Monday, November 12, 2018

سائنسی انداز فکر


معلومات کو اکٹھا کرنے اور پھر ان معلومات سے نتائج اخذ کرنے کے معاملہ میں انسان بہت ہی کمزور واقع ہوا ہے اسی لئے ہم لوگ ماضی میں تواہمات کا شکار ہوتے رہے اور انھیں حقیقت سمجھتے رہے۔ ہمارے اندر موجود خوف، تعصبات، تعلیمی کمزوریاں اور ہماری نفسیاتی غلطیاں ہمیں حقیقت سے روشناس نہیں ہونے دیتیں۔ ہم حقیقت کی تلاش میں سائنسی انداز فکر اختیار کرنے کی بجائے سادہ اندازفکراپناتے ہیں اور عام سمجھ بوجھ کو یا پھر وجدان کو نتائج حاصل کرنے کا ذریعہ بنالیتے ہیں۔ 
روزمرہ کے سادہ معاملات میں یہ طریقہ کہیں کہیں گزارہ کرجاتاہے مگر جب ہم بہت زیادہ معلومات اور اعلی درجہ کے معاملات کی بات کرتے ہیں تو پھر ہمیں ایسا نظام فکر و تدبرکی ضرورت پڑتی ہے جس کے ذریعے سے ہم درست اندازمیں حقیقت کو سمجھ سکیں۔ اس کی مناسب انداز سے وضاحت کرسکیں اور انھیں معلومات کی بنیاد پر پیشین گوئی بھی کرسکیں۔ ایک اچھا سائنسدان ایک اچھا پیش بین بھی ہوتا ہے وہ اپنے علم کی بنیاد پر درست پیشین گوئیاں کرسکتا ہے۔ سائنسی اندازفکر ایسا کرسکتا ہے جبکہ دیگر اندازفکر یہاں ناکام ہوجاتےہیں۔ عام سمجھ بوجھ اور وجدان محدود حد تک کام کرتے ہیں مگر یہ ہمیشہ حقیقت تک پہنچنے کا قابل اعتبار ذریعہ نہیں ہوتے۔ اب جبکہ ہم جان چکے ہیں کہ ہمارے لئے سائنسی اندازفکر بہت ضروری ہے تو اب یہ جاننا بھی ضروری ہے کہ یہ اندازفکر ہے کیا اور کیسے کام کرتا ہے لیکن میرے خیال میں اس سے بھی پہلے یہ جاننا ضروری ہے کہ غیرسائنسی اندازفکر کے انداز کون سے اور کیوں ہم ان پر بھروسہ نہیں کرسکتے۔

حصول علم کے غیر سائنسی ذرائع

وجدان
وجدان کا مطلب ہے ہمارے اندر کے احساسات اور محسوسات جو کسی سوال یا واقع کے بارے میں ظہور پزیر ہوں۔ وجدان کو اگر معلومات کا ذریعہ یا جواب اخذ کرنے کا طریقہ مان لیا جائے تو اس میں خرابی یہ ہے کہ یہ عمومی طور پر غلط نتائج کا ذریعہ بنتا ہے۔ وجدان کا دوسرا مسئلہ یہ ہے کہ یہ محسوسات سے جنم لیتا ہے۔ اس کا تعلق ہمارے موڈ کے ساتھ بہت ہوتا ہے۔ موڈ کے علاوہ اور بہت سی نفسیاتی کیفیات اس پر اثرانداز ہورہی ہوتی ہیں۔ اسی وجہ سے کسی ایک مشاہدہ کے بارے میں وجدانی فیصلے ہرفرد کی اپنی محسوسات اور موڈ کے محتاج ہوںگے۔ اسی لئے ہم وجدان کو معلومات حاصل کرنے کا قابل اعتبار ذریعہ نہیں مان سکتے۔

روایات

یہ دوسرا غیرسائنسی ذریعہ معلومات ہے جس میں رسم و رواج، اعتقاد اور ایمان، عام سمجھ بوجھ، وہم اور فرضی قصے شامل ہیں۔ یہ معلومات کا ذریعہ نسل در نسل خاندان، مذہب اور دیگر طریقوں سے منتقل کرنے کا نام ہے۔ اگلی نسلوں کو معلومات منتقل کرنے کا یہ سب سے پرانا طریقہ رہا ہے۔ مگر وقت کے ساتھ حقیقی واقعات کی جگہ غیرحقیقی واقعات لوگوں کے ذہنوں میں محفوظ ہوجاتے ہیں۔ بہت سی فرضی کہانیاں شامل ہوجاتی ہیں اور اس طرح حقیقت کہیں سات پردوں میں چھپ جاتی ہے۔ اس کے علاوہ روایات مکمل طور پر غلط معلومات یا خیالات پر مبنی بھی ہو سکتے ہیں جیسے کہ ایک وقت تھا جب یہ عقیدہ رائج تھا کہ زمین ہموار تخت کی طرح ہے اور سورج زمین کے گرد چکر کاٹتا ہے۔ اسی طرح رات کو درختوں کے نیچے نہیں جانا چاہیئے کہ وہاں جنات ہوتے ہیں وغیرہ۔ اسی طرح مختلف معاشروں میں ایک ہی معاملہ میں مختلف عقائد رواج پزیر ہوتے رہے۔ ایک پرندہ ہے الو اسی کی مثال لے لیں۔ ہمارے یہاں یہ بےوقوفی کی علامت ہے جبکہ یورپ میں الو کو عقلمندی کا نشان سمجھا جاتاہے۔ سائنس کے شعباجات جیسے کہ طبییات، کیمیا، ادویات وغیرہ میں ترقی کی وجہ سے بہت سے پرانے عقائد غلط ثابت ہوچکے ہیں۔

عام سمجھ بوجھ
یہ تیسرا غیرسائنسی ذریعہ علم ہے۔ اس مغالطہ کو سائنسی سوالات کے جواب دینے کے لئے کچھ اس طرح استعمال کیا جاتاہے جیسے اس کا جواب تو بہت آسان اور سب کو پہلے سے معلوم ہے۔ جواب دینے سے پہلے اس طرح کے ریمارکس سے ابتداء کی جاتی ہے کہ ”اس کا جواب تو بہت واضع ہے” یا ”یہ تو سب کو معلوم ہے کہ” یا یہ تواندھے کو بھی نظر آتا ہے کہ” یا یہ کہ ” یہ تو عام بات ہے کہ ۔۔۔۔ ” یہی عام بات عام طور پر غلط ہوتی ہے۔ جب تک کامن سینس یا عام سمجھ بوجھ کو معمولی روزمرہ کی باتوں کےلئے استعمال کیا جائے تب تک کوئی مسئلہ پیدا نہیں ہوتا مگر جب پیچیدہ معاملات پر اسے استعمال کیا جائے تو مسائل پیدا ہوتے ہیں۔

ذاتی تجربات
ذاتی تجربات کو علم کا ایک ذریعہ تصور کیا جاتا ہے۔ ہمارے ذاتی تجربات بہت قیمیتی ہوتے ہیں۔ مگر تین وجوہات کی بناء پر ہمیں ان سے نتائج اخذ کرتے ہوئے بہت احتیاط سے کام لینے کی ضرورت ہوتی ہے۔ ایک وجہ تو اس کی یہ ہے کہ ذاتی تجربات میں احساسات کا عمل دخل کافی ہوتا ہے لہذا اس میں نتائج اخذ کرتے ہوئے غلطی کا احتمال بڑھ جاتا ہے۔ ہمارے ذاتی تجربات میں معلومات بہت کم ہوتی ہیں جبکہ تبدیلی کے عوامل بےشمار ہوتے ہیں ہم ان تمام عوامل کا احاطہ نہیں کرپاتے اور چند عوامل کو زیادہ اہمیت کے کر نتائج حاصل لرلیتے ہیں۔ دوسری وجہ یہ ہے کہ ہم اپنے تجربات کے چند ایک پہلووں کو ہی ذہن نشین کر پاتے ہیں جبکہ بہت سے پہلو ہمارے ذہن سے محو ہوجاتے ہیں۔ مثال کے طور پر جب ہم کوئی کتاب پڑہتے ہیں یا کلاس میں کوئی لیکچر سنتے ہیں تو اس کے 
بہت سے پیراگراف ہم مکمل طور پر فراموش کر جاتے ہیں۔ کسی بھی واقع کے بارے میں ہماری یاداشت نامکمل ہوتی ہے۔ اسی لئے ہم ایک ہی واقع کی مختلف تشریحات ملاحظہ کرتے ہیں۔ ہم عموما ان ہی عوامل کو یاد رکھ پاتے ہیں جو ہمارے اعتقادات اور نظریات کے مطابق ہوتے ہیں۔ اس طرح سے حاصل شدہ نتائج حقیقت سے کافی مختلف ہوتے ہیں۔

 اتھارٹی
یہ علم کا پانچواں غیرسائنسی ذریعہ ہے۔ ہمارے اردگرد بےشمار ماہرین موجود رہتے ہیں۔ پروفیسرز، ڈاکٹرز، وکلاء، ماہرین معیشت، صحافی، اسٹاک بروکرز، مکینیکس اور ٹی وی اینکرز وغیرہ۔ تمام ماہرین بہت قیمتی رائے رکھتے ہیں مگر اکثر ان میں اختلاف رائے پایا جاتا ہے۔ یقینا اس صورت میں وہ غلطی پر ہوسکتے ہیں۔ سب سے اہم بات یہ ہے کہ کسی بھی ماہر نے جو رائے قائم کی ہے وہ کس علم کے بنیاد پر ہے۔ کیا اس نے سائنسی اصولوں کے مطابق معلومات اکٹھا کی ہیں یا پھر یہ اس کی ذاتی رائے ہی ہے۔ یاد رکھیں ماہر کی رائے سے زیادہ یہ اہم ہے کہ اس کی رائے کس سائنسی تحقیق کی بنیاد پر قائم ہے۔ لہذا علم کے ذریعہ جس کی بنیاد پر ماہر نے رائے قائم کی ہے وہ زیادہ اہم ہے نہ کہ محض ماہر کی رائے

عقلیت یا استدلال
سب سے آخری غیرسائنسی ذریعہ علم عقلیت یا استدلال ہے۔ استدلال کے طریقہ میں منطق کو استعمال کیا جاتاہے اور عام طور پر اس میں استخراجی طریقہ منطق کو عمل میں لایاجاتاہے۔ اس طریقہ میں نتائج حاصل کرنے میں کچھ مسائل ہیں جن کی وجہ سے حقیقت تک رسائی مشکل ہوجاتی ہے۔ اس کی مثال کچھ یوں لی جاسکتی ہے کہ ہم یہاں فرض کریں کرلیتے ہیں کہ
 ڈراونی فلمیں دیکھنے سے اکثر خوف اور پریشانی پیدا ہوتی ہے۔
 خوف اور پریشانی کے باعث اکثر دل کا دورہ پڑجاتا ہے

نتیجہ: ڈراونی فلمیں دیکھنے سے دل کا دورہ پڑ جاتا ہے۔

مندرجہ بالا مثال میں دو حقائق بیان کئے گئے ہیں پہلی حقیقت کی بنیاد پر دوسری حقیقت  قائم کی گئی اور پھر ان دونوں کی نسبت سے ایک نتیجہ اخذ کیا گیا۔ اس میں کوئی شک نہیں کہ حقیقت تک پہنچنے کیلئے یہ استدلالی طریقہ بہت اہم ہے مگر استخراجی طریقہ میں یہ دیکھنا بہت ضروری ہے کہ اس میں جو پہلی بات فرض کی گئی ہے وہ کس حد تک حقیقی ہے۔ اگر وہ حقیقت پر مبنی ہیں ہے تو پھر ساری دلیل ناقص نتیجہ تک لے جائے گی۔ ایک اور بات ہے اگر ہم نے بیان میں ”اکثر” کا لفظ استعمال کیا ہے تو نتیجہ بھی ”اکثر” کے لفظ کے ساتھ فرض کیا جائے گا۔  منطق کے استخراجی اصول کے تحت ہم بہت محدود امکانات کا احاطہ کر پائے تھے اسی لئے ہم نے نتیجہ بھی غلط اخذ کیا۔ ہمارا دماغ ممکنہ امکانات کو تصور کرنے میں کافی کمزور واقع ہواہے۔ منطق کے اصول سائنسی اندازفکر میں ضروری ہیں لیکن صرف ان پر انحصار ہمیں درست نتائج مہیا نہیں کرپاتے۔ اس کے لئے ضروری ہے کہ ہم مکمل سائنسی طریقہ اختیار کریں۔ سوالات چاہے نظریاتی نوعیت کے ہوں یا عملی نوعیت  کے آپ سوال کو مندرجہ ذیل پانچ مراحل سے گزار کر درست جواب حاصل کر سکتے ہیں۔

 ان مظاہر کا بغور مشاہدہ کریں جن کی وضاحت کرنا مقصود ہے۔ یا پھر تجسس کو استعمال کرکے اپنے لئے نئے نئے سوالات پیدا کرتے رہیں

 ایک عارضی نظریہ یا مفروضہ قائم کریں

 اپنے مفروضہ کیلئے ٹیسٹ ڈیزائن کریں۔

 ڈیرائن کئے ہوئے ٹیسٹ کے مطابق اپنے مفروضے کو پرکھیں

نتائج کو دیکھتے ہوئے اپنے مفروضے کو قبول یا رد کریں یا پھر اگر ضرورت ہو تو اس میں ضروری تبدیلی کر کے دوبارہ ٹیسٹ دہرائیں۔


سائنسی انداز فکر انسان کا سب سے کامیاب ہتھیارثابت ہواہے۔ جس کی مدد سے انسان تمام کائینات کو سمجھنے کے قابل ہوسکا۔ اس اوزار یا ہتھیار کی مدد سے ہم نے بہت سے نظریاتی اور عملی مسائل کا حل ڈھونڈا ہے۔ یہ طریقہ سوچنے کے دوسرے تمام نظاموں پر ہمیشہ کامیاب ہوا ہے۔

No comments:

Post a Comment