Thursday, February 7, 2019

ایک نئے نظریے کی ضرورت

ٹراٹسکی کا ایک مقولہ ایک جگہ لکھا دیکھا جس کا ترجمہ کچھ یوں ہے کہ کتاب پرست سمجھتے ہیں کہ جدلیات کوئی ذہن کا فضول کھیل ہے لیکن درحقیقت یہ ارتقاء کے اس عمل کو ہی نقل کرتے ہیں جو تضادات کے ذریعے آگے بڑھتا ہے۔

جدلیاتی سائنس
کاش ایسا ہی ہوتا کہ یہ ارتقاء کے عمل کو ہی نقل کرتے مگر ایسا نہیں ہے۔ درحقیقت یہ مخصوص نظریات کی ترویج کیلئے حقائق کو توڑ مروڑ کر پیش کرتے ہیں۔ جدلیات اگر سائنس ہے تو پھر اس کے مطابق تو دو مخالف نظریات کے تضادات سے ایک نیا نظریہ پیدا ہوتا ہے اور پھر اس کے مخالف ایک نظریہ پیدا ہوتا ہے اور پھر ان دونوں کے ملاپ سے ایک اور نظریہ جنم لیتا ہے۔ ارتقاء کے نظریہ کے مطابق یہ بات درست لگتی ہے۔ جدلیات کی رو سے سرمایہ داری کی مخالفت میں سوشلزم یا کیمونزم پیدا ہوا۔ پھر ان کے ملاپ سے اگر سوشل ڈیموکریسی پیدا ہوئی ہے اور وہ آج کے حالات کے مطابق سب سے کامیاب نظام ہے تو اس کو بھی قبول کرنا چاہیے نا؟ ارتقاء کے مراحل میں اگر کیمونزم کہیں موجود ہوا تو حاصل ہوجائے گا۔ وقت سے پہلے اس کو میوٹیشن کے ذریعے سے حاصل کرنے کی کوشش روس، چین اور دیگر ملکوں میں ناکام ہوچکی ہے۔ جدلیات کے نظریہ کی رو سے جدلیاتی کشمکش میں نئے نظریات جنم لیتے رہیں گے اور کوئی بھی ایک نظریہ مستقل شکل اختیار نہیں کرسکتا تو پھر مزدوروں کو حقیقت کی تعلیم دینے کی بجائے کامریڈ حضرات انقلاب کا خواب کیوں دیکھاتے رہتے ہیں؟ کیوں ایک مخصوص نظریہ کو ہی راہ نجات تصور کرتے ہیں؟

انقلابی تعویلات
آج تاریخ کے دھارے کو بلا کسی تعصب کے بخور مطالعہ کریں تو نظر آئے گا کہ سوشلزم اور سرمایہ داری دونوں نظریات کو عملی آزمائش میں ڈالا گیا۔ سرمایہ داری اپنے سائنس کے ساتھ الحاق کی وجہ سے ناکامی سے ہمیشہ بچ نکلتی ہے جبکہ سوشلزم ایک مفقود سوچ اور اندھی تقلید کی وجہ سے ناکام ہوگیا۔ اس کے ماننے والوں نے وقت کی ضروریات کے مطابق اپنے نظام میں تبدیلیوں کی بجائے اپنے مفتوحہ علاقے پر زور ذبردستی سے ایک نظام نافذ کرنے کی کوشش کی جس میں بے شمار تبدیلیوں اور بہتریوں کی اشد ضرورت تھی۔ اس شدت پسندی کا نتیجہ یہ ہوا کہ لاکھوں لوگوں کی جانیں بھی گئیں اور سترسال کی محنت بھی بےکار گئی۔ اب انقلابی لوگ اس ناکامی کی بے شمار تعویلات دیتے نظر آتے ہیں مگر جب تک روس کا معاشرہ بند تھا اور وہاں سے یکطرفہ اطلاعات آتی تھیں تب تک یہی روس جنت کا ٹکڑا تھا۔ آج لیفٹ کے دانشور ہمیں یہ سمجھانے میں لگے ہیں کہ انقلاب جو لاکھوں مزدوروں کی قربانیوں کے نتیجہ میں برپا ہوا تھا وہ ایک سٹالن اور چند ایک افسروں کی نالائقی کی وجہ سے ختم ہوگیا۔۔۔۔۔ اور مزدوروں کی حکومت کا خواب شرمندہ تعمیر نہیں ہوسکا۔ اس طرح کی مثالیں دے کر یہ حضرات دراصل مارکسز کی ایک ایسی خامی کی طرف اشارہ کرتے ہیں جس سے ثابت ہوتا ہے کہ یہ نظام عملی طور پر کبھی بھی کامیابی سے نافذ نہیں ہوسکتا۔ جب آپ یہ کہتے ہیں کہ لینن تو مخلص انقلابی تھا مگر سٹالن غدار تھا اور وہ افسر شاہی سے مل کر انقلاب کو ناکام کرنے کا باعث تھا تو اس سارے عمل میں مزدور کہاں گئے؟ وہ مزدور جن کی حاکمیت کے لئے یہ سب خون آشام انقلاب آیا تھا وہ کسان جس کو قحط سے آزاد کرنے کا وعدہ تھا وہ سب عوام کہاں گئے جنھوں نے زار جیسے ظالم بادشاہ کو شکست دی تھی؟ لال خان کا کہنا ہے کہ وہ تھک چکے تھے اس لئے وہ دوبارہ متحرک نہیں ہوئے اور رد انقلاب کا نظریہ کامیاب ہوگیا۔۔۔۔ کیا ایسا ہوتا ہے انقلاب؟ کیا واقعی مزدور تھک گیا تھا یا ٹراٹسکی کی طرح جس نے اس کے خلاف آواز اٹھائی اسے مارڈالا۔  کہیں ایسا تو نہیں کہ اس انقلاب نے ایک آمریت سے دوسری آمریت تک کے سفر میں لاکھوں غریبوں کو ظالمانہ طریقوں سے جان بحق کرکے غربت میں کمی کا وعدہ پورا کیا؟

مقلد سوچ
نظریات کے قیدی کبھی حقیقی تجزیہ نہیں کرپاتے۔ ان کا ہر تجزیہ چاہے وہ پہلا تجزیہ ہو یا آخری وہ ایک مخصوص نتیجہ
 نکالنے کی سعی ہوتا ہے وہ اس کو سچ ثابت کرنے کی کوشش میں بہت سے حقائق کو چھپانے پر مجبور ہوتے ہیں۔ اسی لئے جب روسی انقلاب کی ناکامی روز روشن کی طرح واضع ہوگئی تو انقلاب کے سرکردہ رہنماوں کو انقلاب کا دشمن بنا دیا گیا۔ سٹالن نے جو کچھ کیا وہ اس انقلاب کو بچانے کا وہی طریقہ تھا جس کو لینن نے اختیار کررکھا تھا مگر ہم سٹالن کو نشانے پر لا کر اپنے انقلاب کی اخلاقی اور قانونی حیثیت برقرار رکھنے کی کوشش کررہے ہیں۔ خونریزی کا جو طوفان سٹالن نے اٹھایا اس کا آغاز لینن کے دور سے شروع ہوا۔ دوسری طرف معیشت کی بحالی کا جو سہرا انقلابی لیتے ہیں وہ اس کا آغاز زار حکومت میں شروع ہوچکا تھا۔ انڈسٹری انقلابی بنیادوں پر استوار کرنے کی شروعات زار نے کردی تھی مگر شاید اس نے بہت دیر کردی اور مارکسی انقلابی آمریت نے اس کا تختہ الٹ دیا۔ مگر پھر روس کے لوگوں کے ساتھ اگلے چند سالوں تک جو ہوا اس کی داستانیں سن کر بھی انسان کی انسانیت سے ایمان اٹھ جاتا ہے۔ آج بھی ہماری یہاں متشدد مارکسی انقلابی اسی قسم کے انقلاب کی باتیں کرتے نہیں جھجھکتے۔ لال خان اپنی کتاب بین الاقوامی صورتحال اور اکیسویں صدی کا سوشلزم میں روس کے انقلاب کی خامیوں کا دفع کرنے کے بعد فرماتے ہیں

انتخابی جدوجہد، بے شک یہ بہت اہم ہے، لیکن اقتدار کے مرکزی سوال کو حل نہیں کرسکتی۔ یہ انقلاب کرنے کےلئے سازگار حالات تو پیدا کرسکتی ہے۔ لیکن آخری تجزیہ میں اقتدار کےلئے جدوجہد تقریروں اور پارلیمنٹ میں قراردادیں پیش کرنے سے انجام تک نہیں پہنچ سکتی۔ اشرافیہ ایک خوفناک لڑائی کے بغیر اپنی طاقت اور مراعات سے کبھی بھی دستبردار نہیں ہوگی۔ اس حقیقت سے آنکھیں چرانے کا مطلب انتہائی غیر ذمہ دارانہ اور انقلاب کے خلاف ایک بہت بڑا جرم ہوگا۔۔۔۔۔۔

اس قسم کے انقلابی کسی بھی قسم کے اصلاحی اقدامات کے سخت مخالف ہوتے ہیں۔ ان کی نظر میں تبدیلی صرف اور صرف خونی انقلاب سے ہی آتی ہے۔ ان کی نظر میں مارکسی نظریات کو نافذ کرنے کےلئے خوفناک جنگ لڑنا لازم ہے۔ یہی وہ سوچ ہے جو سراسر غیر سائنسی اور غیر عقلی ہے۔ سائنس ہمیں بتاتی ہے کہ دنیا میں ہر تبدیلی بتدریج ہوتی ہے۔ ارتقاء کے نظریہ میں انقلابی تبدیلیاں بھی بہت سے تدریجی مراحل سے گزرنے کے بعد وقوع پزیر ہوتی ہیں۔ ہمارے ترقی پسند اپنے آپ کو سائنسی سوچ کے حامل بھی مانتے ہیں اور سائنس کے بنیادی اصولوں کو بھی ماننے سے انکاری ہوجاتے ہیں۔ سوشلزم کی خوبیوں کو دیکھتے ہوئے جب سرمایہ دارانہ معاشروں نے اس کی خوبیوں کو سرمایہ داری کے ساتھ ملا کر معاشروں کو بہتری کی طرف چلایا تو انھیں بہت سے کامیابیاں حاصل ہوئیں۔ میرے دوست ذرہ تکلیف کریں اور نورڈک ممالک میں نافذ سوشل ڈیموکریسی کی کامیابیوں کی تاریخ پڑھیں۔ یہ ممالک آج بھی دنیا کے ہر معیار کے مطابق سب سے خوشحال اور کامیاب ممالک ہیں۔ گورباچوف روس میں اسی نظام کو نافذ کرنے کا خواہش مند تھا مگر اسے موقع نہ ملا ۔۔۔۔ آج چین کسی حد تک اس کو اپنا کر دنیا کا سب سے تیزی سے غربت کو کم کرنے والا ملک بن گیا ہے

نئے نظریہ کی ضرورت
اس میں کوئی شک نہیں ہے کہ سوشل ڈیموکریسی بھی سرمایہ داری کی ہی تبدیل شدہ شکل ہے مگر یہ تبدیلی وقت کی ضرورت کا نتیجہ ہے۔ معذرت کے ساتھ سرمایہ داری کے علاوہ جو سوشلزم آپ تجویز کر رہے ہیں اس کا تازہ تازہ تجربہ یہ دنیا کرچکی ہے اور اس کے نتائج بھی دیکھ چکی ہے اب یہ تاویلات کہ انقلاب سے غداری کی وجہ سے ناکامی ہوئی یا ٹراٹسکی یا مارکس نے تو پیشین گوئی کی تھی ان باتوں سے اب انقلاب آنے والا نہیں۔ دنیا کی معیشت اب کسی نئے نظام کی منتظر ہے۔ اب نہ سرمایہ داری نہ کیمنزم چل پائے گا۔ روس کا انقلاب اس وقت کی ضرورت تھا۔ انقلاب آچکا تھا بعد میں لینن نے اسے ٹیک اور کیا اور کیمونزم کا تجربہ کیا مگر یہ بری طرح ناکام ہوگیا۔ ۱۹۹۱ میں بلآخر واپس سرمایہ داری کا سہارا لینا پڑا۔ چین نے تو بہت پہلے اس بات کا اندازہ لگا لیا تھا کہ کیمونزم کا نظریہ صرف خیالی جنت بنانے کے کام تو آتا ہے مگر حقیقت میں اسے کامیاب کرنا ناممکن ہے اسی لئے انھوں نے ۸۰ کی دہائی میں ہی اپنی معیشت کو سرمایہ داری کےلئے کھول دیا اسی لئے آج وہ دنیا کی سپر پاور کا مقابلہ کرنے کی پوزیشن میں آگیا ہے۔۔۔۔۔ نہ سرمایہ داری نہ کیمونزم انسانوں کی مشکلات کا حل دے سکا۔۔۔۔ اب ہمیں ایک نیا تجربہ کرنا ہے کچھ نیا سوچنا ہے ورنہ غریب کی حالت کبھی نہ بدلے گی

No comments:

Post a Comment