Tuesday, November 20, 2018

ناکامی کا خوف


ناکامی کا خوف آپ کی اور کامیابی کے درمیان سب سے بڑی رکاوٹ ہے۔ اس خوف کی وجہ سے آپ ہر بری چیز تصور کرتےہیں جو آپ کے ساتھ ہوسکتی ہے۔ یہ خوف ہمیں کچھ بھی نیاکرنے سے روکتاہے یا پھر درمیان میں چھوڑدینے پر مجبور کرتاہے۔ کامیابی کا دارومدار آپ کے خوف پر قابو پانے کی قابلیت پر منحصر ہوتاہے۔ ناکامی کو دیکھنے کا انداز بدلنا ہوگا۔ اگرناکامی کو کامیابی کا اہم جز مان لیں تو اس کا خوف دور ہوجائےگا۔ اس کے بعد ہم کچھ نیاکرنے سے گھبرائیں گے نہیں بلکہ ہمیں نئے تجربات کا شوق پیدا ہوگا اور یہی شوق ہماری تخلیقی صلاحیتوں کو اور اجاگر کرےگا۔

تھامس ایڈیسن نے بجلی کے بلب کے علاوہ ایک ہزار سے زیادہ ایجادات پیٹینٹ کروائیں۔ اس کو امریکہ کا ایک عظیم موجد مانا جاتا ہے۔ اس نے بتایا کہ وہ سینکڑوں بار اپنے تجربات میں ناکام ہوا مگر اس نے اس ناکامی کو سیکھنے کا ایک ذریعہ سمجھا۔ اس نے کہا ” میں سوبار ناکام نہیں ہوا بلکہ میں نے یہ سیکھا کہ یہ سو طریقے میرے مقصد کے حصول میں مددگار نہیں ہو سکتے اور اس طرح ہر ناکامی پرمیں اپنے مقصد کے اور بھی قریب ہوتا گیا۔ اسی طرح دنیا کی مشہور پراڈکٹ ہے ۔۔ ڈبلیو فارٹی ۔۔ جو کہ میٹل کو زنگ سے بچانے کیلئے کامیابی سے استعمال ہورہی ہے۔ اس کے نام میں موجود چالیس کا ہنسہ۔ اس کے چالیسویں فارمولے کی طرف اشارہ کرتا ہے۔  اس کے خالق کیمسٹ نے چالیس بار فارمولہ تیار کیا اور انتالیس بار وہ ناکام ہوا مگر ہمت نہیں ھاری اور پھر چالیسویں کوشش پر وہ اپنا مطلوبہ فارمولا بنانے میں کامیاب ہوگیا۔

ناکامیوں کے سفر میں کہیں اگر ہم تھک کر بیٹھ جائیں تو سمجھیں وہیں ہمارے مقاصد کی قبر کھدنے والی ہے۔ ناکامی تو دراصل منزل کی طرف سفر کا ایک سنگ میل ہوتاہے۔ ہماری ہر ناکامی ہمیں کامیابی کے قریب لےجارہی ہوتی ہے۔ اس سفر میں ہمیں ایک احتیاط ضرور کرنی ہے اور وہ یہ کہ ایک ہی طرح کی غلطی باربار نہیں دوہرانی۔ ہر بار غلطی سے سیکھیں اور  اگلی بار ایک نئی غلطی کریں۔ اس راستے پر دوبارہ مت جائیں جو پہلی بار آپ کو منزل پر لے کرنہیں گیا۔ اب کی بار ایک نیا راستہ آزمائیں۔ ایک بات اپنے آپ کو ذہن نشین کروادیں کہ درمیان میں کام کو یا کسی بھی مقصد کو چھوڑدینے کی کوئی گنجائش نہیں۔۔۔۔ درمیان میں چھوڑنا کوئی آپشن نہیں۔۔۔۔ کرنا ہے تو پھر کرنا ہے بظاہر کوئی کام چاہےجتنا بھی ناممکن نظر آئے وہ آپ کو ہرانہ پائے۔۔۔۔ اگر آپ ہمت نہیں ہارتے تو یقین جانیں آپ کو کامیاب ہونے سے کوئی روک نہیں سکتا۔

خواب  ہم سب دیکھتے ہیں ہم سوتے میں خواب دیکھتے ہیں اور اکثر بھول بھی جاتے ہیں جو یاد رہتے ہیں وہ کافی عجیب اور دلچسپ ہوتے ہیں۔ خواب ہماری ذہن کی پیداوار ہیں۔ یہ ہماری تخلیقی صلاحیتوں کا اظہار ہوتے ہیں۔ ہمیں جاگتے ہوئے بھی خواب دیکھنے چاہیں اور پھر عملی راستہ اختیار کرکے ان کو زندہ کرنےکےلئے جدوجہد کرنے پرلگ جاناچاہیے۔ ہم اپنے خوابوں کو زندہ ہوتے دیکھ سکتے ہیں بشرطیکہ ہم ناکامیوں کے سفرکیلئے اپنے آپ کو تیار کرسکیں۔

شرم کا احساس یا بےعزتی کا خوف عام طور پر کچھ نیا کرنے سے روکتا ہے۔ ہمارے معاشرے میں ناکامیابی کو ایک بہت برا عمل سمجھا جاتا ہے۔ اسی لئے ہر کوئی صرف کامیاب ہوناچاہتاہے اور جہاں ناکامی کا خدشہ ہو وہاں سے اجتناب کیا جاتا ہے۔ اگر کچھ کرنے کی تڑپ آپ میں موجود ہے اور شرم یا ناکامی کا احساس آپ کو کرنے سے روک رہا ہے تو پھر آپ کو تھوڑا تو بےشرم ہوناہی پڑے گا۔ اپنے مقاصد کو اپنی زندگی کا محور بنالیں۔ دوسروں کی پرواہ کرنا چھوڑدیں کہ وہ تو آپ کے ساتھ مقابلے میں شامل ہیں اور وہ تو آپ کو کامیاب ہونے سے روکنے کےلئے سرگرم ہیں وہ چاہتے ہیں کہ آپ اگے نہ بڑھ سکیں تو کیا آپ ان کے مقاصد کی تکمیل کریں گے اور اپنے راستے سے ہٹ جائیں گے؟

مسائل کے حل تلاش کرتے ہوئے جن چیزوں سے ہم کو سب سے زیادہ خوف آتا ہے ان سے ہم نظر چرانے لگتے ہیں۔ ان کا حل ڈھونڈنے کی بجائے ان سے کتراتے ہیں۔ ایسے ردعمل سے وقتی طور پر ہم کچھ بوجھ کم کرلیتے ہیں مگر وہ مسائل تو وہیں کے وہیں ہوتے ہیں۔ ان سے ہم کب تک اجتناب کریں گے۔ بہتر ہے کہ ہم ہمت کریں اور ان کا حل تلاش کریں اور اپنے مقاصد کے حصول میں اگلے مرحلے میں داخل ہوجائیں۔

ہم سماجی جانور ہیں۔ ہمیں ہرکام اکیلے کرنے کی کوشش نہیں کرنی چائیے۔ اگر کچھ ایسا ہے جو ہمیں اکیلے ہی کرنا ہے مگر کسی ایک جگہ پر اٹک گئے ہیں اور کوئی راہ سجھائی نہیں دیتے تو ایسے عالم میں ہمیں چائیے کہ اپنے اردگرد متعلقہ لوگوں سے مشورہ لیں۔ ہمارے عزیز، احباب ، اساتذہ اکرام اور دیگر ذرائع کو استعمال کریں۔

مسائل کے حل تلاش کرتے ہوئے اس بات کا خیال رکھیں کہ آپ ان مسائل کے حل تلاش کرنے کی کوشش کریں جو آپ کے کنٹرول میں ہیں۔ کچھ ایسے مسائل ہوتے ہیں جو آپ کے کنٹرول میں نہیں ہوتے ان سے توجہ ہٹادیں۔ اگر آپ کسی امتحان میں ٹاپ کرنا چاہتے ہیں تو اس بات کی فکر چھوڑدیں کہ ٹاپ ہوگا کہ نہیں ہوگا۔ آپ اپنی توجہ مطالعہ پر مبذول رکھیں تاکہ کامیابی کے زیادہ سے زیادہ قریب ہوسکیں۔  


یاد رکھیں خوف سے غصہ پیدا ہوتا ہے اور غصے سے نفرت پیدا ہوتی ہے اور نفرت تکلیف کا باعث ہوتی ہے۔ نفرت کی انتہا تخلیقی صلاحیت کو کمزور کرتی ہے۔ خوف اور کچھ نہیں یہ صرف ایک ذہنی کیفیت کا نام ہے۔ اس کیفیت کو آپ ہمت سے بدل سکتے ہیں۔ ہمت کریں آگے بڑھیں کہ پوری کائینات مسخر ہونے کو تیار بیٹھی ہے۔

No comments:

Post a Comment