Wednesday, November 11, 2015

کینسر کا نیا انقلابی طریقہ علاج

Credit: Sharon Lees/Great Ormond Street Hospital

دس جون 2014 کو لندن میں ایک بچی پیدا ہوئی جس کا نام لائیلہ رکھا گیا۔ حمل کے دوران کسی قسم کی شکایت نہ ہوئی اور جب وہ پیدا ہوئی تو لائیلہ سات پونڈ کی خوش باش اور صحت مند بچی تھی۔ اس کی والدہ بہت خوش اور مطمئن تھی۔ بچی جب تین ماہ کی ہوئی تو اسے ڈاکٹر کے پاس لے جانا پڑا کیوں کہ اس نے دودھ پینا چھوڑ دیاتھا اور ھر وقت روتی رہتی تھی۔ ڈاکٹروں نے پہلے سمجھا کہ اسے پیٹ کے کیڑوں کی شکایت ہوسکتی ہے مگر بلڈ ٹیسٹ کے بعد معلوم ہوا کہ لائیلہ کو لیکیمیا کی ایک شدید مرض لاحق ہے جسے انفینٹ اکیوٹ لیمفوبلاسٹک لیکیمیا کہتے ہیں۔ لائیلہ ابھی صرف چودہ ہفتوں کی ہوئی تھی۔

لائیلہ کو فوری طور پر”گوش” بھیجا گیا جہاں اسے انتہائی نگہداشت کی وارڈ میں داخل کردیا گیا۔ ڈاکٹروں کے مطابق یہ اس بچی کو ہونے والی مرض کی یہ شدید ترین شکل تھی۔ مرض کی اتنی شدت انھوں نے پہلے کبھی نہیں دیکھی۔  اگلے ہی دن کیموتھیراپی شروع کردی گئی۔ اسے اس علاج کے کئی دور دئیے گئے تاکہ وہ کینسر سے نجات حاصل کرسکے اور پھراس کا بون میرو ٹرانسپلانٹ ہوا۔  بی ایم ٹی کی مقصد یہ تھا کہ اس کے خون کے جو سیل مردہ ہوگئے تھے انھیں جسم سے نکالا جاسکے۔
سات ہفتوں بعد اس کے والدین کو بتایا گیا کہ ٹرانسپلانٹ کے باوجود کینسر دوبارہ ہوگیا ہے۔ بچی کو کیموتھیراپی کی جو شدید ترین خوراک دی گئی اسے دوبارہ نہیں دیا جاسکتا تھا۔ بچی کی پہلی سالگرہ سےایک دن پہلے والدین اپنی بچی کو لے کر مایوس گھر لوٹ آئے۔

ڈاکٹرز نے والدین کو سمجھایا کہ لائیلہ کی مرض کے لئے ان کے پاس کوئی علاج نہیں ہے انھوں نے پیلیاٹیوعلاج یا سکون آور ادویات کے استعمال کا مشورہ دیا۔
بچی کی ماں ”لیسا” نے کہا کہ ڈاکٹرز نے دراصل یہ کہا تھا کہ آپ اسے گھر لے جائیں اب ہم اس بچی کےلئے کچھ نہیں کرسکتے۔

ہم اپنی بچی کو کھونا نہیں چاہتے تھے لہذا ہم نے ڈاکٹرز سے کہا کہ کچھ بھی کریں اور ہماری بچی کو بچالیں۔ پروفیسر وسیم قاسم کا کہنا تھا کہ جب میں نے دیکھا کہ بچی کے علاج کے لئے کوئی دوسرا طریقہ نہیں بچا ہے تو میں نے سوچا کہ کیوں نا جینزانجینئرنگ کی تھیراپی کے اس نئے طریقہ کو آزمایا جائےلہذا والدین کو بتایا گیا کہ ایک تجرباتی علاج ہے جو ابھی تک صرف چوہوں پر آزمایا گیا اور کامیاب ثابت ہوا مگر کسی انسان پرا بھی آزمایا نہیں گیا۔ اسے اسی ہسپتال میں تخلیق کیا جارہا تھا۔ جسے وہ اب لائیلہ کے اس شدید قسم کے کینسرکے علاج کے لئے استعمال کرنے والے تھے۔

بچی کے باپ نے کہا کہ یہ سوچنا بہت خوفناک تھا کہ علاج پہلے کسی انسان پر نہیں آزمایا گیا تھا۔ مگر اس میں کوئی شک نہیں کہ ہم اس طریقہ علاج کو آزمانا چاہتے تھے۔ ہماری بچی بہت بیمار اور بہت تکلیف میں تھی اور ہمیں کچھ تو کرنا تھا۔ ڈاکٹروں نے سمجھایا تھا کہ اس بات کی کوئ گارنٹی نہیں کہ یہ طریقہ علاج کام کرے گا تاہم ہم نے دعا کی کہ ایسا ہو۔۔۔۔۔ کنسینٹ فارم پر کرنے کے بعد علاج شروع ہوگیا۔

علاج میں کیا تھا؟
مصنوعی طریقہ سے تبدیل شدہ جینزکا ایک ملی لیٹرآمیزہ جو بچی کے جسم میں ہکمین کے ذریعے جسمانی نالی یا وین سے پاس کردیا گیا۔ اس کو چند منٹ لگے اور اس دوران بچی اپنے جھولے میں جھولتی رہی۔ اسے محسوس بھی نہ ہوا کہ کس انقلابی طریقہ علاج کے ذریعے سے اس کو موت کے منہ سے چھین کر واپس زندگی کی طرف لایا جارہاتھا۔
ایشلے بچی کے باپ نے کہا کہ ہم سوچ رہے تھے کہ جہاں کیمو کے تھیلوں کے تھیلے کچھ نہ کرسکے تو یہ ایک سرنج میں بھرا مایع کیا کمال دکھا پائے گا۔ لیکن نرس نے کہا کہ یہاں معاملہ مقدار کا نہیں بلکہ معیار کا ہے۔

ڈاکٹروں کی توقع تھی کہ ایک سے دو ہفتوں میں جسم کا مدافعتی اپنا کام شروع کردے گا۔ اوربخار یا ریش کی صورت اس کا ردعمل ظاہر ہوگا۔ جس کا مطلب ہوگا کہ علاج اپنا کام کررہاہے۔ مگر دو ہفتوں تک لائیلہ میں کوئی تبدیلی ظاہر نہ ہوئی۔ ہسپتال کے سٹاف کو یقین نہ تھا کہ علاج کامیاب ہوا یا نہیں۔ ڈاکٹروں نے بچی کع گھر بھیجنے کا فیصلہ کرلیا تبھی بچی کو ریش ہونے لگی جس کا مطلب تھا کہ اندر کچھ چل رہاھے۔

ریش بڑھ گئی مگر اس کے علاوہ بچی ٹھیک ٹھاک رہی۔ بچی کی ماں کے بتایا کہ ہمیں نہیں پتا تھا کہ بچی اتنی نارمل حالت میں رہے گی۔ ہم تولائیلہ کو انتہائی نگہداشت کی وارڈ میں لے جانے کے لئے اپنے آپ کو تیار کررہے تھے۔ یہ وقت بہت خوفناک تھا کیونکہ آپ سوچتے ہیں کہ اگربچی انتہائی نگہداشت کی وارڈ میں منتقل نہیں ہوئی اس سے صاف ظاہر ہے کہ علاج درست نہیں ہوپارہا۔

چند ہفتوں کے بعد جب کنسلٹنٹس کے والدین علاج پربریف کرنے کے لئے بلایا اور بیٹھنے کو کہا تو ماں نے سمجھا کہ کوئی بری خبر ہے لیکن۔۔۔۔۔۔ ڈاکٹر نے کہا کہ کہ علاج کام کررہا ہے۔۔۔ یہ سنا اور میری خوشی سے چیخ نکل گئی اور خوشی سے میرے آنسو آگئے۔

دو ماہ بعد لائیلہ مکمل کینسر فری ہوگئی۔ ہمیں امید ہے لائیلہ صحت مند زندگی بسر کرے گی۔ اور مذید بچے بھی اس نئے طریقہ علاج سے فائدہ اٹھاسکیں گے۔

Article adopted from Gosh's Website 

No comments:

Post a Comment