Sunday, November 25, 2018

سہل وڑائچ کچھ لکھنے کیوں نہیں دیتے؟



انصار عباسی کا آج کا کالم کافی دلچسپ ہے۔ انھوں نے سہیل وڑائچ پر کھلی تنقید کی ہے اور ان پر الزام لگایا ہے کہ وہ کچھ لکھنے نہیں دیتے۔ جو بھی لکھا جاتا ہے اور سہیل صاحب کو منظوری کےلئے بھیجا جاتا ہے کیونکہ وہ روزنامہ جنگ میں ادارتی صفحہ کے انچارج ہیں اور کالمز کے ذمہ دار ہیں تو وہ سب کچھ سینسر کردیتے ہیں۔۔۔  انصار عباسی کا دلچسپ انداز میں سنسر پالیسی پر تنقید اچھی لگی۔ مگر مسئلہ سہیل بھائی نہیں۔ مسئلہ تو ان کے پیچھے چھپی ان کی مجبوریوں کا ہے۔ وہ ایک اعلی پائے کے صحافی ہیں اور لکھتے بھی خوب ہیں مگر صرف لکھنا اور لکھنے والوں کے لکھے پر ذمہ دار ہونا بہت مختلف ہوجاتا ہے۔ انصار بھائی آپ کے ذریعے میں تمام لکھنے والوں کو چند گزارشات کرنا چاہتا ہوں۔ میں بھی کوشش کروں گا کہ ایسا کچھ نہ لکھوں جو سنسر ہونے کے لائق ہو۔۔۔۔ آپ تو خوش قسمت ہیں آپ کے پاس سہیل وڑائچ ہیں جو آپ کے الفاظ کو سینسر کردیتے ہیں ان کا سوچیں جن کے پاس ایسی سہولت نہیں ان کے ساتھ کیا بنتا ہوگا؟ خیر اللہ کا نام لے کر شرورع کرتا ہوں۔۔۔۔۔

سوشل میڈیا پر ایک میسج چل رہا تھا اور اب باقاعدہ ویڈیو بن کر چل رہا ہے اس کا کنٹینٹ کچھ یوں ہے کہ ہر پاکستانی کے نام ۔۔۔آج۔۔۔۔ کا پیغام 
وہ تب تک ھاوی نہیں ہوسکتے جب تک پاکستانی فوج ہے۔ فوج کو وہ شکست نہیں دے سکے اسلئے وہ یہ کام اب آپ سے لینا چاہتے ہیں۔ یہی ففتھ جنریشن وار ہے۔ اگر آپ یہ خودکشی نہیں کرنا چاہتے تو اپنی فوج کو نشانہ بنانا بند کیجیئے۔ اس پیغام میں بہت تفصیل سے بیان کیا گیا ہے کہ ہمارے دشمن کون ہیں۔ بنیادی طور پر ہمارے تین نمایاں دشمن ہیں۔ ایک لبرل جو ایمان کے دشمن ہیں۔ خارجی جان کے دشمن اور جمہوریے مال کے دشمن۔ ان تینوں کے پاس خوبصورت نعرے ہیں۔ لبرلزکے پاس انسانیت کا نعرہ ، خارجیوں کے پاس اسلام کا نعرہ اور جمہوریوں کے پاس حقوق کا نعرہ لیکن ایک کافرکہتا ہے دوسرا مارتا ہے اور تیسرا لوٹتا ہے۔ اس پیغام میں بتایا گیا ہے کہ یہ سب ایک دوسرے کے غیراعلانیہ اتحادی ہیں۔ خارجی پاک فوج کو اسلام دشمن کہہ کر لبرلز پاک فوج کو دہشتگرد کہہ کر اور سیاستدان فوج کو جمہوریت کا دشمن کہہ کرفوج پر حملہ آور ہیں اور یہ بھی کہ ان سب کو بیرونی حمایت حاصل ہے۔ یہ سب نشاندہی کے بعد ان کے خلاف لڑنے کا طریقہ بھی بتایا گیا ہے۔ اس پیغام مین واضع طور پر بیان کیا گیا ہے کہ ملک دشمن آپ کو دھوکہ دینے کےلئے کہتے ہیں فوج تو اچھی ہے مگر غلطی جرنیلوں کی ہے۔ اس میں واضع طور پر اس حقیقت سے بھی پردہ اٹھایا گیا کہ پاک فوج کیوں ضروری ہے۔۔۔ اس میں کہا گیا ہے کہ خدا کی قسم اگر پاک فوج نہ رہی تو افغانستان اور انڈیا آپ کو کھا جائیں گے۔ ان ملکوں کو تو چھوڑیں آپ ان خوارج سے ہی نمٹ نہیں سکیں گے جن کو خاص آپ کے لئے تیار کیا گیا ہے

اب جبکہ انصار عباسی صاحب کچھ لکھنا چاہتے ہیں مگر سہیل وڑائچ لکھنے نہیں دیتے تو بھائی اس دوران اس پیغام کو ہی عام کر کے دیکھ لیں شائد اس کو سہیل صاحب سینسر نہ کریں۔ ایک آدھ کالم اس پر بھی لکھ کر دیکھ لیں۔ ہمارے تین ملک دشمنوں کی دشمنیوں کو اجاگر کریں بتائیں کہ کیسے لبرلز ہمارے معاشرے کو بگاڑ رہے ہیں ان کی وجہ سے کیسے یونیورسٹیوں میں بےحیائی کا سیلاب آنے کو ہے۔ یہ تو غنیمت ہے کہ اسلامی جمیعت طلبہ موجود ہے جو لبرلز کو پھینٹا شینٹا چڑھاتے رہتے ہیں تو یہ کنٹرول میں ہیں ورنہ یہاں تو یونیورسٹیوں میں شاید بےحیائی کے اڈے ہی کھل گئے ہوتے۔  اور پھر عباسی صاحب ان خارجیوں کا تفصیلی حال بیان کریں کہ یہ کون ہیں ان کو کس نے پالا ہے اور کہاں سے یہ فنڈنگ لیتے ہیں۔ ان کو بےنقاب کرنا تو اور بھی ضروری ہے کہ یہ نہ صرف فوج کے دشمن ہیں بلکہ دین اور ایمان کے دشمن بھی ہیں۔ ان کے کھیل اور کھیل کو سجانے والے ان کی چالیں اور چالیں سکھانے والے سب بےنقاب ہونے چاہیں۔ ان پر بھی آپ کچھ لکھ کر دیکھیں۔ اس کے بعد ملک کے سب سے بڑے دشمن جمہوریے۔ ان کی وجہ سے تو ملک میں آگ لگی ہوئی ہے ان کے لوٹ مار نے تو ملک کو دیوالیہ کردیا۔ ان کی وجہ سے ہمارے سب ادارے کرپٹ ہوگئے ہیں ان کی وجہ سے عدالتیں کرپٹ ہوئیں ان کی وجہ سے پی آئی اے ، سٹیل ملز اور ریلوے تباہ ہوا۔ ان کی وجہ سے جاگیردار بڑے جاگیردار بنے ان کی وجہ سے سرمایہ دار ملک سے پیسہ لے کر بھاگے ان کی وجہ سے پانامہ آباد ہوئے۔ ان کے کرتوت بھی تو بیان کریں اس پر کیا پابندی لگائے گا سہیل وڑائچ؟ آپ بھی تو غلط اطراف میں ٹامک ٹوئیاں کرتےہیں۔۔۔ تو پھر سنسر تو ہونگے آپ کے کالم۔

 ہر وقت کی ایک ضرورت ہوتی ہے اس کے اپنے تقاضے ہوتے ہیں۔ ان تقاضوں اور ضرورتوں کا خیال رکھنا ہم سب کا اولین فرض ہے۔ آپ ایسے سوالات نہ اٹھائیں جن سے انتشار پھیلنے کا خدشہ ہو۔ ججز ڈیم بنائیں یا چندہ مہم چلائیں آپ کو اس سے کیا۔ رضوی کبھی جو مجاہد اسلام تھا آج کیوں فسادی بن گیا۔ یوٹرن لینا بڑے لیڈر کی نشانی یا جھوٹے شخص کی۔ ہم تو پہلے ہی عدم برداشت کے مارے ہیں اوپر سے آپ سخت سوالات کرتے ہیں۔ ایسے سوالات لبرل معاشروں میں اٹھائے جاتے ہیں۔ غلاموں کے معاشرے گلے سڑے خیالات کو ہی اپنی نجات سمجھتے ہیں۔ ان کو تازہ ہوا سے الرجی ہوجاتی ہے۔ میرے بھائی یہ سوال ہمیں بیمار اور منتشر کردیںگے۔ سمجھے کہ نہیں۔ آج پھر وقت کی ضرورت کو مدنظر رکھتے ہوئے لکھیں تو سب چھپ جائے گا۔ ملک میں ایک وقت تھا نظریئہ ضرورت کی بہت بات ہوتی تھی۔ اور پھر جمہوریوں نے اسے دفن کرنے کی بھی بات کی۔ مگر بھائیو یہ نظریہ ایک حقیقت ہے اور حقیقت رہے گا۔ یہ ایک اٹل حقیقت ہے اس سے مفر ممکن نہیں۔ ہم بعض اوقات مخصوص قسم کے چشمے لگالیتے ہیں۔ انھیں چشموں کے رنگ سے دنیا دیکھتے ہیں اور اس طرح ہم ایک خاص رنگ میں رنگے جاتے ہیں۔ چشمے تو وقت کی ضرورت کے تحت پہنے جاتے ہیں۔ عباسی صاحب آپ دیگر اوقات میں جو بھی چشمہ پہنیں کچھ فرق نہیں پڑتا مگر جب آپ کالم لکھنے بیٹھیں تو ایسا چشمہ لیں جس میں سے آپ کو اوپر بیان کئے گئے تین دشمنان ملک و قوم واضع طور پر نظر آئیں اور پھر ممکنات کی پوری کائینات ہے آپ لکھتے جائیں اور سہیل بھائی چھاپتے جائیں گے۔

No comments:

Post a Comment