Monday, December 24, 2018

روسی سوشلزم کا خاتمہ اور مارکس کی مادی جدلیات


روس میں انڈسٹریل انقلاب ۱۸۶۱ میں شروع ہوا اور پھر ۱۸۸۰ میں بڑی بڑی فیکٹریاں لگائی گئیں جن میں ٹیکسٹائل اور سٹیل کے کارخانے شامل تھے۔ اس کے علاوہ کوئلے کی کانوں پر بھی کافی کام ہوا۔ ۱۸۹۱ سے ۱۹۱۶ کے دوران ٹرانس سائبیرین ریلویز کا منصوبہ تعمیر کیا گیا۔ اس کے علاوہ روس میں بنکنگ کے نظام کو بھی انقلابی تبدیلیوں سے گزارا گیا تاکہ یہ نظام صنعتی اور معاشی ضروریات کو پورا کرسکے۔ مگر بدقسمتی سے ان منصوبوں اور ترقی کا خاطرخواہ فائدہ نہ ہوسکا کیوںکہ ۱۹۰۵ میں روس جاپان کے ساتھ جنگ میں بری طرح ہار گیا اسی سال خونی اتوار کا واقع بھی ہوا جس میں بہت سے احتجاجی ماردیئے گئے جن میں عورتیں اور بچے بھی شامل تھے۔ اس کے بعد پہلی عالمی جنگ چھڑگئی جس کی وجہ سے روس میں بھی بہت تبائی آئی۔ معاشی نظام تباہ وبرباد ہوگیا، بےشمار اموات ہوگئیں اور بھوک کا راج پورے ملک پر چھاگیا۔ ۱۹۱۸ میں پہلی عالمی جنگ تو ختم ہوگئی مگر دنیا کے کئی ممالک کو بہت بعد کے سالوں تک اس کے بھیانک اثرات کا سامنا کرنا پڑا۔ روس بھی انھیں ممالک میں سے ایک تھا مگر اس کے حالات پہلے بھی نالائق بادشاہت کی وجہ سے کچھ اچھے نہ تھے اور اب جنگ کی تباہ کاریوں نے ملک کا اور بھی برا حال کردیا تھا۔ ایسے حالات میں جنگوں کی وجہ سے ملک میں خوراک کا قحط پڑگیا تھا۔ فوج کا بہت بڑا حصہ جنگ میں مارا گیا تھا لوگ بادشاہ سے بےزار ہوچکے تھے تب بولشویک پارٹی نے ایک انقلابی مارچ کیا جس کو لینن نے لیڈ کیا۔ بادشاہ نے جس فوج کو ان انقلابیوں سے لڑنے کو بھیجا وہ سب ان انقلابیوں کے ساتھ مل گئے۔ یہ سب جنگ اور ملکی صورت حال سے تنگ آچکے تھے۔ لینن نے چارج سنبھال لیا مگر پھر سفید آرمی سے لڑائی شروع ہوگئی۔ یہ سول وار ۱۹۲۱ تک چلی اور اسے لینن اور اس کی پارٹی نے جیت لیا۔ لینن نے حکومت حاصل کرنے کے بعد بہت سے انقلابی اقدامات کئے۔ اس نے پہلے تو زمینیں کسانوں کے حوالے کردیں اور تمام انڈسٹری کو سرکاری تحویل میں لے لیا۔ اس کے بعد لینن نے اجتماعی زراعت کا منصوبہ بنایا جسے بعد میں سٹالن نے بھی آگے بڑھایا۔ ۱۹۲۴میں لینن کی وفات پر جوزف سٹالن نے حکومت سنبھالی ۔ سٹالن نے بہت سخت آمریت قائم کی۔ اس کے دور میں بہت سے اقدامات کئے گئے جنھوں نے سویت یونین کو ترقی کی راہ پرڈال دیا۔

پہلا پانچ سالہ منصوبہ اس دور میں بنایا گیا اور اس کے احداف بھی حاصل کئے گئے۔
ہیوی انڈسٹری پر توجہ دی گئی۔ کیمونیسٹ پارٹی کے زیراحتمام سویت یونین کا اعلان ہوا۔
کئی نئے شہر آباد کئے گئے۔
وائیٹ سی بالٹک نہر مکمل کی گئی
ماسکو میٹرو تعمیر کی گئی
ان سب پراجیکٹس پر زیادہ تر لیبر غلام تھے جن کی مزدوری بہت کم تھی جس کو سٹالن یہ کہہ کر دفاع کرتا تھا کہ مارکس کے کہنے کے مطابق سوشلزم کے ابتدائی دور میں ایسا کرنا ضروری ہوتا ہے۔ اس کے ساتھ وہ وال اسٹریٹ کے کریش کا ذکر کرتا اور کہتا کہ سرمایہ داری کا خاتمہ ہونے والا ہے۔

ثقافتی انقلاب لانے کیلئے بھی بہت سخت قسم کے اقدامات کئے گئے۔ تعلیم اور آرٹس کو سوشلزم کے فروغ کےلئے استعمال کیا گیا۔ ان سائنسدانوں کی حوصلہ افزائی کی گئی جن کی تحقیق مارکسزم کے نظریات کے مطابق ہوتی۔ حکومت نے مذہب کو دبانے کےلئے بہت سی کاروائیاں کیں۔ بہت سی مذہبی عمارتیں گرادی گئیں۔ ۱۹۴۰ تک سٹالن خوف کا شکار ہوچکا تھا اس نے اپنی سکیورٹی کو بڑھادیا تھا۔ اس کے دور میں سات لاکھ لوگوں کو گولیوں سے بھون دیاگیا اور تقریبا ۱۶ لاکھ افراد جلاوطن کردئے گئے۔

-۱۹۵۳-
 میں سٹالن کی وفات کے بعد خروشیوف نے حکومت سنبھالی تو اس نے سٹالن کے طریقہ حکومت کو ترک کردیا اور زیادہ آزادیاں دینے شروع کردیں۔ اس کے بعد والوں نے دوبارہ اسی سسٹم کو بحال کرنے کی کوشش کی اور اس طرح ایک مضبوط نظام قائم نہ ہوسکا۔ بالآخر ۱۹۸۵ میں میخیل گورباچوف نے حکومت سنبھالی تو معیشت تباہ حال تھی اور ملکی سیاسی صورتحال بھی دگرگوں تھی۔ گورباچوف نے بڑی تبدیلی کا منصوبہ بنایا اور دو نکاتی ایجنڈے پر عمل کرنے کا فیصلہ کیا۔
۔ گلاسنوسٹ یعنی سیاسی آزادیاں دینے کا فیصلہ اور
۔ پریسٹرائیکا یعنی معاشی تعمیر نو

ان کوششوں کا بھی کوئی خاص فائدہ نہ ہوا دراصل ۱۹۶۰ اور ۱۹۷۰ کی دہائیوں میں کیمونسٹ پارٹی کے کرتادھرتا لوگوں نے خوب دولت جمع کرلی تھی اور طاقت بھی اپنے پاس مرتکز کرلی اور دوسری طرف لاکھوں شہری بھوک ، افلاس اور وسائل کی کمی کا شکار ہوتے گئے۔ سویت یونین کے اکثر شہریوں کے پاس مناسب خوراک ، کپڑے اور جوتے نہیں ہوتے تھے۔  سویت یونین کے اندر کیمونسٹ دور میں دولت بلکل اسی طرح  چند مخصوص لوگوں کے پاس جمع ہوگئی جس طرح سرمایہ داری میں ہوتی ہے۔

گورباچوف نے زیادہ جمہوریت اور معاشی آزادیاں دیں۔ کہا جاتا ہے کہ گورباچوف نورڈیک ممالک کے کامیاب تجربہ سے کافی متاثر تھے اور ویسا ہی سسٹم وہ سویت یونین میں رائج کرنا چاہتے تھے۔ جہاں سوشل جمہوریت ہے اور وہ دنیا کے خوشحال ترین ممالک میں شمار ہوتے ہیں۔ ان نورڈیک ممالک کو سکینڈینیوین ممالک بھی کہتے ہیں جن میں ڈینمارک ،فن لینڈ، آئس لینڈ، ناروے اور سوئیڈن شامل ہیں۔ مگر ان کو زیادہ محلت نہیں ملی اور پھر یونین کا نظام اتنا بگڑ چکا تھا کہ اب اس میں کسی بھی قسم کی تبدیلی کے بعد فوری بہتری ممکن نہ تھی۔ جس کا لازمی نتیجہ یہ تھا کہ یونین ٹوٹ گئی۔ آج کا دن ۲۵ دسمبر اس تجربے کی ناکامی کا دن تھا جس نے پوری دنیا کو متاثر کیا جس پر ساری دنیا کی نظریں تھیں جس کے بارے میں بہت سی دیومالائی کہانیاں سنائی جاتی تھیں۔ ایسا لگتا تھا کہ کوئی دنیاوی جنت آباد کردی گئی ہے اور باقی دنیا سرمایہ داری کہ وجہ سے اس سے محروم ہے مگر جب بند دروازے کھلے تو معلوم پڑا کہ یہ تو ایک سراب تھا جس کو لفظوں کے خوبصورت وہموں نے پال کر بڑا کیا تھا۔

آخری بات.
اگرچہ یہ تجربہ ناکام ہوا ہے مگر اس کا مطلب یہ ہرگز نہیں کہ سرمایہ داری کے خلاف جنگ ختم ہوچکی ہے اور اب سرمایہ داری ہی کا راج ہوگا۔ کارل مارکس کے مادی جدلیاتی نظریہ کے مطابق سرمایہ داری اپنے انٹی تھیسز کا سامنا کررہی ہے۔ اس وقت دنیا نورڈیک ممالک میں موجود نظام کو بہت گہری نظروں سے مطالعہ کررہی ہے۔ امریکہ کے کئے معیشت دان اپنے ملک کے لئے اسے اختیار کرنے کا مشورہ دیتے نظر آتے ہیں۔ یہ نظام سرمایہ داری کی کوکھ سے نکلا ہے جسے ہم سوشل جمہوریت کہہ رہے ہیں۔ اس کے بعد اسی کے کوکھ سے ایک نیا نظام نکلے گا اور اسی طرح مادی جدلیات کے اصول کے تحت انسانی معاشرہ ترقی کرتا ہوا کیمونیسزم تک کا سفر مکمل کرے گا۔

No comments:

Post a Comment