Wednesday, September 18, 2019

یہ میری بیٹی یے

آج جب میں گھر سے کام کیلئے نکلنے لگا تو میری بیٹی نے اپنے ننھے ہاتھوں میں میرا ہاتھ تھام لیا اور مجھے کہنے لگی کہ بابا میں بھی آپ کے ساتھ چلوں گی میں نے اسے سمجھایا کہ بیٹا میں شہر سے باہر کافی لمبے سفر پر جا رہا ہوں آپ تھک جاو گی۔ اس پر میری بیٹی بولی بابا آپ بھی تو تھک جاو گے آپ بھی نہ جاو۔۔۔۔ ہماری پیار بھری تکرار کچھ دیر تک چلی اور پھر بیٹی مان گئی اور مجھے جانے دیا۔۔۔۔

دورانِ سفر میں بیٹی کی محبت سے سرشار سوچتا رہا کہ بیٹی بھی کیا نعمت ہے ہوتی ہے جس کی محبت بےلوث اور بے ساختہ ہوتی ہے۔ خدا بیٹی جیسی نعمت سب کو عطا فرمائے۔

میں سوچ رہا تھا کہ وہ کیسی بیٹی ہو گی جو باپ کا ہاتھ تھامے محاز جنگ پر نکل کھڑی ہو۔ اس کا باپ سے جزبہ کیاس ہوگا جو سمجھانے کے باوجود پرآسائش اور محفوظ زندگی کو خیرآباد کہہ کر اپنے باپ کے ساتھ مشکلات کا سامنا کرنے آگئی۔ وہ بیٹی اپنے باپ کی مشکل گھڑی میں حق کی آواز بلند کرنے اپنی مرتی ماں کو بسترِ مرگ پر چھوڑا آئی۔ وہ کیسی بیٹی ہے جسے معلوم تھا کہ ظلمت کدے میں جانے کے بعد شاید کبھی دوبارہ اپنی ماں سے نہ مل سکے مگر حق کا کلمہ بلند کرتے باپ کا ساتھ چھوڑنے کا کفر نہ کرسکی۔ اسے معلوم تھا کہ اندھیرنگری میں بھیڑیے اس کی اور اس کی فیملی کی عزت پر ہر طرح کا حملہ کرنے کیلئے تیار بیٹھے ہیں مگر پھر بھی اس کے قدم نہ لڑکھڑائے۔ اسے معلوم تھا کہ اس کے باپ کو ناکردہ گناہوں کی سزا تو سنائی جا چکی ہے مگر باپ کا ساتھ دینے اور کلمہُ حق کہنے کی پاداش میں اسے بھی قید و بند کی صعوبتیں برداشت کرنا پڑیں گی مگر وہ نہ رکی۔ وہ کیسی بیٹی ہے جو دوسروں کے حقوق کی بات کرنے ہر اپنے سارے حقوق قربان کروا بیٹھی۔

اس کا ایسا کون سا گناہ تھا جس کی پاداش میں اس کی آواز دبائی گئی؟ اسے خاموش کروانے کیلئے اس پر اور اس کے احباب پر جھوٹے مقدمات بنائے گئے؟ کیا اس کا یہ جرم ہے کہ وہ جبر کے آگے جھکی نہیں؟ یا اس کا گناہ یہ ہے کہ اپنے باپ کا ہاتھ پکڑ کر مقتل کدے میں جلادوں کے حوصلے آزمانے آگئی؟ کیا کہیں محفوظ ایوانوں بیٹھے گیدڈوں کو للکار کر ڈرا دیا ہے؟ کیا قبضہ گروپ کے خلاف آواز اٹھانا اس کا جرم تو نہیں؟
اگر اس کا یہی جرم ہے تو یہ بہادر بیٹی میری بیٹی ہے یہ میری قوم کی بیٹی ہے۔۔۔یہ ہم سب کی بیٹی ہے اور ہم سب اس کے شریکِ جرم ہیں۔

No comments:

Post a Comment