Friday, June 22, 2018

نان سینس

Photo DawnNews


گزشتہ روز زعیم قادری کی پریس کانفرنس دیکھی۔ اس کے جارحانہ انداز سے اندازہ ہوا کہ پارٹی نے محترم زعیم قادری کی فرمائش پوری نہیں کی۔ ایم این اے کی سیٹ نہ ملنے پر اپنی ہی پارٹی پر چڑھ دوڑے۔ مسلم لیگ میں یہ پہلا واقعہ نہیں۔ مگرزعیم قادری نے اپنے آپ کو ایکسپوز کردیا۔ اس کے پاس تو کوئی اخلاقی یا سیاسی وجہ نہ تھی نہ اس کے ساتھ مقامی مسلم لیگ کی تنظیمیں تھیں مگر پھر بھی انھوں نے میڈیا کو پروگرامز کے لئے اچھا مصالحہ مہیا کردیا۔ میڈیا پر تبصرہ نگاروں کی چاندی ہوگئی اورمسلم لیگ اور اس کی قیادت کوپرالزامات کی بوچھاڑ کردی۔ زعیم کو مظلوم ہیرو بنانے لگے۔

اب سنیں اس حلقے کی آواز جہاں سے قادری صاحب مسلم لیگ کو چیلنج کررہے ہیں۔


میں مسلم لیگ کا سپورٹر اور ووٹر ہوں اور حلقہ این اے ۱۳۳ میں گرین ٹاون کا رہائشی ہوں۔ ہمارے حلقے میں مسلم لیگ نے مختلف امیدوار کھڑے کیے اور وہ ہمیشہ نوازشریف کے نام پر جیتے۔ زعیم قادری بھی ان میں سے ایک تھے۔ دو بار ایم پی اے ہوئے۔ ۲۰۰۸ میں جیتنے کے بعد علاقہ میں پارٹی نے ترقیاتی کام شروع کئے۔ ہمارے محلے میں نیا سیوریج ڈلنے کا کام شروع ہوا تو علاقہ مکینوں کو شکایت ہوئی کہ ٹھیکیدار غیرمیعاری کام کروا رھا ہے۔ ہم نے احتجاج کیا مگر ٹھیکیدار پر کچھ اثر نہ ہوا۔ ہم لوگ ٹی ایم او سے ملنے گئے۔ کچھ نہ بنا۔ اب ہم نے زعیم قادری سے ملنے کا فیصلہ کیا۔ صاحب کے پاس ٹھیکیدار کی شکایت لے کر گئے مگر وہاں ٹھیکیدار صاحب پہلے سے موجود تھے۔ زعیم قادری نے ہماری شکایت سننے کے بجائے ہمیں سمجھایا کہ اگر یہ کام بھی نہ ہورہا ہوتا تب بھی تو آپ لوگ گزارہ کررہے تھے نا۔ اب اگر ہو رہا ہے تو اس پر آپ لوگ اعتراز نہ کریں اور کام کو چلنے دیں۔۔۔۔۔۔ زعیم سے مایوس ہونے کے بعد میں نے انٹرنیٹ کے ذریعے سے صوبائی محتصب کو درخواست بھجوا دی اور پھر صوبائی محتصب نے ہمارے حق میں فیصلہ دیا اور پھر ہم نے ویسے ہی کام کروایا جیسے ورک آورڈر پر تحریر تھا بلکہ تب ٹھیکیدار نے تعاون کرتے ہوئے کچھ زیادہ ہی تعاون کیا اور محلے میں کئی نئے گٹرتعمیر کرواکر دیے۔۔۔۔ یہ کام زعیم کو کرنا چاہیے تھا جو ہمیں محتصب کی عدالت کے ذریعے کرواناپڑی۔۔۔۔ 

۲۰۱۳گزشتہ
 کے الیکشن کی تیاریاں تھیں زعیم صاحب ہمارے علاقہ میں کیمپئن چلا رہے تھے۔ اسی دوران ایک دن کارنرمیٹنگ میں انھوں نے ایک شخص آصف رضا بیگ کا تعارف کروایا۔ پتا چلا کہ موصوف پی ٹی آئی کی ٹکٹ کے امیدوار تھے ٹکٹ نہ ملنے پر مسلم لیگ میں شامل ہوگئے ہیں۔ کچھ ہی دنوں کے بعد  قادری صاحب اسے اپنا بھائی قرار دے رھے تھے میں حیران تھا کہ پارٹی کی قیادت اور رفاقت میں انھوں نے کسی کو بھائی نہیں کہا اس شخص میں ایسی کیا خوبی ہوگی جو یہ چند دنوں میں ہی بھائی بن گیا۔ پارٹی کے رینکس میں سے پتہ چلا کہ آصف نے اپنی دولت کی چمک دیکھائی ہے۔ وہ قادری صاحب کو دوبئی کا ٹور کروا چکا ہے اور دونوں میں کسی کاروبار کی شراکت بھی ہونے جارہی ہے۔۔علاقہ کے بہت سے لوگ قاردی سے نالاں تھے مگرپارٹی نے انہیں ہی چنا ۔۔ بہرحال الیکشن ہوئے ۔۔۔ مسلم لیگ جیت گئی اور ایک بار پھر زعیم قادری صاحب ہمارے نمائندہ قرار پائے۔۔۔۔  وقت گزرتا گیا اور مقامی حکومتوں کے نمائیدے چننے کا وقت آگیا۔ ان الیکشنز میں ہم پر کھلا کہ زعیم قادری اور وحیدعالم میں سردجنگ جاری ہے اور دونوں الگ الگ امیدواروں کو علاقہ کا چیرمین منتخب کروانا چاہتے ہیں۔۔۔۔ اس بار زعیم قاردی نے اپنے نئے بنائے بھائی کی حمایت کا اعلان کردیا۔ علاقہ کے سب سے مقبول اور پرانے رہنما تنویرنثار کی حمایت کے بجائے آصف رضا بیگ کو چیرمین کی ٹکٹ کےلئے زور دیا۔۔۔۔ حمزہ شہاز جانتے تھے تنویر بہترین امیدوار ہے مگر قادری کے اسرار پر اس سیٹ کو اوپن کردیا گیا اور ٹکٹ کسی کو نہ دیا گیا۔ اس الیکشن مین زعیم قادری کا منہ بولا بھائی چیرمین کا الیکشن ھار گیا جسے اب وہ ایم پی اے کا امیدوار بنا کر لایا ہے۔ کل کانفرنس میں ان کا یہی بھائی ان کے بائیں طرف بیٹھا نظر آیا۔۔۔۔۔۔ مگر اس کی کانفرنس میں مسلم لیگ کی مقامی قیادت کہاں تھی؟

اب میں بات کرنا چاہتا ہوں میڈیا کے بہت پڑھے لکھے نظر آنے والے تجزیہ نگاروں کے تبصروں کا۔ میں ہمیشہ سے ان تجزیہ نگاروں کے تبصروں سے بہت کچھ سیکھتا آیاہوں۔ میرا خیال تھا یہ لوگ جس معاملہ پر بات کرتے ہیں یقینا ان کے پاس تصدیق یافتہ معلومات ہوتی ہوں گی اور اسی کی بنیاد پر یہ اپنے خیالات مرتب کرتے ہوں گے۔۔۔۔۔ کل جب جیو پر معزز تجزیہ نگاروں کو سنا اور زعیم صاحب کے حق میں دلائل دیتے سنا تو محسوس ہوا کہ یہ لوگ علم کی بنیاد پر نہیں بلکہ کامن سینس کی بنیاد پر تجزیے کرتے ہیں۔۔۔۔۔ میری تجویز ہے ان تمام تجزیہ نگاروں کو کہ سر آپ کو بہت سے لوگ سن رہے ہوتے ہیں اور آپ کی معلومات پر بھروسہ کررہے ہوتے ہیں خدارا تجزیہ کرتے وقت سوچا کریں کہ کیا میں اس بات پر حقیقی تجزیہ کرسکتا ہوں؟ اگر پوری معلومات نہ ہوں تو تجزیہ سے گریز کریں کیوں کہ مجھے لگتا ہے کہ معلومات کے بنا کامن سینس بھی نان سینس ہوتا ہے۔۔۔ 




No comments:

Post a Comment