Friday, July 3, 2015

کوئی شرم بھی ہوتی ہے کوئی حیاء بھی ہوتی ہے

 وطن عزیز کی پیدائش کے بعد ہمارے ملک کے باسیوں کے رویے بلکل نارمل قوموں کی طرح تھے۔ ہم لوگ جمہوریت سے بےپناہ محبت کرتے تھے۔ جمہوری رویے پنپ رہے تھے مگر پھرچند ”مخصوص” وجوہات کی بنا پر ہمارے ملک میں آمرانہ رویوں نے جگہ پانا شروع کردی۔ آمروں نے اپنے اقتدار کو مضبوط کرنے کے لئے سیاست اور سیاستدانوں کو ملعون قرار دیا اور باقائدہ منصوبہ بندی اور پلاننگ کے تحت اس سوچ کو قوم کی رگ و پے میں اتار دیا۔  آمرانہ سوچ نے ہمیشہ سیاست کو ”گندی چیز” کے طور پرہی پیش کیا اسی لئے کچھ لوگ جب بھی سیاست کی بات کرتے ہیں تو سیاست دانوں کوگالی دینا اپنا فرض سمجھتے ہیں۔ ان کے ہربیان میں سیاست اور سیاستدانوں سے نفرت اور حقارت نظر آتی ہے۔ برسوں کے اس پراپیگینڈہ نے بلآخر اثر دیکھایا اور ملک میں سیاست سے نفرت بڑھنے لگی۔ سیاستدان جو فوجی آمروں ہم پیالہ ہم نوالہ ہوگئے انھوں نے اپنے سیاسی بھائیوں کی پگڑیاں اچھالنا اپنا فرض جانا اور پھر فضاء ایسی پراگندہ ہوئی کہ ہم پاکستان کا ایک حصہ گنوانے کے بعد بھی سنبھل نہ سکے۔  نوے کی دہائی میں اگرچہ جمہوری حکومتیں تشکیل پاتی رہیں مگر آمرانہ سوچ کے ”مخصوص” طاقتوروں کی سازشوں نے سیاستدانوں کو ایک دوسرے سے الجھائے رکھا۔ سازشوں نے کوئی جمہوری حکومت چلنے نہیں دی۔ مگر سیاسی میدان لگنے سے ایک بات اچھی ہوئی کہ کچھ سیاسی لیڈرلوگوں کی چاہتوں کا مرکز بننے لگے۔  بےنظیر بھٹو اور میاں نواز شریف عوام میں مقبول ہوگئے اورملک میں دو جماعتی سیاسی نظام تشکیل پانے لگا۔ مگر پھر وہی پہیہ گھمایا گیا اور پرویز مشرف کی صورت میں ایک آمر نے ملک کی باگ دوڑ سنبھال لی۔ اس نے بھی اپنے سے پہلے گزرے آمروں کی طرح عوام کو سیاستدانوں کی کرپشن کا رونا رویا اور ملک کو ان کی کرپٹ پریکٹس سے نجات دلانے کا وعدہ کیا۔ مگر کیا ہوا کہ کچھ ہی عرصہ کے بعد اس نے خود ہی کرپشن کا بازار گرم کیا اور مسلم لیگ اور پیپلز پارٹی کی قیادت کا محاصبہ کیا کیا کہ دس سال سے زیادہ عرصہ تک ملعون قرار دیے گئے وہی لیڈر جب دوبارہ وطن واپس آئے تو جمہوریت کی دلدادہ عوام اپنے محبوب لیڈروں کو اپنے درمیان پا کر جیسے دوبارہ زندہ ہوگئی۔ جمہوری سرگرمیاں شروع ہوئیں تو آمروں کے زرخرید چیلے آہستہ آہستہ میدان سے باہر ہوتے گئے اور پھر دوبارہ دو جماعتی نظام قائم ہونے لگا۔ اسی دوران محترمہ بےنظیر کے قتل کا سانحہ ہوا اور پیپلز پارٹی برسرے اقتدار آگئی۔ اس حادثے نے جہاں ملک کی واحد خاتون وزیراعظم کی جان لی وہاں جمہوریت اور بالخصوص پیپلز پارٹی کا بہت بڑا نقصان ہوا۔  محترمہ کے قتل سے ان کے والد کی پارٹی پر قبضہ گروپ نے قبضہ جما لیا اور حکومت ملنے پر جو گند کیا اس کا نتیجہ اہل وطن نے تو برداشت کیا مگر پیپلز پارٹی لوگوں کے دلوں سے اتر گئی۔ جو کام آمر نہ کرسکا وہ کام پارٹی کے قبضہ گروپ نے خود ہی کردیا۔
پہلی مرتبہ صبر سے کام لیا گیا اور عوام کو جہموری حکومتوں کا احتساب کرنے کا موقع دیا گیا۔ اور پھر سب نے دیکھا کہ عوام نے جوکام کیا وہ ملک کے خودساختہ جینئیس آمر نہ کرسکے۔
عوامی احتساب نے ۲۰۱۳ کے انتخابات میں ملک کی تمام سیاسی قوتوں کے لئے بہت سے پیغامات دیے۔ سب کو نظر آگیا کہ جھوٹ کی سیاست زیادہ دیر کارآمد نہیں ہوتی اور  اس ملک کی عوام کو بے وقوف بنانا مشکل ہی نہیں بلکہ واقعتا نہ ممکن بھی ہے۔ جس قوم کی گھٹی میں جمہوریت ڈالی گئی ہو، جس ملک کو حاصل ہی جمہوری جدوجہد سے کیا گیا ہو اس ملک کی عوام کو اگرچہ آمروں نے جمہوری راستہ پر چلنے نہ دیا مگر جب جب ہمیں موقع ملا ہم نے ثابت کیا کہ ہم من حیث القوم جمہوریت پسند ہیں اور ہم کسی  بھی غیرفطری طریقہ حکمرانی کو قبول نہیں کریں گے۔  یہ پیغام تو بہت واضع تھا مگر آمروں کی جینئیس کلاس کو یہ سوٹ نہیں کرتا تھا اس لئے ایک مرتبہ پھراپنے مہروں کے بساط بچھائی گئی۔ احتجاجی سیاست کو دوبارہ ستر کی دہائی پر لانے کی کوشش کی گئی۔  اس مقصد کے لئے اس مرتبہ قرعہ جناب عمران خان اور علامہ قادری کے نام کا نکلا۔ سیکرٹ میٹنگز کے بعد اکٹھے ہو کر اسلام آباد پر حملہ آور ہونے کا سکرپٹ تیار ہوا اور پھر اس میں عوامی مصالحہ ڈالنے کے لئے منظم دھاندلی کا ڈول ڈالا گیا۔ کئی کہانیاں گھڑی گئیں۔ ملک کی کئی معتبر شخصیات کو ذلیل و رسوا کرنے سمیت ملک کی موجودہ تمام سیاسی قیادت کو اپنی ”مبارک زبان” سے القابات عطا کئے گئے۔ ایک سوبیس سے بھی زیادہ دنوں تک ملک میں بےچینی اور بے یقینی کی فضاء قائم رکھنے کے بعد کیا ہوا؟  دھاندلی کی پڑتال کے لئے جوڈیشل کمیشن کے بنائے جانے کے وعدہ پر دھرنا ختم ہوگیا۔ سب کو امید تھی کہ عمران اور اس کی پارٹی کمیشن میں وہ تمام ثبوت لے کر آئے گی جو وہ کنٹینرپر لہرایا کرتی تھی۔ کمیشن کی کاروائی کے دوران ثبوت منظر پر آئے مگردھاندلی کے خلاف نہیں بلکہ دھانلی کا شورمچانے والوں کے خلاف۔  ان کہانیوں میں سے ایک کا انجام ساری دنیا نے اپنی آنکھوں سے دیکھ لیا۔ سازشی عناصر نے بہت کچھ پلان کیا مگر وہ یہ بات بھول گئے کہ پروفیشل کام کے لئے اناڑیوں کو ہائیر کرنے سے معاملات چوپٹ ہوجاتے ہیں۔ جب تک تجربہ کار پروفیشنلز سے کام لیا گیا تب تک حالات ایسے نہ بگڑے کہ ہنڈیا بیچ چوراہے کہ پھوٹ جاتی۔ اس مرتبہ تو سازشی کردار خود بوکھلاہٹ کا شکار ہو گئے ہیں۔ اپنے ہی منہ سے اپنے کرتوتوں کا اقرار کرنے لگے ہیں۔ پینتیس پنکچرز کا معاملہ بالآخر سامنے آہی گیا۔ عمران خان نے اپنے منہ سے اقرار کر لیا کہ ” وہ تو ایک سیاسی بات تھی”۔۔۔۔۔ واہ خان صاحب ملک کو ایک سو بیس دنوں تک عذاب میں آپ نے ڈالے رکھا کئی لوگ جان سے گئے ملک کا معاشی نقصان کیا مگر وہ  سب تماشہ آپ کے لئے ایک سیاسی بات تھی۔ آپ اب ان نوجوانوں کے والدین کو کیا کہیں گے جو آپ کی خاطر وہاں جان کی بازی ہار گئے۔۔۔۔؟ آپ شاید یہ کہیں کہ میں نے توایک سیاسی بات کہی تھی ہر والدین کو اپنے بچوں کو خود سمجھانا چائے تھا۔ میرے بھروسے انھیں کیوں مرنے کے لئے میرے پیچھے آنے دیا۔۔۔۔ ان بہنوں اور بیٹیوں کو کیا جواب دو گے جو تمھاری خاطر معصوم بچوں کو لے کر ڈی چوک پر دھرنا دیتی رہیں اوروہاں اوباشوں کی حوس بھی نظروں کے تیر برداشت کرتی رہیں ۔۔۔۔۔ کیا ان کے لئے بھی بس یہی جواب کہ ”یہ تو بس ایک سیاسی بات تھی۔ ؟؟ ڈرو اس وقت سے جب تمھارے سب جھوٹ سامنے آنے لگیں گے اور تمھارے جوان ”فین کلب” کے خواب ٹوٹ جائیں گے۔  تب یہ نوجوان جس شدت سے تم سے محبت کرتے ہیں اتنی ہی شدت سے تم سے نفرت بھی کرنے لگیں گے۔ پھر جیسے تم آج لوگوں کی پگڑیاں اچھالتے ہو اسی طرح تمھاری عزت کو بھی چار چاند چوکوں اور بازاروں میں لگنا شروع ہوجائیں گے۔۔۔۔۔ اور وہ وقت دور نہیں ۔۔۔۔ وہ وقت دور نہیں کہ جیسی کرنے ویسی بھرنی۔

عمران خود ویسٹرن سٹائل کی ساری لائف گزارنے کے بعد جب سیاست میں آیا تو اس نے اپنا تشخص ایک اسلامی لیڈر کے طور پر بنانے کا ڈھونگ رچایا۔  اسے معلوم تھا کہ پٹھانوں میں اسے سب سے زیادہ ووٹ ملنے والے ہیں اسی لئے اس نے اپنا رخ جماعت اسلامی کی طرف رکھا اور کسی لبرل یا سینٹر کی جماعت سے رابطے بڑھانے کی بجائے ان سب کی چور ثابت کرنے کی کوششس کی۔ کے پی میں ووٹ حاصل کرنے کے لئے اسے طالبان سے محبت بھی بڑھانا تھی تاکہ اس کا بھی حال اے این پی جیسا نہ ہوجائے لہذا اس نے طالبان کی حمایت میں بھی دھرنے دیے۔ اس نے تو جماعت اسلامی اور کسی دوسری مذہبی جماعت سے بھی زیادہ طالبان کے درد میں رونے کا مظاہرہ کیا۔ عمران نے تو یہاں تک کہہ دیا کہ طالبان کو ملک میں دفاتر کھونے کی اجازت دی جائے۔۔۔۔ ان ساری کوششوں کا اسے ثمر بھی ملا اور اسے کےپی میں کافی مقدار میں ووٹ مل گیا۔ اور جناب نے اپنا وزیراعلی بھی منتخب کروالیا۔ مگر اب اس سوچ کا کیا کیجئے کہ عمران کو تو خود وزیراعظم بننا تھا۔  ووٹ نہ سہی اس کے پاس کافی بھاری جلسوں کا مینڈیٹ تو تھا جسے بقول عمران کسی نے سازش کےتحت چورا لیا تھا۔ عمران کو لگتا ہوگا کہ اس کے ساتھ تو ہاتھ ہو گیا۔۔۔ بڑے بڑے جلسے میں نے کیے اور وزیر کوئی اور بن بیٹھے۔ اگرچہ وزیراعلی اسی کی پارٹی کا ہے مگر جلسوں کے بھاری مینڈیٹ کا فائدہ تو دوسرے ہی لے رہے ہیں۔۔۔۔ ان کی اس بےچینی کو جمہوریت مخالف قوتوں نے خوب ایکسپلائٹ کیا۔ اس کو جھوٹی امید دلائی کہ مجمع لے کراسلام آباد پہنچو باقی ہمارا کام ہے۔ عمران کا اناڑی پن کام آیا اور صاحب ٹرک کی بتی پیچھے چل پڑے۔ پھر جو جو جھوٹ بولے گئے وہ سب اب تاریخ کا حصہ ہیں۔ مگر ۳۵ پنکچر والی سٹوری کا اصل سامنے آنے پر یہ ثابت ہو گیا کہ عمران جھوٹ کی سیاست کو اپنا استحقاق سمجھتا ہے عمران نے خود کہہ دیا کہ ”پینتیس پنکچر والی بات کا کوئی ثبوت نہیں ہے اس کا حقیقت سے کوئی تعلق نہیں ہے کیوں کہ وہ تو ایک سیاسی بات تھی۔ تو عمران خان نیازی صاحب یہ تھا آپ کا نیا پاکستان؟ خدا، خدا کرکے ہمارے سیاسی لیڈر سمجھدار ہوئے تھے سیاست میں اخلاقیات نے جگہ بنانا شروع کی تھی مگر آپ منظرپر نمودار ہوئے اور سب اخلاقیات کا بیڑا پار کردیا۔ شکر ہے خدا کا جس نے آپ کے نئے پاکستان سے پوری قوم کو بچا لیا۔۔۔۔

آخر میں ایک اور بات کا ذکر کرنا چاہوں گا۔ عمران نے کہا کہ پینکچر والی بات کسی نے کسی سے کہی اور پھر کسی دوسرے نے تیسرے سے کہی اور ٹوئیٹ ہو گئی۔ اس طرح ہم نے وہ بات اٹھا لی اور پھر متعلقہ اشخاص کی عزت پر خوب ہاتھ صاف کیا۔۔۔۔۔۔۔۔ عمران اور اس کی پارٹی یاد رکھنا چاہئے کہ ہم سب کے پیارے نبی اکرم نے فرمایا تھا کہ کسی کے جھوٹا ہونے کے لئے اتنا ہی کافی ہے کہ وہ جھوٹی باتوں کو آگے بڑھائے۔ آپ کے انقلابی کزن جناب علامہ طاہرالقادری کے الفاظ میں :

سنی سنائی بات پر یقین کرنا اور اُسے آگے پھیلانا ہماری قومی عادت ہے، حالانکہ ہم جس نبی اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے کلمہ گو ہیں، اُن کا فرمان ہے کہ ’’کسی کے جھوٹا ہونے کیلئے یہی کافی ہے کہ وہ سنی سنائی بات بلاتحقیق آگے بیان کرنے لگے۔‘‘

 عمران صاحب آپ کو اندازہ ہی نہیں ہوا کہ یہ پاکستان کتنا بدل چکا ہے۔ اب یہ وہ پاکستان نہیں جہاں سازشیں بنائی جاتی تھیں اور بہت آرام سے اس پر عمل بھی ہوجاتا تھا۔ آج فوج کا چیف ایک سچا اور محب وطن سپاہی ہے جس کی نظر میں اس کا اولین فرض  ملک کی سلامتی کے لئے جہاد کرنا ہے۔ آج سیاسی لوگ پہلے کی نسبت زیادہ باشعور ہیں تبھی تو کسی نے آپ کی کال پر لبیک نہیں کہا۔ اور تو اور آپ کی اتحادی جماعت نے بھی آپ سے اس معاملہ پر فاصلہ ہی رکھا۔
میں ایک ادنا ووٹر کی حیثیت سے آپ سے اتنا عرض کروں گا کہ ابھی بھی وقت ہے سدھر جاو ورنہ۔۔۔۔ بہت جلد آپ کو ساری قوم خواجہ آصف کے الفاظ میں کہتی ملے گی: ” عمران خان کوئی شرم بھی ہوتی ہے کوئی حیاء بھی ہوتی ہے کوئی اخلاقیات بھی ہوتی ہیں”

No comments:

Post a Comment