Thursday, November 15, 2018

سچ کی پرکھ کیسے کی جائے؟



ہم آج جس دور میں زندہ ہیں اس میں معلومات کا ایک طوفان ہے جو ہمارے اردگرد ہر وقت چل رہا ہوتا ہے۔ بعض اوقات چند افراد یا ادارے اپنے مفادات کو تحفظ دینے کےلئے جھوٹی کہانیوں کا سہارہ بھی لیتے ہیں۔ کاروباری ادارے بھی اپنے کمرشل مفادات کیلئے پراپیگینڈہ کا استعمال کرتے ہیں۔ آج کل جھوٹی خبروں کو پھیلانے کا سب سے آسان اور سب سے تیز ذریعہ سوشل میڈیا بن چکا ہے۔ بےشمار جھوٹی خبریں منٹوں میں لاکھوں لوگوں تک پہنچ جاتی ہیں اور ان خبروں کو بغیر تصدیق کے لوگ ایک دوسرے کو شیئرکرتے رہتے ہیں۔ مخصوص مقاصد کے تحت جھوٹے پراپیگینڈا کو پھیلانے کےلئے اداروں میں جھوٹے اکاونٹس کی بھرمار ہوتی ہے۔ وہ لوگ پیسے کے زور پر بےشمار لائیک اور فالور بنواکر اپنے اکاونٹ کو سوشل میڈیا پر پاپولر کروالیتے ہیں اور پھر آسانی سے اپنے مقاصد کے حصول کےلئے مخصوص خبروں اور معلومات کو نشرکرتے رہتے ہیں۔ ایسی صورت میں جب ہر طرف سچ اور جھوٹ کی آمیزش زدہ کہانیاں گردش کررہی ہوں تو ہمیں بہت ہوشیاررہنے کی ضرورت ہے۔ ہمیں اصل اور بکواس معلومات میں فرق کرنا ہوگا۔

مائیکل شریمر کا ایک مضمون بہت مشہور ہوا جس میں اس نے اصلی اور جعلی سائنس کی پہچان کے طریقے درج کیئے تھے۔ مائیکل شریمر ایک سائنس رائیٹر، سائنس کا تاریخ دان، میگزین سکیپٹیکس کا ایڈیٹر ان چیف اور امریکن کونسل آن سائنس اور صحت میں سائنس ایڈوائیزر ہے۔ اپنے مضمون میں شریمر نے چند طریقے درج کیئے تھے جن کی مدد سے آپ کسی بھی معلومات کی حقیقت کو آسانی سے پہچان سکتے ہیں۔ وہ طریقے دراصل چند سوالات ہیں جن کے جواب کے حصول سے آپ کسی بھی دعوے کی اصل جان پائیں گے۔

۔۱۔ دعوہ کرنے والا  ذریعہ کتنا قابل اعتبار ہے۔
جعلی خبر والے عموما بہت قابل اعتبار نظر آنے کی کوشش کرتے ہیں مگر جب زرہ باریک بینی سے تجزیہ کیا جائے تو آپ کے سامنے آجائے گا کہ حقائق میں ردوبدل کیا گیاہے یا پھریہ مکمل طور پرجھوٹ پر مبنی ہے۔

۔۲۔ کیا یہ ذریعہ معلومات اکثر ایسے دعوے کرتا ہے؟
جھوٹی خبر کے ذرائع اکثر اپنے تخلیقی تصورات کو سائنس کے طور پر پیش کرتے رہتے ہیں۔ اصل حقائق کو ملاکر باربار نئے انداز سے اپنے دعوے دہراتے رہتے ہیں۔

۔۳۔ کیا دعوے کو دوسرے ذرائع نے بھی تصدیق کیا ہے؟
عام طور پر جھوٹے دعوے کرنے والے ایسے دعوے کرتے ہیں جن کو آپ کہیں سے تصدیق نہیں کرواسکتے۔ ہمیں پوچھنا چاہیے کہ کون ان دعووں کی چھان بین کررہاہے یاکرسکتا ہے؟ تصدیق اور دوبارہ تجربہ دوہرائے جانا کسی بھی سائنسی دعوے کے سچے ہونے کے لئے ضروری ہے۔

۔۴۔ کیا دعوہ ہمارے موجودہ علم کے مطابق ہے؟
کسی بھی دعوے کو پرکھنے کےلئے ضروری ہے کہ ہم اسے اپنے موجودہ علم پربھی پرکھیں اور دیکھیں کہ ایک کیا بڑے تناظر میں یہ بات حقیقت کے قریب نظر آتی ہے؟ کہیں ایسا تو نہیں کہ ہمیں بہت پرانی معلومات کو استعمال کرکے بےوقوف بنایا جارہاہے؟

۔۵۔ کیا کسی نے دعوے کے خلاف ثبوت مہیا کیے ہیں؟
کسی دعوے کی حقیقت جاننے کےلئے یہ بہت ضروری ہے کہ ہم یہ جانیں کہ کیا کسی نے اس دعوے کے خلاف کوئی ثبوت مہیا کیے ہیں یا کم از کم کسی نے اس دعوے کو جھوٹا ثابت کرنے کی کوشش کی ہے؟ یہ بات بہت ضروری اس لئے بھی ہے کہ وہ دعوہ سچا نہیں ہوسکتا جس کو کبھی جھوٹا ثابت نہ کیا جاسکے۔ دعوے کو ٹیسٹ کرسکنا بہیت اہم ہے۔


کسی بھی دعوے کی آزمائش اور اس کی سچائی معلوم کرنا سادہ معاملہ نہیں ہے۔ ہمیں بہت ذہن لگانا پڑتا ہے۔ ہمیں یقینی اور غیریقینی معلومات کو الگ کرنا ہوتا ہے ان کی تصدیق کرنا ہوتی ہے اس کے باوجود ہمیں ذہن کو کھلا رکھنا ہوتا ہے اور رویہ کو لچکدار بھی رکھنا ہوتا ہے۔ نئی معلومات اور نئے شواہد کے آنے پر ہمیں اپنے خیالات کو بدلنے کی صلاحیت بھی زندہ رکھنی ہوتی ہے۔ اور یہی وہ چیزہے جس سے بعض لوگ مایوسی بھی محسوس کرنے ہیں۔ سائنسی نقطہ نگاہ سے کوئی بھی سچائی کوئی بھی نظریات مستقل نہیں ہوتی۔ تبدیلی کی گنجائش ہروقت موجود رہتی ہے۔ مگر پھریہی لچکدار رویہ ہی تو انسانی دماغ اور سائنس کی عظمت کا باعث ہے۔

No comments:

Post a Comment