شمالی یورپ کے وہ ممالک جنھیں اسکینڈینیوین یا نورڈیک ملک کہا جاتاہے ان میں ڈینمارک، فن لینڈ، ناروے، سوئیڈن اور آئی لینڈ وغیرہ شامل ہیں۔ یہ ملک بادشاہتوں کے زیر سایہ چلائے جاتے تھے جو کہ بیسویں صدی میں جمہوری بنے۔ آجکل ان ملکوں کو سب سے زیادہ جمہوری مانا جاتا ہے۔ ان ملکوں کے نظام میں جہاں بہت سے اختلافات اورا انفرادی خصوصیات ہیں وہیں ان میں بہت سی خصوصیات مشترک بھی ہیں۔ ان ملکوں میں بسنے والے دنیا میں سب سے زیادہ سیکولر اور غیر مذہبی لوگ ہیں۔ یہ یونیورسلزم پر یقین رکھتے ہیں۔ یہ نظریہ اس اصول پر قائم ہے کہ تعلیم، سماجی خدمات اور سہولیات پر سب کا حق ہے اور یہ کہ ٹیکسوں کی آمدن سے ان پر خرچ ہونا چاہئے۔ تمام ملک ویلفیئر اسٹیٹ ہیں جن میں حکومتیں عوام کی آزادی اور ترقی کی راہیں کھلی رکھنے کیلئے کام کرتی ہیں۔ کارپوریٹائیز سسٹم ہے جہاں لیبر کے نمائندے اور روزگار دینے والا آجر ادارہ مل کر لیبر پالیسی اور تنخواہیں وغیرہ طے کرتے ہیں اور حکومت ان میں ثالثی کا کردار ادا کرتی ہے۔
مشترکہ خصوصیات
حکومتیں نجی ملکیت، فری مارکیٹ اور فری تجارت کو یقینی بناتی ہیں۔ نجی ملکیت کی آزادی ہے مگر کچھ پابندیوں کے ساتھ۔۔ ان ملکوں میں مشترکہ خصوصیات کے باوجود ہر ملک کا اپنا معاشی اور معاشرتی ماڈل ہے جو بعض اوقات ہمسایہ ملک سے بہت مختلف بھی ہوتا ہے۔ اس نظام کی جو خصوصیات مشترکہ ہیں وہ مندرجہ ذیل ہیں۔
۔ معاشرتی تحفظ کا نظام ۔۔۔ جس میں بےروزگاری کا مشاہرہ، صحت اور علاج کا حق، مفت تعلیم، گھر کا حق، قانونی مدد اور اس طرح کے بیسیوں تحفظ شامل ہیں۔ یہ سب زیادہ تر ٹیکس کی بنیاد پر مہیا کئے جاتے ہیں۔
۔ سازگار ماحول ۔۔۔۔ کاروبار کے لئے نہایت سازگار ماحول جس میں جائیداد کے حقوق، معاہدوں کا تحفظ اور دیگر سازگار کاروباری ماحول کیلئے مطلوب قوانین و قواعد شامل ہیں۔
۔ عوامی پینشن ۔۔۔۔ عوامی پینشن کا منصوبہ جس میں سب کو اولڈ ایج بینیفٹ حاصل ہوتا ہے اور پینشن سب کےلئے کا اصول لاگو ہوتا ہے۔
۔ آزاد تجارت ۔۔۔۔ حکومتیں آزاد تجارت کو سپورٹ کرتی ہیں اور اس کے ساتھ پیچھے ادارے موجود ہیں جو آزاد تجارت میں موجود رسک کو کور کرتے ہیں۔ اشیاء کی مارکیٹنگ کیلئے کم سے کم ضوابط کا اطلاق بھی آزاد تجارت کا خاصہ ہے۔
۔ کرپشن ۔۔۔۔ ان ملکوں میں نہایت کم کرپشن ہے۔ ٹرانسپیرنسی انٹرنیشنل کے مطابق نورڈیک ممالک دنیا کے کم ترین کرپشن والے ممالک میں شامل ہیں۔
۔ ورکرز یونین ۔۔۔ دنیا میں سب سے زیادہ یونین سے منسلک ورکرز انھیں ممالک میں ہیں۔ ان کی یونینز بہت طاقتور ہیں اور بہت سے فلاحی اور تحفظ کے پروگرام انھیں کے زیر انتظام چلائے جاتے ہیں۔
حصہ داری
ان ممالک میں کام کرنے کے قوائد کو حکومتیں قوانین کی مدد سے کنٹرول کرنے کی بجائے عاجر، ٹریڈ یونینز اور گورنمنٹ مل کر طے کرتے ہیں۔ زندگی کی بہترین سہولیات اور مواقع کی وجہ سے ان ممالک میں لوگ دنیا میں سب سے زیادہ خوش افراد میں شامل ہیں۔ ورکرز کے حقوق کا تحفظ بھی سب سے زیادہ انھیں ممالک میں ہوتا ہے۔ یہ ممالک جی ڈی پی میں سب سے زیادہ اخراجات عوامی فلاحی اخراجات کرتے ہیں۔ اس کی ایک وجہ یہ ہے کہ زیادہ تعداد میں سرکاری ملازمتیں مہیا کی جاتی ہیں۔ اس کے علاوہ بلند ترین ریٹ پر بے روزگاری الاونس اور پینشن ادا کی جاتی ہے۔ ان ممالک میں صحت اور تعلیم پر سب سے زیادہ خرچ ہوتا ہے۔ یقینا ان سب سہولیات کے بعد ان ممالک میں ٹیکس کا بوجھ کافی زیادہ ہے مگر اس کے بدلے عوام جو حاصل کرتی ہے وہ بےمثال ہے۔
نورڈیک ممالک ایک لچکدار لیبر مارکیٹ بھی ہیں۔ جہاں قوانین کے ذریعے ملازم رکھنا، نکالنا اور ٹیکنالوجی کے استعمال سے لیبر بچانے کو آسان بنایا گیا ہے۔ سرمایہ داروں کو ان سہولیات کے ساتھ جو ان کے برے اثرات ہوتے ہیں انھیں حکومتیں مناسب فلاحی اقدامات اور سوشل سیکیورٹی کے منصوبوں سے بھرپور مقابلہ کرتی ہیں اور ورکرز کو فائدہ پہنچاتی ہیں۔ نورڈیک ممالک میں آزادانہ تجارت کا سرمایہ دارنہ نظام رائج ہے۔ ان ممالک میں سے ناروے ایک ایسا ملک ہے جہاں سرکاری تحویل میں چلنے والے ادارے تعداد میں سب سے زیادہ ہیں۔ ان ممالک میں آبادی کا بہت بڑا حصہ سرکاری اداروں کا ملازم ہے۔ جو تقریبا تیس فیصد بنتا ہے۔ کچھ ماہرین معیشت اس نظام کو ایک خوبصورت سرمایہ داری نظام کا نام دیتے ہیں۔ کیونکہ اس میں ناانصافی بہت کم ہے اور برابری کا نظام قائم ہے۔ بہت سخی فلاحی ریاستیں ہیں جہاں بڑی آمدن کو اوپر جمع ہونے سے روکا گیا ہے۔ ناروے کے ایک پروفیسر نے کہا تھا کہ ہم نے چینی طریقہ کار چینیوں سے بھی پہلے دریافت کرلیا تھا جس میں کاروبار کو یہ تحویل میں لیا جاتا ہے نہ مکمل چھوٹ ہوتی ہے یعنی نجی ملکیت میں اور نجی کاروبار میں پارٹنرشپ لی جاتی ہے۔ ملک کے زیادہ تر بڑے پراجیکٹس میں سرکاری پارٹنرشپ ہوتی ہے لہذا یہ ممالک قوانین سے نہیں حصہ داری کی وجہ سے ان کو کنٹرول کرتے ہیں اور کاروباری اداروں کو لیبر اور عوام کے حق میں استعمال کرتے ہیں۔
خوابوں کی سرزمیں
ناروے مغرب میں واحد ملک ہے جہاں نوجوان نسل پہلی نسل کی نسبت زیادہ دولت مند ہورہی ہے۔ جبکہ مغرب کے دوسرے ملکوں میں نئی نسلیں پہلی نسلوں کی نسبت غریب ہورہی ہیں۔ نومی کلین کے مطابق گزشتہ سویت یونین کا لیڈر مخائل گوباچیف روس کو نورڈیک ممالک کے ماڈل پر چلانا چاہتا تھا۔ اس کا خیال تھا کہ اس سے روس کو وہ دنیا کیلئے روشن مثال بنادے گا۔ اس کے خیال یہ بھی تھا کہ ان ممالک کی نجی ملکیت، فری مارکیٹ اور معاشی تحفظ ایسی خصوصیات ہیں جو کہ سویت یونین کی انسانوں کیلئے سوشلزم کا روشن منار بنادےگیں۔ نورڈیک ممالک کے مختلف انداز حکومت ہونے کے باوجود ان کی منزل ایک ہے۔ ایک فلاحی ریاست کا انتظام بہتر سے چلانا اور عوام کو بہترین سہولتیں مہیا کرنا۔ ڈینمارک پرائیویٹ سیکٹر کے ذریعے عوامی منصوبوں اور فلاحی اداروں کو چلاتا ہے جبکہ ناروے میں زیادہ تر فلاحی پراجیکٹس سرکاری محکموں کی زیر نگرانی چلائے جاتےہیں۔ فن لینڈ میں رضاکار تنظیموں کے ذریعے فلاحی اداروں کا انتظام چلایا جاتا ہے جبکہ آئی لینڈ میں ویل فئیر ٹو ورک کا اصول اپنایا گیا ہے۔
غربت کو کم کرنے میں یہ ممالک سب سے آگے ہیں۔ میری مینڈر کے مطابق نورڈیک ماڈل ایک مخلوط النسل نظام ہے جس میں کچھ سرمایہ داری اور کچھ سوشلزم کی خصوصیات کو مرکب کیا گیا ہے۔ معیشت میں نوبل انعام یافتہ ماہر معیشتدان جوزف سٹینگلٹز کا کہنا ہے کہ سکینڈینیوین ممالک نے اپنا نظام تعلیم، معاشی پالیسیاں اور قانونی ڈھانچہ تبدیل کر کے کچھ اس طرح ڈھال لیا ہے کہ جس میں طبقاتی تبدیلی بہت آسانی سے ممکن ہے۔ یہ ممالک اب لینڈ آف آپرچونیٹی یعنی خوابوں کی سرزمین بن چکے ہیں جو کہ کبھی امریکہ ہوتا تھا۔
No comments:
Post a Comment