پاکستانی سیاست
پاکستان میں سیاسی بحران کبھی ختم نہیں ہوا۔ قیام پاکستان سے اب تک ہم سیاسی بحرانوں سے نبرآزما ہوتے آئے ہیں۔ ایک اچھے سیاسی لیڈر کی کمی ہمیشہ ہی محسوس کی گئی ہے۔لیاقت علی خان کے بعد پہلا سیاسی لیڈر جس سے عوام نے امیدیں وابستہ کی تھیں وہ بھٹو صاحب تھے مگر وہ سوشلزم کا نام استعمال کر کے پیچھے ہٹ گئے اور پھر قومیائے گئے اداروں کا جو حشر ہوا اس کا خمیازہ عوام ابھی تک بھگت رہی ہے۔ اس کے بعد کسی حد تک بینظیر بھٹو اور نواز شریف سے بھی عوام نے اپنی امیدیں وابستہ کیں مگر وہاں سے بھی چند ایک تبدیلیوں کےعلاوہ عوام کی زندگیوں میں کچھ فرق نہ آیا۔ اس کے بعد مشرف صاحب نے جمہوریت کو اچک لیا اور پھر دس سال کے بعد جمہوریت کا سلسلہ شروع ہوا۔ اب کی بار بینظیر صاحبہ شہادت پاچکی تھیں تو ان کے شوہر نامدار زرداری اور نوازشریف کی حکومتوں کا سلسلہ شروع ہوگیا۔ عوام کے پاس ایک تیسرا متبادل عمران کی صورت میں ظاہر ہورہا تھا۔ عوام ان پرانی سیاسی جماعتوں سے بےزار ہوچکے تھے اور ۲۰۱۸ میں عمران ایک متبادل قیادت کے طور پر پاپولر چوائس بن گئے۔
عمران اور ارویندر
عمران اور ارویندر
ایک طرف عمران کی لمبی سیاسی جدوجہد ہے جس میں عوامی ایشوز پر کبھی دھیان نہ دیا اور اپنے ذاتی فین کلب کو ووٹر میں تبدیل کرنے کی کوشش کی۔ اس کی بائیس سالہ جدوجہد میں کامیابی کی امید کبھی نظر نہ آتی اگر عمران اپنی جدوجہد کو کرپشن سے منسلک نہ کرتا۔ اس ایک ایشو کو پکڑ کر اس نے انتا زیادہ شور مچایا کہ نوجوانوں کی اکثریت اس کی ہم آواز ہوگئی۔ سب سیاسی لیڈروں کو چور کہنا شروع ہوا اور اداروں نے اس کی اس تحریک میں مدد کی اور آج اس کی پارٹی حکمران بن چکی ہے۔ دوسری طرف ہندوستان میں عام آدمی پارٹی کا سربراہ ارویندر کیجریوال ہے جس نے چند سال کی سماجی خدمت کے بعد سیاسی پارٹی بنائی اور ایک سال سے کم عرصہ میں کامیابی کے جھنڈے گاڑھ دیئے۔ ارویندر کی جدوجہد کو بغور دیکھا جائے تو معلوم پڑتا ہے کہ عمران نے بھی ارویندر کو فالو کیا ہے اور اس کی کامیابیوں سے سبق سیکھا اور کرپشن پر واویلا مچا کر اپنی کامیابی کےلئے راہ ہموار کی
آج جو پارٹیاں اور جو لیڈر اپنے آپ کو متبادل کے طور پر پیش کررہے ہیں ان کو سوچنا ہوگا کہ کیا عمران کی طرح بائیس سال کی لمبی ٹرین پکڑنی ہے یا پھر ارویندر کیجریوال کی طرح عوامی پکڈنڈی پر چل کر جلد ایک عوامی لیڈر بن کر عوامی حکومت قائم کرنی ہے؟
مجھے اس بات کا پختہ یقین ہے کہ اگر کوئی بھی شخص عوامی مسائل کو دل سے حل کرنا چاہتا ہے تو پھر اسے عوام کے لئے آواز اٹھانا پڑے گی اور عوام کے بیچ میں اترنا پڑے گا۔ اس کے بیچ میں رہنا پڑے گا اور اس کی روزمرہ زندگیوں میں سہولتیں مہیا کرنے کےلئے ان کی جنگ میں اپنا حصہ ڈالنا پڑے گا تبھی کوئی بھی لیڈر اس موجودہ گلےسڑے نظام کو بدلنے کےلئے طاقت حاصل کرپائے گا۔ ورنہ بائیس بائیس سال کے بعد بھی اگر کسی کی نظر کرم پڑگئی تبھی کوئی لیڈر پاور میں آنے کا سوچ سکتا ہے ورنہ روزمرہ کے امور نبٹانے کےلئے عوام کی نظر میں موجودہ لیڈر تو ہیں نا۔ اگر کوئی لیڈر آج چاہتا ہے کہ وہ صحیح معنوں میں عوامی لیڈر بنے تو پھر اسے عوام کے مسائل پر نظر رکھنی ہوگی اسے عوامی نبض کو سمجھنا ہوگا۔ اس کے قریب جانا ہوگا۔ اس کے لئے بہترین کیس سٹڈی اگر کوئی بن سکتا ہے تو وہ انڈین سیاسی پارٹی عام آدمی پارٹی اور اس کے لیڈر ارویندر کیجریوال ہیں۔ ذیل میں ان کے بارے میں چند ایک گزارشات درج کرنے جارہا ہوں امید ہے یہ معلومات آپ کےلئے ابتدائیہ ثابت ہوںگی اور آپ مذید اس پر تحقیق کرکے اس پارٹی کی تیز تر کامیابیوں اور عوامی پزیرائی کے واضع اصول مرتب کرپائیں گے۔
عام آدمی پارٹی ایک کیس سٹڈی
ارویندر دہلی میں ٹیکس کے محکمے سے منسلک تھا اور سن ۲۰۰۶ میں اس نے اپنی نوکری سے استعفی دیا۔ اس کی عوامی زندگی کا آغاز اس کے فلاحی کاموں سے ہوتا ہے۔ دسمبر ۱۹۹۹ میں اس نے اپنے دوستوں کے ساتھ مل کر ایک فلاحی تنظیم کی بنیاد رکھی جس کا نام تھا پریوردن یعنی تبدیلی۔ اس کے ممبرز اسے عوامی تحریک قرار دیتے تھے۔ اس کے پلیٹ فارم سے اس نے کئ عوامی مسائل پر لوگوں کو مدد فراہم کی۔ ۲۰۰۵ میں ارویندر اور اس کے دوست نے ایک اور تنظیم کی بنیاد ڈالی جس کا نام تھا کبیر۔ فرق صرف یہ تھا کہ یہ تنظیم رجسٹرڈ بھی تھی اور دوسروں سے چندہ بھی لیتی تھی جبکہ پریوردن کا سارا خرچہ تنظیم کے سرکردہ ہی اٹھاتے تھے۔ ارویندر اور اس کے ساتھی بجلی دفتر کے باہر بیٹھ گئے اور صارفین سے کہا کہ وہ مسائل کے حل کےلئے رشوت نہ دیں۔ صارفین کو کام کروانے کےلئے مفت سروسز فراہم کیں۔
دہلی کی حکومت نے ۲۰۰۱ میں رائٹ آف انفارمیشن کا قانون پاس کیا۔ ارویندر اور اس کے ساتھیوں نے اس کا خوب استعمال کیا اور عوام کو رشوت سے منع کیا اور اس قانون کی مدد سے عوام کے کام مفت میں کرواتے رہے۔ ۲۰۰۲ میں اس گروپ نے علاقہ کے ۶۸ پراجیکٹس کی سرکاری رپورٹس حاصل کیں اور ایک عوامی آڈٹ کروایا جس کے نتیجہ میں سات ملین روپے کی بےضابطگیاں سامنے آئیں۔ ۱۴دسمبر کو انھوں نے ایک کھلی کچہری کا انعقاد کیا جس میں عام لوگوں نے شرکت کی اور سرکاری اہلکاروں اور قائدین کو کرپشن کا ذمہ دار قرار دیا۔ ۲۰۰۳ میں ارویندر اور اس کے ساتھیوں نے سستے راشن کی سکیم میں ہونے والی دھوکا دہی کو ایکسپوز کیا۔ انھوں نے رائٹ آف انفارمیشن کے قانون کو استعمال کرتے ہوئے ورلڈ بینک اور سرکاری ایجنسیوں کے درمیاں پانی کو نجی تحویل میں دینے والے ایک پراجیکٹ کا پتا چلایا۔ ان لوگوں نے اس پراجیکٹ پر اٹھنے والے بےتحاشہ اخراجات پر سوالات کھڑے کیے اور کہا کہ اس سے پانی کے بلوں میں بہت اضافہ ہوجائے گا اور غریب آدمی پانی سے محروم ہوکررہ جائے گا۔ ان کی اس سرگرمی کی وجہ سے اس پراجیکٹ کو روک دیا گیا۔ ایک اور مہم انھوں نے کی جس کے نتیجہ میں کورٹ سے آرڈر ہوئے کہ جن لوگوں نے سرکاری زمیں سستے داموں حاصل کی ہے وہ کم از کم سات سو غریب بچے مفت تعلیم کےلئے سکول میں داخل کریں۔ ۲۰۰۵ میں رائٹ آف انفارمیشن ایکٹ پورے ملک میں نافذ ہوا جس میں اننا ہزارے اور دوسروں نے بہت کام کیا۔ اسی سرگرمی میں سب سے اہم کردار ادا کرنے پر ارویندر کو ایشیا کا نوبل پرائز رامن مگسیسے ایوارڈ دیا گیا۔ ان کو ایوارڈ دے کر ان کی رائٹ آف انفارمیشن قانون اور دہلی کے غریب عوام کو کرپشن کے خلاف لڑنے کے لئے بااختیار بنانے کےلئے دیا گیا۔
اسی طرح ۲۰۱۱ میں ارویندر اور دوسرے سماجی کارکن جن میں اننا ہزارے بھی شامل تھے نے مل کر ایک تحریک چلائی جس کا مقصد کرپشن کے خلاف بل پاس کروانا تھا۔ اننا ہزارے نے بل پاس ہونے تک بھوک ہڑتال کردی۔ اس تحریک کے نتیجہ میں حکومت نے وعدہ کیا کہ وہ جلد کرپشن کے خلاف بل پاس کروالے گی۔ جنوری ۲۰۱۲ کو حکومت نے بل کو پاس کرنے منع کردیا۔ حکومت اپنے وعدے سے مکر گئی تو ارویندر اور اس کے ساتھیوں نے تحریک کا دوسرا دور شروع کیا۔ اس بار ۲۰۱۱ کی نسبت زیادہ عوامی حمایت حاصل ہوئی۔ اب کی بار عوام احتیجاج میں شریک ہوئی اور ارویندر نے اننا ہزارے جگہ لے لی اور احتجاج کو لیڈ کیا۔
نومبر ۲۰۱۲ کو ارویندر نے سیاسی پارٹی بنائی۔ اس پارٹی کا نام عام آدمی پارٹی رکھا گیا۔ اور اس کا انتخابی نشان بہت سوچ بچار کا نتیجہ ہے۔ ارویندر نے انتخابی نشان جھاڑو رکھا۔ اس پارٹی کے بنانے پر انناہزارے اور ارویندر کے راستے الگ ہوگئے۔ پارٹی نے ۲۰۱۳ کے انتخابات میں حصہ لینے کا فیصلہ کیا اور ارویندر نے موجود چیف منسٹر کے خلاف لڑنے کا فیصلہ کیا۔ ان انتخابات میں پارٹی نے ۷۰ میں سے ۲۸ سیٹیں جیت لیں۔ ارویندر نے چیف منسٹر شیلا ڈکشٹ جوکہ کانگریس کی امیدوار تھیں کو ۲۵ہزار سے زائد ووٹوں سے ہرایا۔ ۲۰۱۵ میں عام آدمی پارٹی نے ۷۰ میں سے ۶۷ سیٹیں جیت لیں۔ اس وقت دہلی میں عام آدمی پارٹی کی حکومت ہے۔
سیاسی کامیابی کا راز
جنوبی ایشیا خاص طور پر برصغیر کی نئے سیاسی پارٹیوں کے لئے ارویندر کی جدوجہد آج ایک زندہ حقیقت ہے۔ اسے کیس سٹڈی کے طور پر تفصیل سے پڑھنا اور سمجھنا ہوگا۔ سیاسی پارٹیوں کی سب سے بڑی کمزوری پیسہ ہوتا ہے۔ پیسے کے بغیر سیاسی پارٹی چل نہیں پاتی اور پیسہ جب آتا ہے تو کرپشن کے دروازے بھی کھلنا شروع ہوجاتے ہیں۔ ارویندر کی جدوجہد میں پیسے کا استعمال بھی نظر آتا ہے مگر اس سے زیادہ اس کی عوامی مسائل پر سرگرمیاں اہمیت کی حامل ہیں۔ اس کی سرگرمیاں عوامی دلچسپی کا باعث بنیں۔ اس کی انھیں سرگرمیوں کی وجہ سے اس کی سماجی تنظیم کو چندہ بھی ملتا رہا۔ اس کے بعد جب اس نے سیاسی تنظیم کی بنیاد ڈالی تو اس کو بیرون ملک سے چندہ دینے والوں کی کمی نہ تھی۔ اس چندہ کی بدولت پارٹی الیکشن میں بلا کسی رکاوٹ کے کامیاب ہوتی چلی گئی۔ ارویندر کی جدوجہد کا مطالعہ کرتے ہوئے کہیں کہیں مجھے لگا جیسے عمران خان نے ارویندر کی جدوجہد کو کافی نزدیک سے دیکھا اور اس کے طریقوں کو بہت جگہ پر دہراتا بھی رہا۔ میں اپنے ملک کے نئے سیاسی لیڈروں اور سیاسی پارٹیوں سے درخواست گزار ہوں کہ ٹھنڈے کمروں اور ٹھنڈی گاڑیوں سے نکل کر غریب کے قریب ہوجائیں۔ یہ ٹھنڈے ماحول کے ٹھنڈے خیالات تمھیں کبھی عوام کے قریب لے کر نہیں جاسکتے۔ دوسروں کے سجائے میلے پر مجمع بازی کرنا آسان ہوتا ہے مگر اس کے لئے آپ دوسروں کے محتاج رہتے ہیں کب کوئی میلا لگائے اور ہم اس میں اپنی رام کتھا سنانے پہنچ جائیں۔ کبھی کبھی چوراہوں میں کھڑے ہوکے عوام کو آوازیں لگا کر بھی ان کے دل نہیں جیت پائیں گے۔ آپ کو عوام کے مسائل اور ان کے حل تک عوام کے ساتھ کھڑا ہونا پڑے گا۔ اپنے آپ کو لیڈر منوانا ہوگا۔ کسی جگہ گروہ کو دیکھ کر اس کو لیڈ نہیں کرنا بلکہ اکیلے چل کر مجمع بنانا ہوگا۔ ان کے مسائل پرکھڑے ہونے کی ہمت کریں۔ ناکامی سے نہ ڈریں۔۔۔۔ کسی ایک ایشو پر کامیابی آپ کو عوامی لیڈر بنادے گی۔ یاد رکھیں سیاسی کامیابی کا راز عوامی سیاست میں ہے۔ جس کا مطلب ہے عوام کے مسائل کے لئے رہنمائی کرنا۔ ان کے مسائل کے حل تجویز کرنا اور ان کےلئے اس تجویز کردہ حل کو حاصل کرنے کی جدوجہد کرنا۔ اگر کوئی ایسا حوصلہ رکھتا ہے تو پھر وہ اگلے الیکشن میں اپنے آپ کو ایک نیا متبادل منوا سکتا ہے ورنہ بیسیوں سال لگے رہیں کہ
ہزاروں سال نرگس اپنی بےنوری پہ روتی ہے ۔۔۔۔۔۔۔ بڑی مشکل سے ہوتا ہے چمن میں دیدہ ور پیدا
ہزاروں سال نرگس اپنی بےنوری پہ روتی ہے ۔۔۔۔۔۔۔ بڑی مشکل سے ہوتا ہے چمن میں دیدہ ور پیدا
No comments:
Post a Comment