فارسی زبان میں لکھی گئی ہے۔ فارسی میں لکھنے کا راز یہ تھا کہ اب آپ فلسفہ کے دقیق علم سے واقف ہوچکے تھے اور آپ فلسفیانہ خیالات کو اپنی شاعری میں محفوظ کرنا چاہتے تھے۔ آپ نے دیکھا کہ فارسی کی نسبت اردو کا سرمایہ بہت کم ہے۔ فارسی میں کئی جملے اور فقرے ایسے ڈھانچے میں ڈھلے ہوئے ملتے ہیں جس کو اردو زبان میں فقرے میں ڈھالنا آسان نہیں۔ اس تبدیلی کے بعد اقبال کی چیدہ چیدہ اردونظموں کے علاوہ زیادہ کام فارسی میں ہی ہوا۔ اقبال کی پہلی کتاب جس نے بین الاقوامی شہرت حاصل کی وہ اسرار خودی ہے۔ یہ فارسی شاعری پر مبنی کتاب فارسی میں اتنی مقبول ہوئی کہ اکثر ایرانی سکالرز کی نظر میں۱۹۷۹ میں آنے والے ایرانی انقلاب کی وجہ یہی کتاب تھی۔ ایرانی انقلاب کے لیڈر آیت اللہ خمینی نےکہا تھا کہ قرآن اور اسلام کو ہم نے اقبال کی نظر سے سمجھا ہے اور ایران اسی راستے پر گامزن کے جو ہمیں اقبال نے دکھایا ہے

علامہ اقبال صرف شاعرہی نہ تھے بلکہ آپ ایک  فلاسفر اور سیاسی رہنما بھی تھے۔  آپ لندن میں قیام کے دوران ہی مسلم لیگ لندن برانچ کے ممبر بنے۔ ۱۹۳۰ میں مسلم لیگ کے سالانہ جلسے میں اپنے خطاب میں علامہ اقبال نے ایک الگ ریاست کا خیال پیش کیا۔ آپ مسلمانوں کو ایک پلیٹ فارم پر جمع کرنا چاہتے تھے۔ علامہ کو یقین تھا کہ محمد علی جناح ہی وہ واحد لیڈر ہیں جو مسلمانوں کی رہنمائی کرسکتے ہیں۔ آپ نے جناح کو لندن کی خودساختہ جلاوطنی ختم کرنے اور واپس ہندوستان آکر مسلم لیگ کی لیڈرشپ سنبھالنے پرامادہ کیا۔ آپ مسلمانوں کو ایک قوم کے طور پر متحد کرنا چاہتے تھے۔ آپ نے ایران ، افغانستان اور ترکی کے دوروں میں مسلمانوں کو اپنے فروعی معاملات کو بھلا کر ایک قوم بننے کی تعلیم دی۔ ۲۹ دسمبر ۱۹۳۰ میں آپ نے پاکستان کی پیشینگوئی کردی تھی جب آپ نے اپنے صدارتی خطاب میں فرمایا:
میں پنجاب ، سرحد، بلوچستان اور سندھ کو ایک ریاست میں مدغم دیکھتا ہوں۔ 
انھوں نے مزید کہا کہ 
” 
یہ ریاست جنوب مغربی ہندوستان کے مسلمانوں کی آخری منزل ہے

قائداعظم محمد علی جناح نےعلامہ اقبال کے بارے میں فرمایا کہ
ریاست اور اقبال میں سے ایک کو منتخب کرنا پڑا تو میں اقبال کو منتخب کروں گا

انھوں نے مذید کہا کہ
اقبال کی ادبی شخصیت عالمگیر ہے۔ وہ بڑے ادیب، بلند پایہ شاعر اور مفکراعظم تھے۔ لیکن اس حقیقت کو میں سمجھتا ہوں
 کہ وہ ایک بہت بڑے سیاستدان بھی تھے۔



سرنکلسن جنھوں نے اقبال کوانگریزی زبان میں ترجمہ کر کے پوری دنیا سے اقبال کو متعارف کروایا اس نے کہا کہ
اقبال کی شاعری نے مسلمان نوجوانوں میں بیداری پیدا کردی ہے اور بعض نے تو یہاں تک کہہ دیا کہ جس مسیحا کا انتظار تھا وہ آگیا ہے




جلانا ہے مجھے ہر شمع دل کو سوز پنہاں سے
تیری تاریک راتوں میں چراغاں کرکے چھوڑوں گا

پرونا ایک ہی تسبیح میں ان بکھرے دانوں کو
جو مشکل ہے، تو اس مشکل کو آساں کرکے چھوڑوں گا

دکھادوں گاجہاں کو جو میری آنکھوں نے دیکھا ہے
تجھے بھی صورت آئینہ حیراں کرکے چھوڑوں گا

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

جنبش سے ہے زندگی جہاں کی  ۔۔  یہ رسم قدیم ہے یہاں کی

اس رہ میں مقام بے محل ہے   ۔۔  پوشیدہ قرار میں اجل ہے

چلنے والے نکل گئے ہیں    ۔۔     جو ٹھہرے ذرہ، کچل گئے ہیں


No comments:

Post a Comment