Thursday, January 17, 2019

انسان قبیلہ - انسانیت کا خواب


انسان صدیوں سے مختلف گروہ بندیوں میں تقسیم رہا ہے۔ ہر گروہ کی خواہش رہی کہ وہ دوسروں پر سبقت لے جائے۔ دوسروں کو اپنے انداز سے رہنے پر مجبور کرے یا پھر ان کو برباد کردے۔ یہ گروہ بندیاں مختلف صورتوں میں ہمیں تقسیم کرتی رہی ہیں۔ ان میں قبائلی، علاقائی اور مذہبی گروہ بندیاں شامل ہیں۔ دوسروں سے آگے بڑھنے کی خواہش اور دوسروں کا خوف، یہ دونوں جنگ کا باعث بنتے رہے ہیں۔ آج سے صدیوں پہلے یونان کے ایک فلسفی اور تاریخ دان تھسی ڈیڈیز نے کہا تھا کہ ایتھنز کی ترقی اور یہ خوف کہ اس کا اثر سپارٹا پر بھی ہوگا نے دونوں شہروں کے درمیان جنگ لازم کردی تھی۔

یونان کے تاریخ دان کا بیان کردہ اس اصول کو سامنے رکھ کر جب دنیا کی تاریخ کا مطالعہ کریں تو صاف نظر آتا ہے کہ موجود طاقتوں کا ابھرتی طاقتوں پر حملہ کرنے کے امکانات بہت زیادہ ہوتے ہیں اور اکثر خطرنات جنگوں کی وجہ بنتے رہے ہیں۔ لوگوں کا خیال ہے کہ سائنسی انقلاب کے بعد انسان کا شعور بہت ترقی پا چکا ہے مگر پھر ہم بیسیویں صدی میں سائنسی ترقی کے باوجود پہلی اور پھر دوسری عالمی جنگوں کی ھولناکیاں دیکھتے ہیں۔ ان عالمی جنگوں میں ہم نے یورپ میں نسلی تفاخر کی انتہا پسندی دیکھی۔ ان تباہ کاریوں کے بعد اجتماعی انسانی شعور نے ایک کروٹ کی اور ہم اقوام متحدہ بنانے میں کامیاب ہوگئے۔ مگر پھر ہم روس اور امریکہ کے درمیان لڑی جانے والی سرد جنگ میں مبتلاء ہوگئے۔ اس جنگ میں کئی ملکوں کی معیشت کو تباہ کردیا۔ افغانستان میں پسپائی کے بعد متحدہ روس بھی الگ ریاستوں میں تقسیم ہوگیا۔ اس کے بعد انسان کی انفرادی قبائلی سوچ نے دہشتگردی کی جنگ شروع کردی۔ اسے تہذیبوں کی جنگ بھی قرار دیا گیا۔

آج انسان اپنے شعور کی بلندیوں پر پہنچ چکا ہے ہم نےکائینات کے سربستہ رازوں سے پردے اٹھا دیئے ہیں۔ ہم کائینات کی مائیکرو لیول سے میکرو لیول تک کی انتہاوں کو چھونے کی کوشش کررہے ہیں۔ ہم ایک طرف تو آئین سٹائین کی مشکل سے سمجھ آنے والی تھیوری کی سچائیوں کے ثبوت تلاش کر چکے ہیں تو دوسری طرف کوانٹم اینٹینگلمنٹ کے الجھاو کو سلجھا رہے ہیں۔ اب ہم اپنی ذہانت کو مشینوں میں منتقل کرنے لگے ہیں اور آرٹیفیشل ذہانت سے روبوٹس کو مزین کرچکے ہیں۔ ہم نے قدرت کی قوتوں کو اپنے اختیار میں کرکے انھیں اپنے زیر استعمال کرلیا ہے۔ یہ سب تو کرچکے مگر اپنے خوف اور اپنے تعصبات کو کنٹرول نہیں کرپائے۔ ہم اب بھی مقامی گروہی مفادات کی خاطر انسانی مقام کو قربان کردینے سے گریز نہیں کرتے۔ ہم صدیوں پرانی کہانیاں ابھی تک دہرا رہے ہیں۔ جرمنوں نے اپنی نسل کو اعلی ترین قوم سمجھا اور دوسروں پر جنگ مسلط کردی۔ امریکنوں کا خواب بہت مشہور ہے۔ انھوں نے اپنے خواب کے مطابق دنیا کو ترتیب دینے کے لئے نیو ورلڈ آرڈر قائم کرنے کی کوشش کی اور اس کوشش میں اس نے دنیا میں نئے فساد متعارف کروائے۔ اور اب چین کی باری ہے۔ چین ایک ابھرتی طاقت ہے جس نے امریکہ کو بہت سے شعبوں میں پیچھے چھوڑ دیا ہے۔ چند دہائیوں میں چین نے دنیا میں ترقی کے تمام ریکارڈ توڑ دیئے ہیں۔ اس کے بڑہتے ہوئے اثر پر امریکہ کی پریشانی کو دنیا کے تمام دانشور واضع طور پر محسوس کررہے ہیں۔ یہ صورتحال صدیوں پرانی ایتھنز اور سپارٹا کی جنگ جیسی ہے۔ چین بھی آج ایک ابھرتی طاقت ہے جو پہلے سے موجود طاقت کے لئے ایک خطرے کی گھنٹی کی طرح ہے۔ چین کے لوگ بھی اپنے چینی خواب کا ذکر کرتے نظر آتے ہیں۔ بہت تیزی سے چین نے اپنی معیشت کو طاقتور کرلیا ہے اور بہت آہستہ سے وہ اپنی فوجی طاقت میں بھی اضافہ کرتا جا رہا ہے۔

ماہرین کے نزدیک یہ صورتحال ایک لازمی جنگ کی طرف بڑھ رہی ہے۔ اگر اب کسی بھی قسم کی عالمی جنگ کا خطرہ ہوا تو یہ پہلی تمام جنگوں سے زیادہ خطرناک ہوگی یا شاید آخری جنگ ثابت ہو کہ اس کے بعد یہاں سے انسانی وجود ہی ختم ہوجانے کا خدشہ ہے۔ آج ہمیں اپنے اپنے قبائلی مفادات کو بھول کر اجتماعی انسانی سوچ پیدا کرنے کی اشد ضرورت ہے۔ الگ الگ امریکی، چینی، پاکستانی یا ہندوستانی خواب دیکھنے کی بجائے ایک انسانی خواب دیکھنے کی ضرورت ہے ایک انسان قبیلہ بننے کی ضرورت ہے۔

اگر ہم غور کریں تو تمام انسانی ترقی اور شعور کبھی بھی کسی ایک قوم یا نسل کا روثہ نہیں رہا۔ انسان کا ترقی کی شاہراہ پر ہر قدم اجتماعی ترقی کا باعث بنا۔ آج ہم جو سائنسی ترقی کی عروج دیکھتے ہیں یہ بہت سی قوموں اور نسلوں کی انفرادی کاوشوں کا نتیجہ ہے مگر اس کے ثمرات سے ہم اجتماعی طور پر فائدہ اٹھا رہے ہیں۔ ہم نے تجارت کیلئے بین الاقوامی کمپنیاں تو بنالی ہیں مگر ہم بین الاقوامی سوچ پیدا نہیں کرسکے آج ہماری معیشت تو گلوبل ویلج کا حصہ بن گئی ہے مگر ہمارے تعصبات ہمیں ابھی بھی مقامی فروعی مفادات سے باندھے ہوئے ہیں۔ سوشل میڈیا کی بدولت ہمارے سٹیٹس اور ہمارے گڈمارننگ تک گلوبل ہوچکے ہیں۔ ہمارے دوستوں کی لسٹ میں دنیا کی ہر قوم اور نسل کے لوگ موجود ہیں۔ جب ہمارا سب کچھ گلوبل ہوگیا ہے اور ہماری ترقی سپر سونک سپیڈ سے سفر کر رہی ہے تو پھر ہماری سوچ صدیوں پرانی گدھا گاڑی پر کیوں سوار ہے؟

No comments:

Post a Comment