Friday, September 27, 2019

یو این تقریر، دہشتگردی، اسلام اور ٹیکس


میں عمران کا شدید ناقد ہوں اور اس کے غلط کاموں پر تنقید کرتا رہونگا۔ جہاں تک آج کی یو این کی تقریر ہے میں اسے د سے سراہتا ہوں۔ آج اس نے وہ سب باتیں کیں جو قوم واقعی سننا چاہتی تھی۔ اس سپیچ کو یقینا ساری دنیا میں اور خاص طور پر مسلم امہ میں سراہا جائے گا۔

آج کا دن یقینا مودی اور ٹرمپ پر بہت بھاری اور مشکل رہا ہوگا۔ عمران کی سپیچ کے بعد ان کے پیٹ میں ضرور مروڑ اٹھ رہے ہونگے اور وہ چاہیں گے کہ کچھ نیا تماشہ کھڑا کر کے دنیا میں پا کستان کے معقف کو کمزور کیا جائے۔ مگر ان تمام بکواس کا وقت گرز گیا۔ عمران نے جس انداز سے ان کے بیانیے کا آپریشن کیا اس کے بعد اسلام کے بارے میں دنیا کو جس غلط فہمی سے جان بوجھ کر دوچار کیا جارہا تھا اس کا یقینا بہت اچھے سے تدارک ہوگیا ہے۔ اب اسلام دشمن قوتیں ایک نئے انداز سے حملہ آور ہونے کا پلان کریں گی کیونکہ ان کا پرانا منصوبہ تو عمران نے چوپٹ کردیا۔ کچھ لوگ کہیں گے کہ تقریروں سے کون سا مسئلہ حل ہوا تقریر اچھی ہے تو کیا ہوا مگر مسئلے تو وہیں کے وہیں کھڑے ہیں مگر میں ان دوستوں کو عرض کرتا چلوں کہ انسانوں کے درمیان تعلقات میں پرسیپشن یا کسی کے بارے میں تصور کا بہت اہم عمل دخل ہوتا ہے۔۔۔۔ اگر کوئی کسی کے بارے میں مسلسل پراپیگنڈا کرتا رہے کہ یہ شخص چور ہے۔۔۔۔ ہر بات پر اسے چور ثابت کرنے کی کوشش کی جائے تو آہستہ آہستہ لوگوں کے ذہن میں اس کا وہ تصور پختہ ہونے لگتا ہے اور پھر ایک وقت ایسا آتا ہے کہ بغیر کسی ثبوت کے انھیں ایمان کی حد تک یقین ہوجاتا ہے کہ یہ چور ہی ہے اور ہمارے محلے میں جو بھی چوریاں ہو رہی ہیں وہ اسی کی وجہ سے ہیں۔۔۔۔ ایسا ہی پرسیپشن انڈیا اور امریکہ اسلام کے بارے میں پھیلا رہے تھے۔ ان کی ہر تقریر اور تقریب میں اسلام کو نشانہ بنایا جا رہا تھا۔ دھشتگردی اور اسلام دونوں کو ایک ہی سکے کے دو رخ ثابت کئے جارہے تھے۔ اس کے ساتھ ساتھ پاکستان کو دھشتگردی کا مرکز بھی کہا جا رہا تھا۔۔۔۔ اگر یہ پرسیپشن بنانے کے عمل کو طاقتور انداز سے رد نہ کیا جاتا تو کل کو اگر امریکہ اور انڈیا ملک کر پاکسان پر حملے کی سازش کرتے اور ریڈیکل اسلام اور دھشتگردی کا کوڈ ورڈ استعمال کر کے سب مہذب دنیا کو ہیپناٹائیز کر دیا جاتا۔۔۔۔ عمران کی یہ تقریر بہت بروقت اور موزوں ہے امید ہے کل کا دن دشمنوں پر بہت بھاری گزرا ہوگا۔

آگے جو بھی ہوگا دیکھا جائے گا مگر آج جو عمران نے ان کے ساتھ کردیا ہے اسکا جواب نہیں۔ بڑے کہتے پھر رہے تھے ریڈیکل اسلام شدت پسند مسلمان ۔۔۔۔ اور جانے کیا کیا۔۔۔۔۔ لگتا اب ان کو جہاں جہاں مرچیں لگی ہونگی اس پر تو وہ کسی کو مرہم لگانے کا بھی کہہ نہیں پائیں گے۔ ویل ڈن عمران۔۔۔۔۔ دشمن پر آج بغیر لڑے بم پھاڑنے کا اور ان کے جھوٹ سے ہوا نکالنے کا شکریہ۔ 

آپ نے بین الاقوامی پلیٹ فارم پر پاکستان اور اسلام کا بہت اچھے سے مقدمہ پیش کیا آپ نے پاکستانیوں کے دل جیت لئے بس ایک گزارش ہے کہ اپنی قوم سے لڑنا چھوڑ دو ۔۔۔۔ منی لانڈرنگ کی بات کرتے ہوئے آپ نے ٹیکس کی اصل وجہ اور اس کا استعمال بھی سمجھایا۔ آپ نے کہا کہ امیروں پر ٹیکس لگانا چاہیے اور ان سے ٹیکس لے کر غریبوں پر استعمال کرنا چاہیے۔ آپ نے بلکل درست فرمایا۔ آج کی سوشل جمہوریتوں میں ایسا ہی رواج ہے وہاں امیروں پر ٹیکس لگایا جاتا ہے اور غریبوں پر استعمال کیا جاتا ہے انھیں بےروزگاری کی صورت میں گزارہ الاؤنس دیا جاتا ہے ان کے بچوں کی مفت تعلیم کا انتظام کیا جاتا ہے اور ان کو دنیا کی بہترین صحت کو سہولیات مفت مہیا کی جاتی ہیں۔ نارڈک ممالک اس ماڈل کی بہترین مثال ہیں۔ جہاں کے معاشی ماہرین نے ایسا ہی نظام ترتیب دیا ہے جو امیر سے لے کر غریب پر خرچ کرتا ہے۔ 

مگر جناب پراٰئم منسٹر صاحب آپ کے زیر انتظام ملک پاکستان میں الٹا پہیہ چلایا جا رہا ہے۔ یہاں آپ کی معاشی ٹیم کے ارسطو غریب پر ٹیکس پہ ٹیکس لگاتے جا رہے ہیں۔ انتے ٹیکس لگائے گئے ہیں کہ بے چاری مڈل کلاس جس نے آپ کو سب سے زیادہ ووٹ دیا وہی دو ہتھڑ مار کر رو رہی ہے۔ ان کی تنخواہیں تو وہیں کی وہیں ہیں مگر مہنگائی کئی سو گنا بڑھ گئی ہے۔ مڈل کلاس غربت کے دہانے پر آکھڑی ہوئی ہے اور غریب تو مرنے مارنے کی حد کو چھو رہا ہے۔ خدا کے لئے ادھر بھی توجہ کیجئے وہی اصول جو یو این میں آپ یورپ کو پڑھا کر آئے ہیں وہ یہاں اپنی معاشی ٹیم کر بھی سمجھائیں۔ وہ تو غریب سے پیسے اکٹھے کر کے امیروں پر خرچ کررہے ہیں۔ کہیں تو آرڈیننس لا کر بڑے بڑے مگرمچھوں کو عوام کا پیسہ معاف کرنے کی سکیم لائی جاتی ہے کہیں انھیں اربوں کی سبسڈی دے کر عوام کے خون پسینے کا پیسہ لٹایا جا رہا ہے جبکہ عوام کو ہر طرح کی سہولتیں اور عوامی سبسڈیاں ختم کردی گئی ہیں۔۔۔۔۔ 

براہ کرم رحم کیجئے اس قوم پر جو اسی خدا اور رسول کو ماننے والی ہے جس کے وکیل بن کر دنیا میں آپ نے دشمن کو للکارہ ہے یہ غریب آپ کی توجہ کے منتظر ہیں۔ اپنے ارب پتی دوستوں کے دائرے سے نکل کر کبھی غریب کے قریب ہونے کی کوشش کریں کبھی اس کے مسائل پر توجہ دیں اس کی زندگی میں جھانکیں اور دیکھیں کہ غریب کیسے بے سروسامانی کی زندگی گزارنے پر مجبور ہے۔۔۔

No comments:

Post a Comment