شاید ہم اس کے بہت نزدیک پہنچ چکے ہیں۔ میمریسٹرز ایسے ہی برتاو کرتے ہیں جیسے کہ دماغ کے نیورون۔ اس خیال کے خالق لیون چوہاو ہیں۔ اس میمریسٹرمیں یہ صلاحیت ہوتی ہے کہ پاورآف ہونے پر وہ آخری ویلیو کو محفوظ کرلے۔ ۲۰۱۲ میں ایچ ایل آر لیباریٹریز اور میشیگن یونیوسیٹی کے چند ریسرچرز نے ایسا پہلا میمریسٹر بناڈالا۔ اس کے بعد اس فیلڈ میں اور زیادہ ریسرچ شروع ہوگئی۔
اپریل ۲۰۱۵ میں نارتھ ویسٹرن یونیورسیٹی کے سائنسدانوں نے ریسرچ چھاپی جس کے مطابق وہ دو کے بجائے تین ٹرمینل کا میمریسٹر بنانے میں کامیاب ہوگئے ہیں۔ یہ ایک بہت بڑا معرکہ ہے۔ اس تین ٹرمینل والے میمریسٹر کی مدد سے لوجیکل فنکشنز کا راستہ کھل گیا ہے۔ اور اب میمریسٹر نیورون کے فنکشنز کی کاپی کرنے کے قابل ہو جائے گا۔ اب جس چیز کی ضرورت محسوس ہورہی تھی وہ یہ کہ نیورون ویلیو یاد رکھنے کے علاوہ اپنے سگنل بھی بھجواتے ہیں۔ اس کے لئے چند دیگر سائنسدانوں نے میمریسٹرز کو کپیسٹرزکو ساتھ ملا نے کے تجربات کئے ہیں اس نئی ایجاد کو انھوں نے نیوریسٹر کا نام دیا ہے۔ اس میں اب نہ صرف یاد رکھنے کی صلاحیت موجود ہے بلکہ موجود ڈیٹا کے مطابق سگنک بھیجنے کی صلاحیت بھی آگئی ہے۔
میمرسٹرز اور نیوریسٹرز بنیاد ہیں اس نئے کمپیوٹر کی جو دماغ کی طرح کام کرنے کی صلاحیت رکھتا ہوگا۔ اس کمپیوٹر کو سائنسدان نیورومورفیک کمپیوٹرز کہتے ہیں۔ یہ عام کمپیوٹرز سے تعمیری ڈھانچے میں بہت مختلف ہونگے۔ کیوںکہ موجودہ کمپیوٹر سسٹمز دماغی صلاحیتوں کو کاپی کرنے کے لئے ناکافی ہیں۔
میمریسٹرز اور نیوریسٹرز کی ایجاد ایک نیا انقلاب لانے کا باعث ہوسکتے ہیں۔ ان کی بھاری مقدار میں معلومات کو متوازی پراسس کرنے کی خاصیت انھیں ویسا ہی دماغ مہیا کرسکتی ہیں جیسا کہ ان کو بنانے والے کا ہے۔
No comments:
Post a Comment