Tuesday, December 25, 2018

اصطلاحات : سیکولر، لبرل، ڈیموکریٹ، تھیئسٹ، ایتھیئسٹ، ایگنوسٹک، سوشلسٹ اور کیمونسٹ


سماجی علوم کے ایک طالبعلم ہونے کی حیثیت سے میں سمجھتا ہوں کہ کچھ اصطلاحات ہمیشہ لوگوں کو پریشان رکھتی ہیں یا پھر ان کا غلط مطلب سمجھ کر اسے استعمال کرتے رہتے ہیں۔ ہمارے معاشرے میں بہت سے لفظ غلط فہمی کی وجہ سے ملعون قرار پاچکے ہیں۔ میں آج کوشش کروں گا کہ چند ایسی اصطلاحات جن کو سمجھنے میں عام لوگ اکثر غلطی کرجاتے ہیں انھیں یہاں وضاحت سے بیان کروں امید ہے میری یہ کوشش کچھ لوگوں کو ضرور فائدہ پہنچائے گی۔

مذہبی اصطلاحات

تھیئسٹ اور ایتھیئسٹ 
مذہب اور خدا پر یقین رکھنے والے کو انگریزی زبان میں تھیئسٹ کہتے ہیں۔ اس کی بہت سی اقسام ہیں کچھ ایک خدا پر یقین رکھتے ہیں جبکہ کچھ کے خیال میں ایک سے زیادہ خدا موجود ہیں۔ ہر طرح کے خدا کو ماننے والے تھیئسٹ کہلاتے ہیں۔
ایتھیئسٹ اس شخص کو کہتے ہیں جو کسی بھی قسم کے خدا پر یقین نہ رکھتا ہو۔ اس کا خیال ہوتا ہے کہ خدا ایک فرضی کردار ہے جسے انسان نے اپنے خوف اور لاعلمی کے دور میں خود سے بنالیا مگر اس کائینات میں اس کا حقیقی وجود نہیں ہے۔

ایگناسٹک 
ایک ایسا شخص جو یہ کہے کہ میرے علم میں نہیں کہ خدا ہے کہ نہیں اور یہ کہ خدا کا وجود احاطہ علم میں نہیں آسکتا اسے ایگناسٹک کہتے ہیں۔ اس کے مطابق علم ابھی اس مقام پر نہیں پہنچا جہاں اس بات کا فیصلہ کیا جا سکے کہ خدا ہے کہ نہیں اس لئے وہ کسی ایک طرف کے نقطہ نظر کو اپنانے یا جھٹلانے کی کوشش نہیں کرتا۔

تھیئسٹ، ایتھیئسٹ اور ایگناسٹک تینوں مذہب اور خدا کے بارے میں رائے قائم کرنے کیلئے نظریاتی اساس مہیا کرتے ہیں۔ ان کا کسی بھی قسم کے سیاسی یا معاشی نظریات سے کوئی تعلق نہیں ہوتا۔

سیاسی اصطلاحات

سیکولر
ایک سیاسی نظریہ ہے۔ اس نظریہ کے حامل لوگ مذہبی بھی ہوسکتے ہیں اور غیرمذہبی بھی۔ سیکولر نظریات کے مطابق کسی بھی ریاست کو چلانے کےلئے مذہب کو استعمال نہیں کرنا چاہئے۔ مذہب کو ریاستی امور سے الگ رکھنا چاہئے۔ ان کے مطابق مذہب ایک ذاتی معاملہ ہے ہر ایک کو اپنے مذہب پر عمل کرنے اور اسے اختیار کرنے کی پوری آزادی ہونی چاہئے۔ مگر اجتماعی معاملات میں مذہب کی مداخلت نہیں ہونی چاہئے۔


لبرل
لبرل ازم آزادی اور برابری کا پرچار کیا جاتا ہے۔ لبرل کہتے ہیں کہ انھیں اپنے ذاتی معاملات میں اپنی پراپرٹی یا ملکیت جمع کرنے کی اور اس کی حدود میں مکمل آزادی ہونی چاہئے وہ جیسے بھی جینا چاہئیں انھیں جینے کا حق ہونا چاہئے اور قانون کی حدود کے اندر رہتے ہوئے ان پر کسی قسم کی قدغن نہیں ہونی چاہئے۔ اس کے ساتھ لبرل خیالات کی آزادی، اظہار خیال کی آزادی، پریس کی آزادی اور مذہبی آزادی کی بھی بات کرتے ہیں۔ اس کے علاوہ وہ آزاد معیشت کی بھی بات کرتے ہیں جو کہ سرمایہ داری کا ایک ٹول بھی ہے۔ سیاسی طور پر یہ جمہوریت کو سپورٹ کرتے ہیں۔ تمام لبرل سیکولر بھی ہوتے ہیں۔

جمہوریت
جمہوریت کا مطلب آج کل تو کچھ بدل گیا ہے۔ الیکشن سے منتخب حکومت کو جمہوری حکومت کہتے ہیں چاہے اس میں سرمایہ دار اور جاگیردار طبقہ ہی واپس حکومت چلانے آجائیں۔ دراصل جمہوریت کا مطلب عوام بلکہ غریب عوام کی حکومت ہوتا ہے۔ ایک ایسی حکومت جس میں عوام براہ راست ریاستی امور میں مداخلت کی طاقت رکھتے ہوں۔ اسی لئے عام طور پر نچلی سطح پر جمہوری اداروں کو بنانے اور انھیں مضبوط کرنے کی بات کی جاتی ہے۔ جب تک عوام اس قابل نہ ہوجائیں کہ ان کی مرضی کے مطابق قوانین بنائے جائیں اور ان کے فائدہ میں منصوبہ بندی کی جائے اور ملکی وسائل غریب عوام کی طرف موڑ دیئے جائیں تب تک اصل جمہوریت نافذ نہیں ہوتی۔

سوشلسٹ
سوشلسٹ وہ لوگ ہوتے ہیں جو مارکسی نظریات کے مطابق سیاسی نظام میں طبقاتی تبدیلی کے حامی ہوتے ہیں۔ سوشلسٹ چاہتے ہیں کہ جمہوریت کو اس کی اصل روح کے مطابق نافذ کیا جائے اور غریب طبقات کی حکمرانی قائم ہو۔ ایک ایسی ریاست قائم ہو جو صرف جمہوری نہ ہو بلکہ عوامی مسائل کے حل کی ذمہ دار بھی ہو۔ ہر شہری کو زندگی کی بنیادی ضروریات مہیا کرنا جن میں روٹی، کپڑا، مکان، صحت، تعلیم اور روزگار شامل ہیں۔ اگر جمہوریت یہ سب دینے میں ناکام ہے تو پھر یہ سوشل جمہوریت نہیں ہے۔
 سوشلزم مکمل طور پر سیاسی اور معاشی نظریہ ہے اس کا مذہب سے کوئی تعلق نہیں اور اس کی مذہب سے کوئی لڑائی نہیں جیسا کہ عام طور پر تصور کیاجاتا ہے۔ ایک سوشلسٹ ایک اچھا مذہبی پیروکار بھی ہوسکتا ہے۔ سوشلسٹ جمہوری جدوجہد کے ذریعے ملک میں پہلے سوشلزم اور پھر اسی کے نتیجہ میں کیمونزم کا نفاذ چاہتے ہیں۔

کیمونسٹ
کارل مارکس نے جب کیمونزم کا فلسفہ پیش کیا تو شروع میں سوشلزم اور کیمونزم ایک ہی نظام کےلئے استعمال کرتا رہا۔ مگر پھر جب مارکس نے ایک کتاب لکھی جس کا نام تھا دی کریٹیک آف دی گوتھا پروگرام۔ اس کتاب میں کارل مارکس نے بتانا کہ کیمونزم کی دو سٹیجز ہیں۔ ایک اوپری سطح کی کیمونزم ہے اور دوسری نچلی سطح کی کیمونزم۔ اس کا کہنا تھا کہ نچلی سطح کی کیمونزم میں سرمایہ داری نظام ختم ہوجاتا ہے مگر کچھ طبقاتی فرق باقی رھتا ہے۔ مثلا ذہنی اور دستی مشقت کرنے والے مزدوروں کے معاوضہ میں فرق باقی رہتا ہے۔ دوسرا فرق اس نے یہ بتایا کہ نچلی سطح کی کیمونزم میں مزدور کی آمریت قائم رہے گی۔ یہ آمریت اکثریت کی ہوگی جو اقلیت یعنی سرمایہ دار کے خلاف ہوگی۔ جبکہ اوپری سطح کی کیمونزم میں تمام طبقات ختم ہوجائیں گے اور کسی قسم کی آمریت کی ضرورت باقی نہیں رہے گی بلکہ اس وقت ریاست کی ضرورت ہی باقی نہیں رہے گی۔

کیمونزم کی اس تفریق کو لینن نے دو حصوں میں اس طرح تقسیم کیا کہ نچلی سطح کی کیمونزم کو اس نے سوشلزم کہا اور بلند سطح کو کیمونزم قرار دیا اور اس کے بعد یہ دونوں الفاظ انھیں معنوں میں استعمال ہونے لگے۔ آج کے دور میں سوشلسٹ اور کیمونسٹ میں ایک بنیادی فرق اور بھی ہے۔  اینگلز کی زندگی میں ہی سے یہ فرق واضع ہونا شروع ہوگیا تھا۔ اس دور میں مارکس اور اینگلز کے بعد جن لوگوں نے عملی طور پر اور نظریاتی سطح پر بہت کام کیا ان میں ایڈورڈ برڈ سٹائن اور کارل کاوسکی بھی تھے۔ ان کے مطابق سرمایہ داری اب ایک ایسے دور میں داخل ہوچکی ہے کہ ہمیں اب انقلاب لانے اور ریاست کا تختہ الٹنے کی ضرورت نہیں رہی بلکہ اب ہم جمہوری جدوجہد سے اصلاحات لاکر سوشلزم کیلئے راہ ہموار کرسکتے ہیں۔ ان کی باتوں سے اتفاق رکھنے والے بن گئے سوشل ڈیموکریٹس اور دوسرے جو انقلاب کی ضرورت پر متفق ہوئے اور جمہوری اداروں کے خلاف آواز اٹھاتے رہے وہ بن گئے کیمونسٹ۔ مقصد دونوں کا ایک ہے مگر حصول منزل کا طریقہ کار پر اختلاف ہے۔

No comments:

Post a Comment