Tuesday, August 13, 2019

قائداعظم کا پہلی آئین ساز اسمبلی سے خطاب


١١اگست ١٩٤٧


چودہ اگست کی مناسبت سے میں کچھ لکھنا چاہتا تھا اس کے لئے میں تاریخ کے اوراق پلٹ رہا تھا کہ مجھے قائداعظم کی گیارہ اگست کو کی گئی وہ تقریر نظر آگئی جسے ہم نے کبھی اہمیت نہیں دی۔ ہم بچوں کو قائد کے چودہ نقاط کا رٹا لگواتے رہتے ہیں جن کی بنیاد پر مسلم ریاست کا مطالبہ کیا گیا تھا مگر جب ریاست بن گئی اور اس کے رہنما اصول مرتب ہورہے تھے تب قائداعظم نے جو ارشادات اور رہنمائی عطا کی اسے ہم نے مکمل طور پر فراموش کر دیا ہے۔ آئین ساز اسمبلی سے خطاب کو دیکھ کر لگا کہ اس سے زیادہ اہم اور کوئی بات نہیں ہوسکتی۔ آج بھی ایسا لگتا ہے کہ جیسے ہم ملکی اور ریاستی رہنما اصولوں کی تلاش میں ہیں۔ آج ہماری تاریخ بتاتی ہے کہ ہم دائروں میں سفر کررہے ہیں۔ ہمیں قائد کے وہ رہنما اصول ضرور یاد کرنے چائیں جن کی بنیاد پر پاکستان کی ترقی اور خوشحالی کا خواب شرمندہٰ تعبیر ہو سکتا ہے۔ 


میں چاہتا تھا کہ قائداعظم کے خطاب کو حرف بہ حرف اردو میں ترجمہ کرتا مگر میری انگریزی زبان پر کمزور گرفت اور کم علمی آڑے آگئی۔ میں آپ کےسامنے اس بہت اہم خطاب کا خلاصہ رکھ رہا ہوں مجھے امید ہے کوئی نہ کوئی ضرور اس خطاب کا اردو ترجمہ مہیا کردے گا تاکہ اس بلوگ پر مکمل خطاب اردو ترجمے کے ساتھ شامل کیا جا سکے۔ خطاب میں دس پیراگراف شامل ہیں میں آپ کے سامنے ہر پیراگراف کا خلاصہ پیش کرنے کی جسارت کررہا ہوں۔ اگر کوئی کمی بیشی نظر آئے تو مجھے ضرور مطلعہ کیا جائے تاکہ تصحیح ہوسکے۔ 


آئین ساز اسمبلی کے مقاصد
پہلے پیراگراف میں قائد نے واضع کیا کہ آئین ساز اسمبلی کے دو اہم مقاصد ہیں۔ پہلا مقصد یہ ہے کہ یہ اسمبلی  پاکستان کے مستقبل کے لئے ایک عبوری آئین مرتب کرے اور دوسرا مقصد یہ ہے کہ یہ اسمبلی مکمل آزاد حیثیت سے وفاقی قانون ساز اسمبلی کے فرائض بھی سرانجام دے۔ 

قائد نے اسی پیراگراف میں واضع کیا کہ پاکستان کسی معجزے سے کم نہیں ہم نے وہ حاصل کیا ہے جس کی دنیا کی تاریخ میں مثال نہیں ملتی اور وہ بھی مکمل طور پر پرامن اور ارتقائی مراحل سے گزرتے ہوئے۔


لاء اینڈ آرڈر
دوسرے پیراگراف میں قائد نے اسمبلی کے ممبران سے خطاب کرتے ہوئے فرمایا کہ یاد رکھیں آپ مکمل طور پر آزاد قانون ساز باڈی ہیں اور آپ کے پاس تمام اختیارات ہیں اور اسی وجہ سے آپ پر بہت بڑی ذمہ داری بھی پڑتی ہے کہ آپ کیسے فیصلے کرتے ہیں۔ آپ نے فرمایا کہ میرے مشاہدہ کے مطابق حکومت کی سب سے بڑی ذمہ داری لاء اینڈ آرڈر کو یقینی بنانا ہے تاکہ عوام کی زندگی، جائیداد، اور مذہبی عقائد مکمل طور پر محفوظ ہوں جن کی ضمانت ریاست دے گی۔

رشوت اور کرپشن
قائد کی تقریر کے تیسرے پیراگراف میں رشوت اور کرپشن کا ذکر دیکھ کر میں ششدر رہ گیا۔ آج ہماری جو حالت ہے محترم قائد نے اس وقت اس کو زہر قرار دیا تھا مگر بدقسمتی سے آج بھی ہم اس معاشرتی برائی سے پیچھا نہیں چھڑا سکے۔ آپ نے فرمایا کہ انڈیا جس سب سے بڑی لعنت سے نبردآزما ہے وہ ہے رشوت اور کرپشن۔ آپ نے فرمایا کہ یہ زہر ہے اور اسے ہم کو آہنی ہاتھوں سے ختم کرنا ہوگا اور یہ کہ مجھے امید ہے آپ جلد مناسب اقدامات کریں گے

چوربازاری یا بلیک مارکیٹنگ
چوربازاری ایک اور لعنت ہے۔ آپ نے فرمایا کہ آج جو ہماری حالت ہے اس میں چوربازاری ایک بہت سنگین جرم ہے۔ بلیک مارکیٹنگ کرنے والے مجرموں کو سخت ترین سزائیں دی جائیں کیونکہ جو یہ کام کرتے ہیں وہ بہت سمجھدار اور معلومات رکھنے والے لوگ ہوتے ہیں اور جب وہ چوربازاری کرتے ہیں تو وہ دراصل تمام نظام کو مجروع کرتے ہیں جس کی وجہ سے بہت بڑی تعداد میں لوگوں میں خوراک کی کمی واقع ہوتی ہے اور یہاں تک کہ اموات بھی واقع ہوجاتی ہیں۔


اقرباپروری اور بددیانتی
آپ نے فرمایا کہ اقرباپروری اور بددیانتی ایک اور میراث جو ہمیں متحدہ انڈیا سے مل رہی ہے۔ آپ نے فرمایا کہ میں واضع کردینا چاہتا ہوں کہ کسی بھی قسم کی بددیانتی، اقرباپروری یا کسی بھی قسم کا براہ راست یا بلواستہ اثر میں بلکل بھی برداشت نہیں کروں گا۔


دو قومی نظریہ کی وضاحت اور ترقی کا راز
چھٹے پیراگراف میں قائداعظم نے بہت اہم مسئلے کا ذکر کیا اور اس کی بہت دانشمندانہ انداز میں وضاحت بھی کی۔ آپ نے فرمایا کہ مجھے معلوم ہے کہ بہت سے لوگ انڈیا پنجاب اور بنگال کی تقسیم کے حق میں نہ تھے۔ مگر اب یہ ہوچکا ہے اور اب ہمیں سب کو مل کر ایمانداری اور وفاداری سے معاہدے پر عمل کرنا ہوگا۔ مجھے یقین ہے کہ تاریخ ہمارے معقف کی تائد کرے گی اور یہ تجربے سے ثابت ہوجائے گا کہ انڈیا کی تقسیم کے علاوہ کوئی اور حل موجود نہیں تھا۔ متحدہ ہندوستان کا خیال کبھی کامیاب نہیں ہوسکتا تھا اور میرے خیال میں ایسا کوئی بھی تجربہ خوفناک تباہی کا باعث بنتا۔ 
آپ نے فرمایا کہ اب جب کہ تقسیم ہوچکی تو اب ہمیں کیا کرنا چائیے؟ اب اگر آپ چاہتے ہیں کہ پاکستان کی عظیم ریاست ترقی کرے اور خوشحال ریاست بن جائے تو پھر ہمیں بھرپور طریقہ سے عوامی فلاح پر توجہ دینا ہوگی اور خاص طور پر عام آدمی اور غریب لوگوں پر۔ اگر ہم ماضی کو بھول کر اکٹھے کام کریں نفرتوں کو دفن کردیں تو پھر آپ کو ترقی کرنے سے کوئی نہیں روک سکتا۔ اگر آپ یہ بھول جائیں کہ کونسی کمیونٹی سے آپ کا تعلق ہے، کیا رنگ، نسل یا مذہب ہے۔۔۔۔۔ یاد رکھیں کہ ریاست کے تمام شہری حقوق، فرائض اور مراعات میں برابر ہیں۔ اگر ہم ایسا کرسکیں تو پھر ہماری ترقی کی کوئی انتہا نہیں ہوگی۔

آزادی اور ترقی میں رکاوٹ
ساتویں پیراگراف میں آپ نے تاریخی حوالہ جات سے واضع کیا کہ کیسے ہماری مذہبی، نسلی اور علاقائی تعصبات ہمیں ترقی کرنے سے روکتے ہیں۔ آپ نے انگلینڈ کا حوالہ دیتے ہوئے بتایا کہ وہ معاشرہ کبھی رومن کیتھولک اور پروٹیسٹنٹس میں بری طرح تقسیم تھا۔ انگلینڈ کے لوگوں کو وقت سے ساتھ ایک ایک قدم مشکلات کا سامنا کر کے سیکھنا پڑا کہ ہر انسان برابر کا شہری ہوتا ہے اور اب تمام لوگ وہاں برابر کے شہری ہیں اور تمام ایک قوم کا حصہ ہیں۔  آپ نے فرمایا کہ ہم اس ملک کی شروعات ان بنیادی اصولوں کے ساتھ کررہے ہیں کہ تمام شہری ریاست پاکستان میں برابر ہوں گے۔ 

ہندو نہ سکھ نہ عیسائی نہ مسلم
آپ نے فرمایا کہ ہمیں اپنے ذہنوں میں یہ خیال پختہ کرنا چائیے کہ وقت کے ساتھ ساتھ ہندو ہندو نہیں رہے گا اور مسلمان مسلمان نہیں رہے گا۔ مذہبی حوالے سے نہیں بلکہ سیاسی حوالے سے سب ایک قوم بن جائیں گے۔ سب ریاست کے شہری ہوں گے۔

انصاف اور غیرجانبداری
آپ نے فرمایا کہ میں ہمیشہ انصاف کے اصولوں کاربند رہا ہوں۔ میرے رہنما اصول انصاف اور مکمل غیرجانبداری ہیں۔ مجھے امید ہے کہ آپ میری مدد کریں گے۔


آخری پیراگراف میں آپ نے امریکہ سے خیرسگالی کا جو پیغام وصول ہوا اسے آپ نے پڑھ کر سنایا۔

No comments:

Post a Comment