Sunday, December 2, 2018

میکاولی نظریہ سیاست اور عمرانی نظریہ یوٹرن


بہت دن ہوئے عمران نیازی نے یوٹرن پر اپنے فلسفیانہ خیالات کا اظہار کیا تھا۔ ان کا کہنا تھا کہ جو لیڈر یوٹرن لینا نہیں جانتا وہ بڑا لیڈر نہیں بن سکتا۔ میں نے اس پر بہت سوچ بچار کیا۔ بڑے لیڈر کی یہ نشانی دنیا کی فلسفیانہ تاریخ سے ڈھونڈنے لگا۔ آج میرے ہاتھ ایک کتاب لگی جس نے میرے سامنے اس راز کو افشاں کیا کہ جناب نیازی صاحب درست فرما رہے تھے ان کا یوٹرن پر دلائل دینا ایک عجوبہ بات نہیں تھی اصل میں ہم لوگ جاہل ہیں جو ان کی بات کو سمجھ نہ سکے۔ میں جس کتاب کا ذکر کررہا ہوں وہ ہے انسان نے کیا سوچا۔ یہ کتاب پرویز صاحب نے ۱۹۵۵ میں پہلی بار چھپوائی۔ اس میں ایک باب ہے اخلاق و سیاست۔ اس کو پڑھنے کے بعد مجھ پر وہ رموز آشکار ہوئے جن کو عمران نیازی یوٹرن کی افادیت بیان کرتے ہوئے عوام کے سامنے رکھ رہے تھے۔ اس تحریر میں پرویز صاحب نے میکاولی نظریہ کا کچھ ذکر کیا ہے زیرنظر سطور میں ان کی تحریر سے اقتباس شامل ہے۔

میکاولی نظریہ سیاست کی رو سے، سیاست کے اپنے ضوابط اخلاق ہیں اور اپنے معیار اقدار۔ ہر وہ حربہ جس سے سلطنت کی قوت بڑھے، مستحق ستائش ہے اور ہر وہ فریب جس سے کامیابی حاصل ہو جائے درخور ہزار تبریک و تحسین ہے۔ یہی جائزوناجائز کا معیار اور حق و باطل کا پیمانہ ہے۔ میکاولی کہتا ہے کہ جس طرح پانی اپنی سطح سے اونچا نہیں جاسکتا اسی طرح انسان اپنی حیوانی سطح سے بلند ہو ہی نہیں سکتا۔

میکاولی کے نزدیک جنگ ہو یا امن ہر زمانے میں مملکت کے لئے سب سے زیادہ موثر ہتھیار قوت اور فریب ہیں۔ اس امر میں اس کی مشہور کتاب جس میں اس نے سیاست کے اپنے سنہرے اصول بیان کئے دی پرنس ہے یہ میکاولی سیاست کا صحیفہ کہلاتا ہے۔ اس میں میکاولی لکھتا ہے کہ بادشاہی کے لئے صفت روباہی نہایت ضروری ہے تاکہ وہ دجل و فریب کے جال بچھا سکے۔ اس کے ساتھ خوئے شیری بھی تاکہ وہ بھیڑیوں کو خائف رکھ سکے۔ صرف شیر کی قوت کافی نہیں۔ اس لئےعقلمند بادشاہ وہ ہے کہ جب دیکھے کہ کوئی عہد یا معاہدہ اس کے اپنے مفاد کے خلاف جاتا ہے یا جن وجوہات کے پیش نظر وہ معاہدہ کیا تھا، وہ باقی نہیں رہیں، تو اسے بلاتامل توڑ ڈالے۔ لیکن یہ بھی ضروری ہے کہ اس قسم کی عہدشکنی کے لئے نہایت نگاہ فریب دلائل بہم پہنچائے جائیں۔۔۔۔  دی پرنس باب اٹھارہ۔۔۔۔۔۔۔

اسی کتاب میں ایک دوسرے مقام پر میکاولی لکھتا ہے کہ 
جو بادشاہ اپنے پاوں مستحکم رکھنا چاہتا ہے اس کے لئے یہ جاننا ضروری ہے کہ بدی کس طرح کی جاتی ہے اور اس کا کون سا وقت سب سے زیادہ موزوں ہے۔ اس میں خوبیوں کا ہونا ضروری نہیں۔ البتہ یہ ضروری ہے کہ بظاہر معلوم ہو کہ اس میں خوبیاں موجود ہیں۔ بظاہر ایسا کھائی دے کہ وہ بڑا رحمدل، وفاشعار، نیک اطوار، مذہبی، صداقت پسند ہے۔ اس میں چنداں مضائقہ نہیں کہ اس میں ان میں سے کوئی خوبی سچ مچ پیدا ہوجائے لیکن یہ نہایت ضروری ہے کہ اس دل کی حالت ہمیشہ ایسی رہے کہ جونہی وہ دیکھے کہ مصلحت وقت کا تقاضہ ہے کہ اس خوبی کو یکسرالگ کردیا جائے تو وہ بلاتامل و توقف اس کے خلاف  عمل کر سکے۔

فریڈرک دوم جو کہ سولہویں صدی میں یورپ کا ایک بادشاہ گزرا ہے اس کے الفاظ بہت مشہور ہیں اور مقتدر حلقے اس کا ذکر بھی بہت کرتےہیں کہ 

کامیابی کا سب سے بڑا راز یہ ہے کہ تم اپنے عزائم کو چھپاو اور اپنے کردار کو ہمیشہ زیرنقاب رکھو۔۔۔۔۔ صحیح حکمت عملی یہ نہیں کہ پہلے سے ہی متعین کرلیا جائے کہ مجھے کیا کرنا ہے۔ حکمت عملی یہ ہے کہ حسب موقع جو صورت اپنے فائدے کی نظر آئے اختیار کرلی جائے۔ اسی لئے میں تم سے ہمیشہ کہا کرتا ہوں کہ دوسری سلطنتوں سے معاہدات کرکے اپنے ہاتھ نہیں باندھ لینے چاہیں۔ اپنے آپ کو ہمیشہ آزاد رکھنا چاہیے۔ میکاولی نے کہا تھا کہ جو سلطنت اپنے مفاد سے غافل ہوجاتی ہے وہ آخرالامر تباہ ہوجاتی ہے۔ میں اگرچہ طبعا ایسے اصول کو پسند نہیں کرتا لیکن میکاولی سے متفق ہونے پر مجبور ہوں۔

میکاولی کی تعلیمات کا لازمی نتیجہ یہ ہوا کہ تمام اخلاقی اقدار کی اہمیت ذاتی مفاد سے بھی کمتر ہوگئی۔ اب آپ نجی زندگی میں جتنے بھی رحمدل، قابل اعتماد ہیں مفادات کی جنگ اور خاص طور پر حکومت حاصل کرنے اور پھر اسے قائم رکھنے کے لئے کچھ بھی کر گزرنا کارثواب ہے۔ اس فلسفے کے زیر اثر عام شخص جسے اخلاقی معیار پر نہایت شرمناک تصور کرتا ہو آپ کے لئے قابل فخر اور ایک بڑے لیڈر کی نشانی بن گیا ہے۔ 

میکاولی کے فلسفہ نے اخلاقیات کی بنیادیں ہلادی ہیں۔ اس فلسفے کی روح یہ ہے کہ کوئی بھی نیک، رحمدل اور انصاف پسند انسان بڑا حکمران یا بڑا لیڈر ہوہی نہیں سکتا۔  اس کے فلسفہ کے پیروکار آپ کو طاقت کے مراکز میں کئی جگہ نظر آجائیں گے۔ دنیا میں بہت سے ملک ایسے ہی حکمرانوں سے استفادہ حاصل کررہے ہیں۔ اطمینان کا پہلو یہ ہے کہ ساری دنیا ابھی میکاولی نظریات سے متفق نہیں ہوئی۔ ابھی بھی اخلاقیات کو مفادات پر اہمیت دی جاتی ہے۔  لارڈ برٹرینڈ رسل نے لکھا تھا کہ 

سیاسی اخلاق کے بغیر قومیں تباہ ہوجاتی ہیں اور ذاتی اخلاق کے بغیر ان کا وجود بے معنی ہوتاہے۔ اس لئے ایک اچھی دنیا کے لئے سیاسی اور پرائیویٹ  اخلاق دونوں کی ضرورت ہے۔ 

عمران نیازی نے میکاولی نظریہ کو ایک نئے انداز سے پیش کیا ہے اس نے مکروفریب کو یوٹرن کہہ دیا اور باقی سب وہی میکاولی فلسفہ کہ جب ضرورت پڑے تو اپنے الفاظ سے مکر جاو اور یوٹرن لے لو کہ یہ ایک بڑے لیڈر کی نشانی ہے۔۔۔۔۔ کیا واقعی یہ ایک بڑے لیڈر کی نشانی ہے یا یہ قیامت کی نشانی ہے؟

No comments:

Post a Comment