Wednesday, August 12, 2015

بچوں سے زیادتی

بچوں سے زیادتی حالیہ واقعات نے میڈیا اور سیاستدانوں کو جھنجھوڑ دیا ہے۔ سب اس پر بات کرتے نظر آتے ہیں۔ سبھی لوگ اس کو ایسے اچھال رہے ہیں جیسے کوئی انہونی ہو گزری ہے اور اس پر حسب معمول موجودہ حکمرانوں کی درگت بنتی نظر آرہی ہے۔ اس میں کوئی مضائقہ بھی نہیں ضرور بننی چاہیے مگر میرے خیال سے یہ ایک وقتی بخار ہے جو میڈیا کے بریکنگ نیوز سیکشن کی وجہ سے ابھی عروج پر ہے جیسے ہی میڈیا کو کوئی نئی بریکنگ نیوز ملے گی یہ معاملہ بھی دوسرے بہت سے دیگر معاملات کی طرح دفن ہوجائے گا۔ خدا کرے ایسا نہ ہو بلکہ آرمی سکول کے بچوں کی شہادت کا جس طرح ردعمل آیا تھا میری دعا ہے کہ قصور کے بچوں اور ان کے والدین کے درد کو بھی بلکل اسی طرح محسوس کیا جائے۔ جس طرح ہم نے پورے ملک میں دہشت گردوں کے خلاف جنگ کا اعلان کیا تھا خدا کرے اس معاملہ پر بھی ہم ایسا ہی کچھ کرسکیں۔ مگر میرے خدشات مجھے چیخ چیخ کر صدا دے رہے ہیں کہ ایسا کچھ بھی نہیں ہوگا۔ جیسے ہی میڈیا کی توجہ دوسرے کسی معاملہ پر مرکوز ہوگی۔ سب نارمل ہوجائے گا۔ بچوں کی حفاظت کے لئے کوئی نیشنل ایکشن پلان نہیں بنے گا۔ ہم کبھی بچوں سے زیادتیوں کو سمجھنے کے قابل نہ ہو پائیں گے۔ ہم ایک ایسے جاہل معاشرہ کے افراد ہیں جس میں بچوں کی بلوغت کی عمر بھی متفقہ طور پر طے نہیں ہے۔ پوری دنیا میں ۱۸سال بلوغت کا سال طے ہے ہمارے قوانین میں بھی یہی کچھ لکھا ہے مگر معاشرہ قوانین سے نہیں افراد کے مجموعے کا نام ہے۔ ہمارا معاشرہ اس معاملہ پر تقسیم ہے۔ ہمارے یہاں کوئی طفلانہ عمر ۱۰سال تک کو گردانتہ ہے تو کسی کے مطابق ۱۲سال میں بچہ شادی جیسے نہایت سنجیدہ معاملات کا فیصلہ کرنے کےقابل ہوجاتےہیں۔(ریفرنس:ساحل)
ہمارے یہاں کے بڑے مسائل کیا ہیں اور کب ان پر ردعمل دینا ہے یہ سب کوئی اور طے کرتا ہے۔ معاشرتی گندگی ہروقت ہمارے اردگرد موجود ہوتی ہے مگر ہم اندھے بہروں کی طرح اس کے پاس سے گزرتے رہتے ہیں مگر جوں ہی کوئی کسی موضوع پر آواز اٹھاتا ہے ہم اس کے ہم آواز ہوجاتے ہیں۔ اور پھر سب کمزوریوں کو حکومتوں اور انتظامیہ کے سر تھومپ کر اپنی غفلت کا بھی بدلہ لے لیتے ہیں۔ بچوں سے زیادتی کو ہی لے لیتے ہیں۔ جوں ہی قصور کا مکروہ اور غلیظ واقع سامنے آیا تو ہم سب خود کو نیکوکار ثابت کرنے میں لگ گئے اور پھر ٹی وی پر ایک سے بڑھ کر ایک ارسطو نمودار ہوگیا۔  کسی نے معاشرتی بے حسی کی نشاندہی کی تو کسی نے حکومت کو ذمہ دار قرار دیا۔ مگر سوچنا تو یہ ہے کہ ہم لوگوں میں سے کتنے ہیں جو ان زیاتیوں پرکسی مصنوعی شور شرابے کے بعد بھی نوٹس لیں گے؟ کیا ہم نے کبھی ان بچوں کی ان چیخوں کو سننے کی کوشش کی جو ان کے بچپنے کو اندر ہی اندر سے کھاجاتی ہے؟ کیا ہمیں بچوں سے ہونے والی زیاتیوں کا واقعی شعور ہے؟ کیا ان کی اقسام سے ہم واقف ہیں؟ کیا ہمیں ان زیادتیوں کے عوامل معلوم ہیں؟ کیا ہمارے پاس اس معاشرتی بیماری کے اثرات اور اس کے ھجم کا کچھ بھی اندازہ ہے؟
مجھے لگتا ہے ان سوالوں میں سے بیشتر کا جواب ہے نہیں۔ اور یہی سب سے خوفناک صورتحال ہے۔ اور اس کے ہم سب ذمہ دار ہیں۔
جنسی زیادتی تو ایک عذاب ہے جس کا پاکستان میں ہر پانچ میں سے ایک بچے کو سامناہے اس کے علاوہ جسمانی زیادتی جذباتی زیادتی اور بچوں کو نظرانداز کئے جانا جیسے عذاب بھی ہیں جو ہمارے معاشرے میں بچوں کو کثرت سے برداشت کرنے پڑتے ہیں۔ اور ان کی اوسط جنسی زیادتی سے کہیں زیادہ ہے۔ کیا ہمیں معلوم ہےکہ بچوں سے زیادتیاں کرنے والوں میں زیادہ تعداد والدین، رشتہ دار اور واقف کاروں کی ہوتی ہے؟  کیا کبھی ان مسائل کو بھی سمجھنے کی سنجیدہ کوشش کی جائے گی کیا ہم اتنے بہادر ہوگئے ہیں کہ ان مسائل پر بھی بحث مباحثے کھلے عام کرسکیں؟ کیا مسند اقتدار پر براجمان حکمران اس پر کوئی نشنل ایکشن پلان دے سکیں گے؟ کیا ٹی وی کبھی بچوں کے مسائل کو پرائم ٹائم میں وقت دے سکے گا یا اسی طرح کسی دیوانے کو تماشہ رچا کر بریکنگ نیوز بنانا پڑے گی؟

No comments:

Post a Comment