انسان نے جب سوچنا شروع کیا تو اس کے ارد گرد کے ماحول نے بہت سے سوالات پیدا کردیئے۔ ان سوالات کے جواب حاصل کرنے کی سعی میں علم فلسفہ کا آغاز ہوا۔ فلسفہ کا بنیادی کام انسان کے ان سوالوں کے جواب ڈھونڈنا تھا جن کا جواب اسے دیگر ذرائع سے حاصل نہیں ہوپاتا تھا۔ فلسفی جب کسی سوال کا جواب دیتا ہے تو وہ اس دور کے حالات اور اس دور کے جدید علم کو استعمال کرتے ہوئے جو بہترین جواب ممکن ہوتا ہے وہ تجویز کردیتا ہے اس کی اس کوشش میں کچھ سوالات کے جواب حقیقت کے عین مطابق ہوتے اور بعض جوابات حقیقت سے بہت دور ہوتے۔ اس فلسفی کی تعلیمات پر یقین رکھنے والے اس کے پیغام کو آگے لے کرچلتے اور اس کے نقطہ نظر کی تشہیر کرتے نظر آتے ہیں۔ مگر پھر چند نئے دماغ جن میں بعض اوقات مذکورہ فلسفی کے شاگرد ہی اس کی رائے سے اختلاف کرتے اور ایک نیا نظام سامنے آجاتا۔
ان فلسفیانہ کوششوں کے نتیجہ میں انسانی شعور کا سفر جاری رہا۔ ہر نئی فلسفیانہ کوشش کا مقصد کائینات اور انسان سے متعلق سوالات کا جواب حاصل کرنا ہی ہوتا تھا۔ ان کوششوں کے نتیجہ میں سماجی، معاشرتی اور معاشی ترقی ہوتی رہی۔ سماج اگے بڑھتا انسان کی سوچ میں تبدیلی آتی مگر پھر ایک وقت ایسا آجاتا کہ جس میں فلسفیانہ نظام کے پیروکار اس سوچ کے ساتھ چپک جاتے اور اس کی تشریحات اور تفصیلات میں بحث کا آغاز ہوجاتا ہے۔ تنقیدی نقطہ نگاہ کو رد کرنے پر قوت صرف ہونے لگتی ہے۔ اس رویہ کی وجہ سے تاریخ میں ہم اکثر تحریکوں کو دم توڑتا دیکھتے ہیں۔ تحریک کے محرک فلسفی کا مقصد تو حقائق کو سمجھنا اور جو کچھ سمجھ میں آیا اسے بیان کرنا تھا۔ لیکن اگر فلسفہ کے کسی بھی مجوزہ نظام میں جو نقائص رہ جاتے تھے اسے درست کرنے کیلئے یا نئے نظام کے تحت آگے بڑھنے کے لئے مقلدین تیار نہیں ہوتے۔ اس جمود کا نقصان یہ ہوتا کہ ایک خاص طبقہ اس نظریے کے ساتھ اٹک جاتا اور پھر ایک نئی سوچ کسی اور طبقہ یا کسی اور علاقہ سے ایک نئی تحریک کی صورت نمودار ہوجاتی تھی۔ اس طرح دوسرا نیا فلسفہ بھی کچھ عرصہ کے بعد جامد ہوجاتا۔ یونانی فقہاء سے لے کر آج تک جب تحریک کو جامد کرنے کی کوشش کی گئی اور جس سوچ کو زمین کے ساتھ باندھنے کی کوشش ہوئی وہ زمیں میں دفن ہوگئی یا پھر اس کی ترقی رک گئی اور انسانی زندگیوں اور حقائق کی تلاش میں وہ بہت پیچھے رہ گئی۔
انسانی سوچ کا یہ سفر بہت مشکل مگر بہت دلچسپ ہے۔ ٹھوس ثبوتوں کی عدم موجودگی میں دلائل کے زور پر کسی بھی فلسفہ کو منوایا جاتا تھا۔ حقائق کو سمجھنے کی اس ساری جدوجہد میں ایک طبقہ ایسا بھی پیدا ہوگیا جس نے نظریات کو عملی ثبوتوں کے ساتھ جوڑ دیا اور اپنے نظریات کو ثبوتوں سے مشروط کردیا کہ اگر مخالف ثبوت مل جائیں تو فوری اپنے خیالات و اعتقادات کو بھی بدلے ہوئے علم کی بنیاد پر تبدیل کرلیں۔ اس طبقہ کو ہم سائنسدان کہتے ہیں۔ علوم کی ترقی کے ساتھ منطق اور دلائل کے میعار بھی بدل گئے۔ اب سچائی کا معیار صرف دلائل ہی نہیں ہیں بلکہ اس کے لئے ٹھوس ثبوتوں کے حصول کا ایک منظم نظام قائم ہوگیا ہے۔ اب نئی سچائی معلوم ہونے پر پرانے نظریات کو ترک کرنے میں ہمیں کسی قسم کی عار محسوس نہیں ہوتی۔ ہماری سوچ ہمیں اس مقام پر لے آئی ہے کہ اب ہم سائنسی سوچ اور سائنسی بنیادوں پر استوار کسی بھی نئی بات، فلسفہ یا نظریہ کو اختیار کرلیتے ہیں۔ کم از کم سائنسی قبیلہ تک یہ بات سو فیصد درست محسوس ہوتی ہے۔
فلسفہ کی اس نئی شکل جسے ہم سائنس کے نام سے جانتے ہیں، نے امکانات کی نئی دنیا ہمارے سامنے رکھ دی ہے۔ اب ہم کسی بھی نظریاتی تعصب کے بغیر سچائی کی تلاش میں لگے ہیں۔ سائنس آہستہ آہستہ ہمارے بہت سے سوالات کا جواب مہیا کرتی جارہی ہے۔ سائنس ہمیں اس مادی کائینات کو سمجھنے میں مدد فراہم کررہی ہے اسی کی مدد سے ہم انسان کی ذہنی اور جسمانی قابلیت کو پہچان پائے ہیں۔ انسانی نفسیات ہمیں اس کے اندر کی کیفیات اور محسوسات کو سمجھنے میں مدد دے رہی ہے۔ جو سوالات آج بھی حل طلب ہیں ان کے جواب ہمیں سائنس ہی کی مدد سے حاصل ہوسکتے ہیں۔ اس لئے دنیا میں جتنے بھی نظریات اور خیالات ہیں اور جو ہمارے درمیان تنازعات کا باعث بن رہے ہیں انھیں سائنس کی بنیاد مہیا کردینے چاہئے۔
جب ہم کسی فلسفے میں تبدیلی کی گنجائش ختم کرکے اسے جامد کردیتے ہیں تونظریاتی اختلافات بہت ہی خطرناک صورتحال پیدا کردیتے ہیں۔ مذہبی اور معاشی نظریات نے لاکھوں لوگوں کی جانوں کے نذرانے لئے ہیں اور یہ ابھی تک انسانیت کے لئے خطرہ بنے ہوئے ہیں۔ مذاہب کی ابتداء تو لوگوں کو جوڑنے اور ان کے مشکل سوالات کے جواب دینے کےلئے ہوئی مگر پھر بعد میں مذاہب سوالات کے جواب دینے اور جوڑنے کا کام کرنے کے بجائے لوگوں کے درمیان نفرت کا ذریعہ بن گئے۔ مذہب بھی ایک دور میں ایک نیا فلسفہ ہوتا ہے جو بعد میں جامد ہو کر ایک جبر کا نمائندہ بن جاتا ہے۔ اندھی تقلید کرنے والے پیروکار پیدا ہوجاتے ہیں جو دوسروں کو اپنے لیڈر سے اختلاف کرنے پر اپنی جماعت سے نکال دیتے ہیں اور بعض اوقات موت کے فتوے بھی لگائے جاتے ہیں۔ مذہب ذاتی محسوسات اور اعتقادات کا مجموعہ ہوتا ہے۔ کسی بھی ریاست کے شہری جو بھی ایمان رکھتے ہوں ریاست کو سیکولر ہونا چاہئے تاکہ وہ تمام شہریوں کے درمیان انصاف کرسکے۔ معاشی نظریات بھی دنیا میں سرد جنگ کی صورت میں بہت نقصان پہنچا چکے ہیں۔
سرمایہ داری ایک ایسا نظام ہے جو معاشی جبر کے تحت قائم ہے اور اس کوقائم کرنے میں کسی فلسفے یا کسی ایک فلسفیانہ سوچ کا اثر نہیں اسی لئے اس سے فائدہ اٹھانے والے اسے اپنی ضروریات کے تحت نئی سائنسی تحقیق کو استعمال کرتے ہوئے تبدیل کرلیتے ہیں اور اسے بدلے ہوئے حالات کے لئے موزوں بنالیتے ہیں۔ دوسری طرف مارکس کا نظریہ ہے جو سرمایہ داری کے خلاف جنگ کی حالت میں ہے۔ اس نظریہ کے حامل افراد جو سرمایہ داری کے خلاف بھی ہیں اور اپنے آپ کو سائنسی سوچ کے حامل افراد بھی گردانتے ہیں مگر ان کی مجبوری یہ ہے کہ انھیں اپنی ساری سوچ کو کارل مارکس کے دائرہ میں ہی رکھنا پڑتا ہے۔ اگر بدلے ہوئے حالات میں ان میں تبدیلی کی کوشش کی جاتی ہے تو مارکس کے مقلدین اس سوچ کو رد کردیتے ہیں۔ کارل مارکس کے نظریاتی پیروکار کسی قسم کی تبدیلی برداشت نہیں کرتے بلکہ تبدیلی تجویز کرنے والے پر مزہبی مفتیوں کی طرح فتوے جاری کرنے لگتے ہیں۔ میں بطور مارکسی نظریات کے ہمدرد اور طالبعلم ہونے کے مارکسی علم کے علماء سے گزارش کروں گا کہ اپنے سائنسی نظریات کو محدود دائرہ میں مقید نہ کریں۔ مارکس نے یہ دعوی کبھی نہیں کیا ہوگا کہ جو میں کہہ کرجارہا ہوں وہ حرف آخر ہے اور فلسفیانہ سوچ اور نظریہ میں آج کے بعد کسی بھی طرح کی ترقی یا تبدیلی ناممکن ہے۔ اور یہ کہ جو حل میں نے تجویز کردیا ہے اس سے ذرہ برابر بھی ادھر ادھر نہ ہونا ورنہ تم کافر ہوجاوگے۔
کارل مارکس نے سرمایہ داری نظام کے خاتمہ اور اس کے بعد کیمونیسٹ معاشرہ کے قیام کی جو منازل بیان کیں وہ درست ثابت نہیں ہوئیں۔ کسی فلسفی یا سائنسدان کے دعوے اس کی بیان کردہ پیشین گوئیوں پر پرکھے جاتے ہیں اگر پیشین گوئیاں سچ ثابت نہ ہوسکیں تو اس بات کی گنجائش پیدا ہوتی ہے کہ ہمارے فلسفی سے کہیں کچھ چھوٹ گیا ہے کوئی نظریاتی یا حساباتی غلطی ہوگئی ہے جس کی وجہ سے وہ تصوراتی نتیجہ درست طور پر اخز نہ کرسکے۔ اس کا بہت آسان حل ہوتا ہے کہ آگے بڑھا جائے اور اس نظریہ میں موجود غلطی سمجھا جائے اور ایک نیا فارمولہ پیش کیا جائے۔ سائنس تو ایسے ہی کام کرتی ہے اور مجھے امید ہے سائنس کی بنیاد پر قائم فلسفہ کو بھی سائنسی انداز سے آگے بڑھایا جائے گا۔ آج جبکہ سرمایہ داری بدلے ہوئے حالات کے تحت اپنے طور بدل رہی ہے تو ہمیں بھی مارکس کی سوچ کو آگے بڑھانا چائیے اور اس پر نئی سوچ اور نئ جہت کے لئے کھلے دل و دماغ کے ساتھ سرمایہ داری کے خلاف جنگ جیتنے کے لئے مارکس کے نظریہ میں بھی بتدیلیاں تجویز کرنی چائیے۔ ورنہ مارکس کا نظریہ بھی دوسرے بہت سے تاریخی نظریات کی طرح وقت کا مقید ہوجائے گا اور کبھی کامیابی سے ہمکنار نہ ہوسکے گا۔
ان فلسفیانہ کوششوں کے نتیجہ میں انسانی شعور کا سفر جاری رہا۔ ہر نئی فلسفیانہ کوشش کا مقصد کائینات اور انسان سے متعلق سوالات کا جواب حاصل کرنا ہی ہوتا تھا۔ ان کوششوں کے نتیجہ میں سماجی، معاشرتی اور معاشی ترقی ہوتی رہی۔ سماج اگے بڑھتا انسان کی سوچ میں تبدیلی آتی مگر پھر ایک وقت ایسا آجاتا کہ جس میں فلسفیانہ نظام کے پیروکار اس سوچ کے ساتھ چپک جاتے اور اس کی تشریحات اور تفصیلات میں بحث کا آغاز ہوجاتا ہے۔ تنقیدی نقطہ نگاہ کو رد کرنے پر قوت صرف ہونے لگتی ہے۔ اس رویہ کی وجہ سے تاریخ میں ہم اکثر تحریکوں کو دم توڑتا دیکھتے ہیں۔ تحریک کے محرک فلسفی کا مقصد تو حقائق کو سمجھنا اور جو کچھ سمجھ میں آیا اسے بیان کرنا تھا۔ لیکن اگر فلسفہ کے کسی بھی مجوزہ نظام میں جو نقائص رہ جاتے تھے اسے درست کرنے کیلئے یا نئے نظام کے تحت آگے بڑھنے کے لئے مقلدین تیار نہیں ہوتے۔ اس جمود کا نقصان یہ ہوتا کہ ایک خاص طبقہ اس نظریے کے ساتھ اٹک جاتا اور پھر ایک نئی سوچ کسی اور طبقہ یا کسی اور علاقہ سے ایک نئی تحریک کی صورت نمودار ہوجاتی تھی۔ اس طرح دوسرا نیا فلسفہ بھی کچھ عرصہ کے بعد جامد ہوجاتا۔ یونانی فقہاء سے لے کر آج تک جب تحریک کو جامد کرنے کی کوشش کی گئی اور جس سوچ کو زمین کے ساتھ باندھنے کی کوشش ہوئی وہ زمیں میں دفن ہوگئی یا پھر اس کی ترقی رک گئی اور انسانی زندگیوں اور حقائق کی تلاش میں وہ بہت پیچھے رہ گئی۔
انسانی سوچ کا یہ سفر بہت مشکل مگر بہت دلچسپ ہے۔ ٹھوس ثبوتوں کی عدم موجودگی میں دلائل کے زور پر کسی بھی فلسفہ کو منوایا جاتا تھا۔ حقائق کو سمجھنے کی اس ساری جدوجہد میں ایک طبقہ ایسا بھی پیدا ہوگیا جس نے نظریات کو عملی ثبوتوں کے ساتھ جوڑ دیا اور اپنے نظریات کو ثبوتوں سے مشروط کردیا کہ اگر مخالف ثبوت مل جائیں تو فوری اپنے خیالات و اعتقادات کو بھی بدلے ہوئے علم کی بنیاد پر تبدیل کرلیں۔ اس طبقہ کو ہم سائنسدان کہتے ہیں۔ علوم کی ترقی کے ساتھ منطق اور دلائل کے میعار بھی بدل گئے۔ اب سچائی کا معیار صرف دلائل ہی نہیں ہیں بلکہ اس کے لئے ٹھوس ثبوتوں کے حصول کا ایک منظم نظام قائم ہوگیا ہے۔ اب نئی سچائی معلوم ہونے پر پرانے نظریات کو ترک کرنے میں ہمیں کسی قسم کی عار محسوس نہیں ہوتی۔ ہماری سوچ ہمیں اس مقام پر لے آئی ہے کہ اب ہم سائنسی سوچ اور سائنسی بنیادوں پر استوار کسی بھی نئی بات، فلسفہ یا نظریہ کو اختیار کرلیتے ہیں۔ کم از کم سائنسی قبیلہ تک یہ بات سو فیصد درست محسوس ہوتی ہے۔
فلسفہ کی اس نئی شکل جسے ہم سائنس کے نام سے جانتے ہیں، نے امکانات کی نئی دنیا ہمارے سامنے رکھ دی ہے۔ اب ہم کسی بھی نظریاتی تعصب کے بغیر سچائی کی تلاش میں لگے ہیں۔ سائنس آہستہ آہستہ ہمارے بہت سے سوالات کا جواب مہیا کرتی جارہی ہے۔ سائنس ہمیں اس مادی کائینات کو سمجھنے میں مدد فراہم کررہی ہے اسی کی مدد سے ہم انسان کی ذہنی اور جسمانی قابلیت کو پہچان پائے ہیں۔ انسانی نفسیات ہمیں اس کے اندر کی کیفیات اور محسوسات کو سمجھنے میں مدد دے رہی ہے۔ جو سوالات آج بھی حل طلب ہیں ان کے جواب ہمیں سائنس ہی کی مدد سے حاصل ہوسکتے ہیں۔ اس لئے دنیا میں جتنے بھی نظریات اور خیالات ہیں اور جو ہمارے درمیان تنازعات کا باعث بن رہے ہیں انھیں سائنس کی بنیاد مہیا کردینے چاہئے۔
جب ہم کسی فلسفے میں تبدیلی کی گنجائش ختم کرکے اسے جامد کردیتے ہیں تونظریاتی اختلافات بہت ہی خطرناک صورتحال پیدا کردیتے ہیں۔ مذہبی اور معاشی نظریات نے لاکھوں لوگوں کی جانوں کے نذرانے لئے ہیں اور یہ ابھی تک انسانیت کے لئے خطرہ بنے ہوئے ہیں۔ مذاہب کی ابتداء تو لوگوں کو جوڑنے اور ان کے مشکل سوالات کے جواب دینے کےلئے ہوئی مگر پھر بعد میں مذاہب سوالات کے جواب دینے اور جوڑنے کا کام کرنے کے بجائے لوگوں کے درمیان نفرت کا ذریعہ بن گئے۔ مذہب بھی ایک دور میں ایک نیا فلسفہ ہوتا ہے جو بعد میں جامد ہو کر ایک جبر کا نمائندہ بن جاتا ہے۔ اندھی تقلید کرنے والے پیروکار پیدا ہوجاتے ہیں جو دوسروں کو اپنے لیڈر سے اختلاف کرنے پر اپنی جماعت سے نکال دیتے ہیں اور بعض اوقات موت کے فتوے بھی لگائے جاتے ہیں۔ مذہب ذاتی محسوسات اور اعتقادات کا مجموعہ ہوتا ہے۔ کسی بھی ریاست کے شہری جو بھی ایمان رکھتے ہوں ریاست کو سیکولر ہونا چاہئے تاکہ وہ تمام شہریوں کے درمیان انصاف کرسکے۔ معاشی نظریات بھی دنیا میں سرد جنگ کی صورت میں بہت نقصان پہنچا چکے ہیں۔
سرمایہ داری ایک ایسا نظام ہے جو معاشی جبر کے تحت قائم ہے اور اس کوقائم کرنے میں کسی فلسفے یا کسی ایک فلسفیانہ سوچ کا اثر نہیں اسی لئے اس سے فائدہ اٹھانے والے اسے اپنی ضروریات کے تحت نئی سائنسی تحقیق کو استعمال کرتے ہوئے تبدیل کرلیتے ہیں اور اسے بدلے ہوئے حالات کے لئے موزوں بنالیتے ہیں۔ دوسری طرف مارکس کا نظریہ ہے جو سرمایہ داری کے خلاف جنگ کی حالت میں ہے۔ اس نظریہ کے حامل افراد جو سرمایہ داری کے خلاف بھی ہیں اور اپنے آپ کو سائنسی سوچ کے حامل افراد بھی گردانتے ہیں مگر ان کی مجبوری یہ ہے کہ انھیں اپنی ساری سوچ کو کارل مارکس کے دائرہ میں ہی رکھنا پڑتا ہے۔ اگر بدلے ہوئے حالات میں ان میں تبدیلی کی کوشش کی جاتی ہے تو مارکس کے مقلدین اس سوچ کو رد کردیتے ہیں۔ کارل مارکس کے نظریاتی پیروکار کسی قسم کی تبدیلی برداشت نہیں کرتے بلکہ تبدیلی تجویز کرنے والے پر مزہبی مفتیوں کی طرح فتوے جاری کرنے لگتے ہیں۔ میں بطور مارکسی نظریات کے ہمدرد اور طالبعلم ہونے کے مارکسی علم کے علماء سے گزارش کروں گا کہ اپنے سائنسی نظریات کو محدود دائرہ میں مقید نہ کریں۔ مارکس نے یہ دعوی کبھی نہیں کیا ہوگا کہ جو میں کہہ کرجارہا ہوں وہ حرف آخر ہے اور فلسفیانہ سوچ اور نظریہ میں آج کے بعد کسی بھی طرح کی ترقی یا تبدیلی ناممکن ہے۔ اور یہ کہ جو حل میں نے تجویز کردیا ہے اس سے ذرہ برابر بھی ادھر ادھر نہ ہونا ورنہ تم کافر ہوجاوگے۔
کارل مارکس نے سرمایہ داری نظام کے خاتمہ اور اس کے بعد کیمونیسٹ معاشرہ کے قیام کی جو منازل بیان کیں وہ درست ثابت نہیں ہوئیں۔ کسی فلسفی یا سائنسدان کے دعوے اس کی بیان کردہ پیشین گوئیوں پر پرکھے جاتے ہیں اگر پیشین گوئیاں سچ ثابت نہ ہوسکیں تو اس بات کی گنجائش پیدا ہوتی ہے کہ ہمارے فلسفی سے کہیں کچھ چھوٹ گیا ہے کوئی نظریاتی یا حساباتی غلطی ہوگئی ہے جس کی وجہ سے وہ تصوراتی نتیجہ درست طور پر اخز نہ کرسکے۔ اس کا بہت آسان حل ہوتا ہے کہ آگے بڑھا جائے اور اس نظریہ میں موجود غلطی سمجھا جائے اور ایک نیا فارمولہ پیش کیا جائے۔ سائنس تو ایسے ہی کام کرتی ہے اور مجھے امید ہے سائنس کی بنیاد پر قائم فلسفہ کو بھی سائنسی انداز سے آگے بڑھایا جائے گا۔ آج جبکہ سرمایہ داری بدلے ہوئے حالات کے تحت اپنے طور بدل رہی ہے تو ہمیں بھی مارکس کی سوچ کو آگے بڑھانا چائیے اور اس پر نئی سوچ اور نئ جہت کے لئے کھلے دل و دماغ کے ساتھ سرمایہ داری کے خلاف جنگ جیتنے کے لئے مارکس کے نظریہ میں بھی بتدیلیاں تجویز کرنی چائیے۔ ورنہ مارکس کا نظریہ بھی دوسرے بہت سے تاریخی نظریات کی طرح وقت کا مقید ہوجائے گا اور کبھی کامیابی سے ہمکنار نہ ہوسکے گا۔
No comments:
Post a Comment