ایک مرتبہ مجھے موقع ملا کہ جوانوں سے انسانی حقوق کے بارے میں ان کے علم کا سروے کروں۔ میں یہ دیکھ کر دنگ رہ گیا کہ ننانوے فی صد لوگوں کو انسانی حقوق کے بارے میں بیداری نہ ہونے کے برابر تھی۔ کچھ لوگوں نے کہا کہ پاکستان کے قانون کو انسانی حقوق کہتے ہیں کچھ نے کہا امریکی قانون کو کہتے ہوں گے۔۔۔ کچھ جوانوں نے کہا کہ عمران خان کے انتخابی منشور کو انسانی حقوق کہتے ہوں گے۔ ہر روز ٹی وی سکرینوں پر بیٹھ کر خودساختہ تجزیہ نگار قوم کی جہالت کا رونا روتے رہتے ہیں۔ اکثر لوگوں کا خیال ہے کہ عوام میں شعور پھیلانے کی ضرورت ہے۔ بعض لوگوں نے سیاسی دھرنوں کو عوامی شعور بےدار کرنے کی مہم قرار دیا۔ ہم لوگ حکومت سے امن اور روزگار تو مانگتے ہیں مگر عزت نفس کا مطالبہ نہیں کرتے ہم بجلی پانی اور گیس کا تقاضہ تو کرتے ہیں مگر معیاری تعلیم کے لئے حکومت کو ذمہ دار نہیں گردانتے۔ ہم چاہتے ہیں ہماری گلیاں صاف ستھری ہوں سڑکیں ٹوٹی پھوٹی نہ ہوں مگر انہیں خود بنانے کا حق نہیں مانگتے۔ ہم چاہتے ہیں کہ سیاسی لوگ تھانوں میں ہماری مدد کریں مگر ہم سرکاری افسروں کے غیرانسانی اور غیرمہذب سلوک پر احتجاج نہیں کرتے۔۔۔ کیوں ہم ایسا کیوں نہیں کرتے ؟ اس لئے کہ ہمیں ہمارے حقوق کا علم ہی نہیں۔ بہت سے انسانی حقوق کی ہمارے آئین میں ضمانت دی گئی ہے اور اگر کہیں اس کی خلاف ورزی ہوتی دیکھیں تو ہم اس کے خلاف اہتجاج بھی کرسکتے ہیں اور اس کے لئے ملک میں موجود مختلف اداروں سے مدد بھی مانگ سکتے ہیں۔۔۔۔۔
میں آج انسانی حقوق کی بیان کرنے جا رہا ہوں۔ یہ وہ انسانی حقوق ہیں جن کو اقوام متحدہ نے منظور کیا اور پاکستان ان کو اپنے ملک میں نافذ کرنے کا پابند ہے۔ ہمارے یہاں وقتافوقتا انسانی حقوق کی پامالی ہوتی آئی ہے۔ کبھی مارشل لاء کے تحت اور کبھی سول حکومتوں کے زیر سایہ ہمارے بنیادی حقوق پر ڈاکہ ڈالا جاتا رہا۔ اب بھی بہت سے سرکاری ادارے ایسا کرنے سے گریز نہیں کرتے۔ ہمارے ہاں سرکاری عہدوں پر بیٹھے افراد خود کو مطلق العنان سمجھنے لگتے ہیں اور پھر یہ لوگ جو عوام کی خدمت پر معمور کئے جاتے ہیں خود کا عوام کا آقا سمجھ لیتے ہیں۔ یہ سب اس لئے ہوتا ہے کہ ہمیں ہمارے حقوق کا علم نہیں ہم ان کے نامناسب رویے پر احتجاج نہیں کرتے۔ ہم ان کے خلاف آواز نہیں اٹھاتے اور اس طرح ہم ان کے ظلم کو برداشت کر کے خود بھی ایک طرح سے مجرم بن جاتے ہیں۔ آئیں ہم سب اپنے حقوق کو سمجھیں اور ان کی خلاف ورزی کرنے والوں کے خلاف آواز بلند کریں۔
انسانی حقوق کا پس منظر
دوسری عالمی جنگ میں لاکھوں انسانی جانیں ضائع ہو چکی تھیں۔ جنگ کی تباہ کاریوں کے نتیجے میں غربت کے سائے
ساری دنیا پر چھا چکے تھے۔ یہی وقت تھا جب امن کی ضرورت کو بہت شدت سے محسوس کیا جارہا تھا۔ اس وقت بہت سے لوگوں نے سوچا کہ ایک ایسا چارٹر بنایا جائے جو مستقبل میں امید کا پیش خیمہ ہو اور انسان کے بنیادی حقوق کا ضامن ہو۔ اقوام متحدہ میں بہت کوشش، سوچ بچار اور بحث و تمحیص کے بعد ۳۰ انسانی حقوق کی ایک فہرست پر اتفاق کرلیا گیا جو معاشی، معاشرتی، ثقافتی، سیاسی اور شہری حقوق پر مشتمل ہے۔ یہ چارٹر بین الاقوامی بھی ہے اور تمام حقوق مساوی اہمیت کے حامل ہیں۔ اگرچہ یہ چارٹر تمام انسان کے حقوق کی ضمانت دیتا ہے مگر یہ کوئی معاہدہ نہیں اور اقوام متحدہ کے پاس کسی قسم کے نفاذ کروانے کا اختیار نہیں ہے۔ البتہ اقوام متحدہ کے ممبر ملکوں نے اس پر دستخط کر کے اسے اختیار کرنے کا ارادہ ظاہر کیا تھا۔ اب یہ ان کا اخلاقی فریضہ ہے کہ وہ اسے اختیار کریں اور اپنے شہریوں کو باعزت زندگی مہیا کرنے کی کوشش کریں۔
انسانی حقوق کی فہرست
۔۱۔ تمام انسان آزاد پیدا ہوتے ہیں اور احترام و حقوق کے معاملہ میں یکساں ہیں۔
۔۲۔ انسانی حقوق نسل،رنگ،جنس،زبان،مذہب، سیاسی یا دیگر خیالات، قومی یا معاشرتی، وطن، جائیداد، پیدائش یا کسی منصب کی تمیز و تفریق کے بغیر سب کے لئے یکساں طور پر تسلیم کئے گئے ہیں۔
۔۳۔ زندگی، آزادی اور حفاظت نفس کا حق
۔۴۔ غلامی کی ممانعت
۔۵۔ بےرحمی کے سلوک سے حفاظت
۔۶۔ قانون کی نگاہوں میں یکساں احترام
۔۷۔ عدالت میں ہر ایک سے یکساں سلوک
۔۸۔ بنیادی حقوق کے تحفظ کےلئے قومی اداروں سے امداد کا استحقاق
۔۹۔ کسی شخص کو بلاقصور گرفتار نہیں کیا جائےگا، نہ ہی نظربند یا جلاوطن کیا جائے گا۔
۔۱۰۔ تمام الزامات کے سلسلے میں مقدمات کی عوامی سماعت کا حق۔
۔۱۱۔ جب تک جرم ثابت نہ ہوجائے، ملزم کو بےقصور تصور کیا جائے۔
۔۱۲۔ مسائل زندگی اور نجی خط و کتابت میں عدم مداخلت
۔۱۳۔ نقل و حرکت کی آزادی
۔۱۴۔ ایک ملک چھوڑ کر کسی دوسرے ملک یا محفوظ مقام پر جا بسنے کی آزادی
۔۱۵۔ حق قومیت
۔۱۶۔ شادی کے حقوق
۔۱۷۔ جائیداد رکھنے کے حقوق
۔۱۸۔ خیالات، سوچ، ضمیر، مذہب کی آزادی
۔۱۹۔ اظہار خیالات کی آزادی
۔۲۰۔ اجتماع کی آزادی
۔۲۱۔ اپنے ملک کی حکومت میں شرکت کی آزادی
۔۲۲۔ اپنی تعمیر ذات کےلئے وسائل و ذرائع کی آزادی
۔۲۳۔ اپنی حسب منشاء کام کاج کی آزادی
۔۲۴۔ آرام اور فرصت کی آزادی
۔۲۵۔ معیار زندگی کا حق
۔۲۶۔ تعلیم کا حق
۔۲۷۔ جماعتی، ثقافتی زندگی میں شرکت کا حق
۔۲۸۔ معاشرتی اور بین الاقوامی ادارے کا حق جس میں ان حقوق کے حصول کی آزادی ہو
۔۲۹۔ ذمہ داری ۔ دوسروں کے حقوق کے تحفظ کی ذمہ داری
۔۳۰۔ کوئی بھی تمھارے حقوق غصب نہیں کرسکتا
No comments:
Post a Comment