Wednesday, August 13, 2014

انقلابی لوٹ سیل ... ایک کے ساتھ ایک فری

کیسے کیسے تیسمارخان, اپنا نقاب اتار کر ننگے ہوتے جا رہے ہیں. ہمارے زوال کے سرخیل دانشور حضرات ہمارے سب سے بڑے دشمن ہیں. انھیں پہچاننا اور ان کی زلفوں کےاژدھوں سے بچ پانا ہر ایک کے بس کی بات نہیں ہے. یہ وہ چڑیلیں ہیں جو ایک خوبصورت حسینہ کے بھیس میں سامنے آتی ہیں. ان کی باتوں میں محبت کی چاشنی نظر آتی ہے مگر دراصل کسی دیو کا ترنوالہ بنانے کی تیاری ہوتی ہے. یہ لوگ ہمیں انقلابی درندوں کے دسترخوان کا نوالہ بنانے کے لئے موجودہ کمزور مگر پرامن نظام سے نفرت دلاتے نظر آتے ہیں. یہ لوگ خود یا ان کی اولادیں تو کبھی عوام کے بیچ نظر نہیں آئیں گے لیکن ان کے لفظی منتروں میں یہ جادو ضرور ہوگا کہ ہم عوام خود بخود اس جال میں پھنس جائیں اور اپنی اولادوں کو بھی اس ست رنگی پکوان کی خاطر قربانی کے لئے حاضر کردیں.

حسن نثار ان لوگوں میں سے ہے جو عرصہ دراز سے بہت کھلے لفظوں میں ملک میں انقلابی درندگی کو آواز دیتا آیا ہے. یہ شخص ہر وقت زہر اگلتا نظر آتا ہے. اس کماش کے لوگ کبھی کسی چیز میں مثبت پہلو نہیں دیکھ سکتے. کیوں کہ ان کی تربیت صرف اور صرف گندگی دیکھنے  اور دیکھانے کے لئے ہوئی ہے. گالیاں دینے اور دوسروں کی تزلیل کرکے اپنے آپ کو عظیم ثابت کرنے میں لگے ہوتے ہیں. الفاظ کا کاروبار کرنے والے ایسے لوگ کھلم کھلا گالیاں نہ دے سکنے پر دوسروں کو جانوروں سے تشبہ دے کر اپنی انا کی تسکین کرتے ہیں. اس شخص کا کوئی کالم اٹھالیں اس نے قومی لیڈروں کو اکثر جانوروں سے تشبیھ دی. میرا ملک اور اس کا ظرف کتنا عظیم ہے جو اس طرح کے لوگوں کو عوام اور اس کے محبوب لیڈروں کے بارے میں گندی زبان استعمال کرنے پر بھی کوئی قدغن نہیں لگاتا. لگائے بھی کیسے کہ یہ ان کا جمہوری حق ہے..... کسی کوگالیاں دینا ہو یا انقلاب کے نام پر غریبوں کی اولاد کو قربان کرنا ہو, عوام کی املاق کا نقصان ہو یا معیشت کا بیڑا غرق کرنے کا منصوبہ..... سب ان انقلابی درندوں کا جمہوری حق...... اگر حکومت عوام کی جان ومال کی حفاظت کے لئے کوئی اقدام کرے تو حسن نثار جیسے انقلابی دانشوروں کو شاہی خاندان کے تحفظ کے لئے کی جانے والی کوشش نظر آتی ہے.

وطن عزیز میں یہ تماشہ پہلی مرتبہ نہیں ہورہا. جب بھی ملک میں جمہوریت قائم ہوتی ہے اس طرح کی مخلوق کسی نہ کسی روپ میں ظاہر ہوجاتی ہے. کبھی یہ ضیاء الحق کے اسلامی انقلاب کا نقاب پہن کرآتی ہے اور کبھی مشرف کی روشن خیالی کا دھوکا لے کر آتی ہے. ایسی صورتحال میں غریب کا روزگار بھی جاتا رہتا ہےاور کبھی کبھی اس کی جان بھی جاتی ہے مگر الفاظ کا کاروبار کرنے والوں کا خوب فائدہ ہوتا ہے. بہتی گنگا میں یہ نہانے کے لئے یہ بھی ننگے ہوکر سامنے آجاتے ہیں. انقلاب عوام کی زندگی میں بےچینی, بےروزگاری, مالی نقصان اور بہتوں کےلئے جانی نقصان لاتا ہے. یہ سب قربانیاں دے کربھی اگر عوام کی زندگی بدل جاتی ہو تو پھرآنے والی نسلوں کے لئے کی جانےوالی ان قربانیوں پر کوئی کیوں اعتراز کرے گا مگر بدقسمتی سے ہوتا کیا ہے. عوام کی قربانی بھی ہوجاتی ہے اور سٹیٹس کو پھر بھی برقرار رہتا ہے صرف اتنا ہوتا ہے کہ ملک اور اس میں رہنے والے عوام مزید کمزور ہوجاتے ہیں. اصل انقلاب تو آتا ہے ان انقلابی لیڈروں اورانقلابی لکھاریوں کی زندگیوں میں. ان کے کاروبار اور ان کے فنڈز میں کئی گنا اضافہ ہوجاتا ہے. انقلابی لیڈروں کو بارگین کا مارجن مل جاتا ہے اور حکمرانوں سے اپنے لئے مزید بہتر سہولیات لے جاتے ہیں. قادری کے گزشتہ انقلاب میں کیا تھا. اس کی انقلابی گندگی کو اسلام آباد انتظامیہ کتنے دنوں تک صاف کرتی رہی تھی. ابھی کل کی تو بات ہے. اور اب انقلاب کی دوسری کوشش.... اور ایک بار پھر اسلام آباد ہی انقلاب کا مرکز..... اب کی بار انقلاب پلان کرنے والوں نے ڈبل امپیکٹ کے لئے قادری کے ساتھ عمران کو بھی چلادیا ہے. عوام کے لئے انقلابی لوٹ سیل ... ایک کے ساتھ ایک فری ہے

رات وزیراعظم کی تقریر کے بعد اور جوڈیشل کمیشن کے اعلان کے بعد انتخابی دھاندلی کے نام پر مارچوں اور دھرنوں کی کوئی گنجائش تو باقی نہیں بچی لیکن اگر کوئی یہ سمجھ بیٹھے کہ عمران یا قادری اب اپنے ارادوں سے بعض آجائیں گے تو اس سے زیادہ ناسمجھی کی اور کیا بات ہوگی. ایک سال پہلے حامد میر نے جس طرف اشارہ کیا تھا وہ سامنے دیوار پر لکھا نظر آرھا ہے. عوام ششدراور گنگ ہوچکی ہے کہ مشرف کے پٹھو کیسے کیسے بھیسوں میں ظاہر ہورہے ہیں. ایک طرف تو ہم لوگ پاکستان کے سب سے بڑے مسئلوں سے نبردآزما ہیں اور دوسری طرف سانپ گزر جانے کے ایک سال بعد رسی کو پیٹا جا رہا ہے... نہیں رسی کو نہیں بلکہ یہاں تو غریب عوام کو پیٹا جارھا ہے جس نے مشرف کے لاڈلوں کو جیتنے نہیں دیا. بےشرمی اور بےغیرتی کی انتہا ہے کہ ہماری بہادر فوج ہمارے وقت کے سب سے بڑے دشمن سے حالت جنگ میں ہے. لاکھوں کے تعداد میں بےگھر صوبہ پختونخواہ میں پناہ لئے ہوئے ہیں.صوبے کے وزیراعلی جناب پرویز خٹک صاحب تو پختونوں کو یہ سمجھانے میں مصروف ہیں کہ چلو سب مل کر وفاقی حکومت الٹانے نکلتے ہیں. آئی ڈی پیز تو ادھر ہی ہیں ان سے بعد میں نبٹ لیں گے.... ہم نہ تو فوج کے مورال کو بلند کرنے کے لئے اس کی ہمایت میں کچھ اجتماعی پیغام دے رہے ہیں نہ فوج اور حکومت کو اس بات کا کریڈٹ دینے کا حوصلہ پارہے ہیں کہ پہلی مرتبہ ملک میں ایسا وقت آیا ہے کہ ہم دھشت گردے کےخوف کے بخیر عید کرپائے. اس کے لئے داد و تحسین کے مستحق میرے وہ فوجی بھائی ہیں جنھوں نے یہ عید ان خونخوار درندوں سے لڑتے گزاری. پاک فوج زندہ باد... پاکستان پائندہ باد

آخر میں اب میں اپنے ان دوستوں سے درخواست گزار ہوں جو عمران یا قادری کے ماننے والے ہیں

.... دوستو! خدا کے لئے پارٹی اور ذاتی مفاد سے بالاتر ہوکر ملک اور قوم کی سوچ پیدا کریں. یاد رکھیں انقلابی لوگ صرف اور صرف تباہی اور بربادی ہی لاسکتے ہیں. انقلاب سے موجودہ نظام تباہ تو ہوسکتا ہے مگر اس کا لازمی نتیجہ یہ ہر گز نہیں ہوتا کہ اس کے بدلے کوئی بہتر نظام قائم ہوجائے گا.... بلکہ قوم کمزور ہوتی ہے اور پہلے سے بھی بدتر حالات ہوجاتے ہیں... یہ جو جمہوریت کے مخالف کہتے ہیں کہ اس سے تو صرف چہرے ہی بدلتے ہیں تو یہ بات لکھ کے رکھ لو کہ انقلاب کے بعد آمریت کا دیو قابض ہوجاتاہے اورچہروں کےبدلنے کا یہ سلسلہ بھی بند ہوجاتاہے. تبدیلی چہروں کے بدلنے سے ہی آئے گی. قومیں مسلسل صرف ایک ہی راستے پر چلتے رہنے سے ترقی کرتی ہیں. ہم گمراہ ہوئے یا ہمیں کیا گیا اور ایک گول چکر میں ہی پچاس سال تک سفر کرتے رہے ہیں. اب اگر جمہوریت کی سواری ہمیں میسر آہی گئی ہے تو اس کو اپنی منزل پر پہنچنے کے لئے چلتی رہنے دیں اور سازشی ٹولوں کے دست وبازو نہ بنیں.... ایک سال قوموں کی زندگی میں کیا حیثیت رکھتا ہے خاص طور پر ہماری قوم جس میں حقیقی لیڈرشپ کی قلت اور شعبدہ بازوں کی بہتات ہے. یہاں تو ہر جھوٹا شخص جو ہرروز نیا بیان دے اور دھوکے بازی میں مشہور ہو اس کو اپنا لیڈرمان لیا جاتا ہے... زرہ صبر سے کام لیں اور اپنے پیروں اور لیڈروں کو بھی اس کی تلقین کریں کہ اسی میں قوم کا مستقبل پوشیدہ ہے.... بےصبری سیاست سے کچھ حاصل نہ ہوگا.... جمہوریت اور اس میں حاصل شدہ حقوق کو وہ ماچس نہ بنائیں جو کسی بندر کے ہاتھ لگی تھی تو اس نے پورا جنگل ہی جلاڈالا تھا.

1 comment: