Tuesday, June 16, 2015

موذی لیڈروں کی دھاندلیاں

کئی دنوں سے لکھنے کا سوچ رھا تھا مگرروزگار کے مسائل نے چاروں طرف سے گھیرا ہو تو لکھنے لکھانے کا یا کوئی بھی تعمیری کام کہاں ہوپاتا ہے۔ اب کچھ معاملات معمول پر آئے ہیں تو بہت سے موضوعات پر قلم کاری کرنے کو جی مچل رھا ہے۔ گزشتہ کچھ دنوں میں کئی واقعات ایسے ہو گزرے ہیں جن پر تبصرہ کرنا چاہتا ہوں۔ جی کوڑا کریں اورمیری گزارشات کو پڑھ ہی ڈالیں۔

برمی مسلمان:
سب سے پہلے تو میں برما میں ہونے والے ھولناک واقعات کی مذمت کرتا ہوں۔ میں حیران ہوں کہ بدھ مت لوگوں کی غصہ اور نفرت نے کیسے مت ماردی کہ وہ اپنے تمام اخلاقیات ہی بھول گئے۔ ان کے مذہب میں تو کسی کیڑے مکوڑے کو مارنا بھی قابل مذمت اور قابل ندامت ہے پھر وہ انسانوں سے درندگی کا مظاہرہ کیسے کررہے ہیں؟ مگر پھر سوچتا ہوں کہ ہم اپنے گریبان میں دیکھیں تو شاید ایسی درندگی یا اس سے بھی زیادہ درندگی کا مظاہرہ کرچکے ہیں۔ طالبان جو مسلمان ہونے کا دعوی کرتے تھے انھوں نے مخالفوں کی گردنیں جسموں سے الگ کر کے ان سے فٹبال کھیلے ہیں۔ اور اس پر کبھی ہمارا ضمیر نہ جاگا۔ مسلمانوں کو ایک قوم یا امت کہنےوالے تو بہت ہیں مگر مشکل وقت میں وہ صرف اپنی املاک کی توڑپھوڑ کرنا اور جلاو گھراو کرنا ہی جانتے ہیں۔ ان کی دھینگا مشتیاں کوئی مثبت پیغام دینے کی بجائے دنیا کو یہ ظاہر کرتی ہیں کہ ہم نے ابھی تک وقت سے کچھ نہیں سیکھا۔ دوسری طرف ہمارے حکمران ہیں جویا تو عیسائی دنیا کے مقروض ہیں یا پھراپنی کمزوریوں اور عیاشیوں کے ہاتھوں مجبور اس لئے مذمتوں سے زیادہ وہ بےچارے کچھ نہیں کرسکتے۔
کاش ہماری آواز ایسی ہوتی کہ وہ دلوں پر اثر کرپاتی۔ مسلمان چیختے رہتے ہیں مگر مہذب دنیا پر کوئی اثر نہیں ہوتا۔ مجھے یہ جان کر تسلی ہوئی کہ ملالہ یوسفزئی نے بہت پر اثر انداز سے دنیا کے لیڈروں سے روہینگیا کے مسلمانوں سے غیرانسانی سلوک کو فوری طور پر روکنے کی اپیل کی ہے۔ ہماری یہ واحد آواز ہے جس کو دنیا نہ صرف سنتی بلکہ ذہنوں کو بدلنے کی تاثیر بھی رکھتی ہے۔ ایک اور امن کے لئے انعام یافتہ محترمہ ہیں۔ برما کی محترمہ آنگ سن سو جنھوں نے امن کا نوبل انعام حاصل کررکھا ہے۔ اب جب انھیں کے ملک کے مسلمانوں پر افتاد پڑی ہے تومحترمہ پراسرار طور پر خاموش ہیں۔ نوبل انعام دینے والوں سے عرض ہے کہ جیسے آپ کسی شخص کی خدمات کو سراہتے ہوئے اس کو نوبل انعام سے نوازتے ہیں اسی طرح کوئی طریقہ وضع کریں کہ اگر وہ شخص اپنی خدمات کو معمولی مفادات پر قربان کرنے لگے تو اس سے وہ اعزاز واپس لے لیا جائے۔

انتخابات:
دھاندلی کا رٹ لگانے والوں کو ان ہی کے اعمال و اقوال بھوت بن کر ڈرانے آپہنچے ہیں۔ کنٹینرز کو ٹاپ گئر پر رکھ کے اسلام آباد آئے اورپھرامپائرکو ڈھونڈتے رہ گئے۔ انتخابات کیا ہوتے ہیں اور ان کا انعقاد کتنا ذمہ داری کا کام ہوتا ہے اس کا اندازہ عمران ٹلی کو اب خوب ہوچکا ہوگا۔ عمران ٹلی دھرنے کے دنوں میں مجھ سے بہت بحث کرتا تھا اس کا خیال تھا کہ خاں صاحب نے جو کہہ دیا کہ دھاندلی ہوئی ہے تو بس ہوئی ہے۔ حکومت کو جانا چائیے۔ مگر اب میرا یار عمران ٹلی کے پی کے انتخابات پر کچھ مایوس اور خاموش سا ہو گیا ہے۔ اب اسے میں کیسے سمجھاوں کہ بڑے بڑے دعوے کرنا اور دوسروں پر تنقید کرنا دنیا کا سب سے آسان کا ہے مگر گراونڈ پر کچھ کرکے دیکھانا بہت زور مانگتا ہے۔ خان صاحب نے کرکٹ کے بعد آسان راستہ اپنانے کی کوشش کی اوراسے لگا کہ سیاست شاید آسان کام ہے۔ کرنا بس یہ ہے کہ اپنے پارٹی جلسوں میں دوسروں کی پگڑیاں اچھالو اور ڈھیر سارے ووٹوں کے ساتھ اسمبلی پہنچ کر حکومت بنالو۔۔۔۔۔۔۔ ظاہری طور پرتو ایک ریٹائرڈ کرکٹر کے لئے میچوں کی کمنٹری سے بھی زیادہ آسان کام تھا مگر جناب انھیں کیا معلوم تھا کہ: یہ تو قتل گاہ الفت میں قدم رکھنے کے مصداق ہے۔ خیر عمران ٹلی سے میری گزارش ہے کہ جناب! اپنے قاید کو سمجھاو کہ محترم اب سنجیدہ ہوجاو اوراپنی سیاست میں کچھ پختگی اور ذہانت کا مظاہرہ کرو تاکہ اگلے دنگل میں کچھ کارنامہ دکھانے کے لائق بن سکو ورنہ ایسا ہی رویہ رہا تو پھر ریورس گئیر ہی نہ لگ جائے۔

ضرب عضب کی سالگرہ:
ہمارے ملک میں جو سب سے کمال کا کام ہورہا ہے وہ ہے ضرب عضب۔ اس مشن کا سال مکمل ہو چکا ہے اور میری بہادر افواج نے بےشمار کامیابیاں سمیٹی ہیں۔ ہزاروں ملک دشمن دہشتگردوں کو جہنم رسید کیا ہے اور اس جنگ میں میرے بہت شیردل شہید ہوئے ہیں۔ ان کی شہادت کا صدقہ ہے کہ آج دہشت گردی کے واقعات نہ ہونے کے برابر رہ گئے ہیں۔ ہمارے چیف آف آرمی سٹاف محترم راحیل شریف نے واضع طور پر بتا دیا ہے کہ آخری دھشتگرد کی موجودگی تک یہ جنگ جاری رہے گی۔ اندرونی گندگی کو مٹاتے دیکھ کر بھارت کے لیڈروں کا رونا شروع ہوگیاہے۔ ان کا مختلف ہیلےبہانوں سے پاکستان مخالف بیانات دراصل ان کے اندر کی پریشانی کی نشانی ہے۔ انھیں صاف نظر آرھا ہے کہ پاکستان واپس ترقی کے راستے پر گامزن ہونے جارہا ہے۔ ایک طرف تو پاکستانی افواج نے دھشتگردوں کا صفایا شروع کردیا دوسری طرف نوازشریف کی سیاسی تدبروتحمل کی وجہ سے چاروں صوبوں میں ایک یگانگت اور ورکنگ ریلیشن شپ موجود ہے۔ ملکی معیشت کو دوبارہ پٹڑی پر چڑھایا جا رہا ہے۔ چین سے ساتھ ملکر میگاپروجیکٹس پر کام شروع ہونے والا ہے جو کہ اس ریجن میں گیم چینجرہوگا۔ اس ساری مثبت خبروں نے بھارتی لیڈروں کی نیندیں حرام کردی ہیں۔ اس نیند حرامی کا مجھے افسوس ہے۔ پڑوسی کو چین آئے ہماری تو دعا ہے مگر جناب موزی صاحب اب آپ کے اور پاکستان کے ہر دشمن کے نصیب میں بےچینی لکھی ہے تو بتائیں ہم کیا کرسکتے ہیں۔ اب آپ کے چین کے لئے ہم اپنے آئرن فرینڈ چین کو تو چھوڑ نہیں سکتے نہ۔۔۔۔۔

موذی لیڈر:
بھارتی وزیراعظم مودی نے بنگلہ دیش میں فرمایا کہ بھارتی افواج مکتی باہنی کے روپ میں لڑی اور پاکستان کو شکست دی۔ مشرقی پاکستان کا بنگلہ دیش بننا ایک حقیقت ہے جس سے کوئی انکار نہیں۔ یہ یقینی طور پر ایک افسوس ناک اور دردناک واقع تھا مگر اس کا ایک دوسرا پہلو بھی ہے اور وہ یہ کہ پاکستان ایک الگ ریاست بنا تھا ایک نظریے کے تحت اور کچھ لوگوں کا خیال ہے کہ بنگلہ دیش بننے سے وہ نظریہ فیل ہوگیا۔ ایسا کچھ نہیں ہے بلکہ اس تقسیم نے تاریخ سے صفحوں پر سنہرے حروف سے لکھ دیا کہ پارٹیشن کا مطالبہ بلکل درست تھا۔ ایک تو ہندو اور مسلمان دو مختلف المزاج اقوام ہیں اوردوسرے ہندووں کی صدیوں کی غلامی انھیں کبھی مسلمانوں سے امن کے ساتھ رہنے نہیں دے گی۔ ایک مسلمان ملک مزید جتنے بھی نئے ملکوں میں تقسیم در تقسیم ہوجائے مگر وہ کبھی دوبارہ بھارت نہیں بن سکتا۔ بھارتی سازش کرنے والوں نے اور اکھنڈ بھارت کا خواب دیکھنے والوں نے اپنے ہی پاوں پر کلھاڑی چلادی۔ ہم نے تو بھارت کے دو ٹکڑے کیے تھے بھارتی لیڈروں نے اعتراف کیا ہے کہ انھوں نے بھارت کے دو ٹکڑوں پر اکتفاء نہیں کیا بلکہ اپنی بصارت سے اس کے تین ٹکڑے کردیے ہیں۔ اور اب ان کے اکھنڈ بھارت کا سپنا اور بھی زیادہ باریک کرچیوں میں ریزہ ریزہ ہوچکا ہے۔ یہ بات جس دن بھارتی سیانوں کو سمجھ آئے گی اس دن وہ اپنے موذی لیڈروں سے ان بےوقوفیوں اور ان کی ان موذی دھاندلیوں کا حساب بھی ضرور مانگیں گے۔ مگرجنونی ہندووں کو عقل کے ناخن لینے کی منزل ۔۔۔۔ ہنوز دور است۔

No comments:

Post a Comment