Sunday, July 13, 2014

unless he is a journalist


آمریت نے جہاں ملک کے سیاسی کردار کو رگڑا دیا ہے وہیں معاشرے کے دیگر کردار بھی مسخ ہوئے بغیر نہیں رہے. اکثر محسوس ہوتا تھا کہ ہمارے معاشرتی بگاڑ میں ہمارے دانشوروں کا بھی اتنا ہی ہاتھ ہے جتنا آمروں کا. حقائق کو چھپانا یا ان کو موڑ توڑ کر کسی اور شکل میں پیش کرنا کرپٹ دانشوروں کا سرمایہ تو ہوسکتا ہے مگر جب جلیل القدر اصحاب بھی اسی گنگا میں نہاتے ملیں تو دل خون کے آنسو روتا ہے. جناب ایاز امیر ملک کے مشہور لکھاری ہیں میں ان کا ایک ریگولر قاری ہوں. ان کی رائے سے اپنی رائے بناتا رہا ہوں ان کی فراہم معلومات کو مصدقہ جانتا ہوں اور ان کے خیالات سے اپنی کائنات کے روز و شب روشن کرتا ہوں. آپ کا کالم " افسوس کہ ہوگا کچھ بھی نہیں" (12جولائی .2014) نظر سے گزرا تو چند تحفظات نے میرے ذہن میں جنم لیا. آپ کے خیالات میں سخت قسم کا تضاد ہے. آپ نے سال پہلے مجھے کچھ اور باتیں سمجھائیں مگر اب آپ کچھ اور ہی فرمارہے ہیں. اسی حوالے سے چند گزارشات جناب کی خدمت میں حاضر ہیں

محترم ایازامیر صاحب آپ کے کالم کا پہلا فقرہ ہی اس بات کی غمازی کرتا ہے کہ آپ موجودہ حکومت سے کس قدر مخاصمت رکھتے ہیں. آپ نے فرمایا کہ "جمہوری حکومت اور فوجی حکومت دونوں ایک سکے کے دو رخ ہیں. اور دونوں ہی ہمارے مسائل کے ذمہ دار ہیں." میں آپ کی بات سے کسی قدر متفق ہوں مگر آپ کو چائیے کہ فوجی اور جمہوری حکومتوں کے ادورا کے حساب سے ان کے حصے میں جس قدر ذلت آنی چائیے اس کا ذکر بھی کردیتے. بتاتے کہ ہمارے ملک میں جمہوری رویے پیدا ہی نہیں ہونے دئیے گئے. آپ کیوں نہیں بتاتے کہ آج اگر کچھ ملک میں قابل فخر موجود ہے تو وہ سب جمہوری لوگوں کا ہی پیدا کردہ ہے ورنہ باقی سب تو گند ہی کرگئے ہیں. آپ کو آزادی اپنے لئے تو اچھی لگتی ہے کیوں کہ اس سے آپ روزی کمالیتے ہیں مگر آپ پوچھتے ہیں کہ اس سے کسی مزدور اور کسان کو کیا فائدہ تو جناب اسی آزادی رائے کی وجہ سے تو بھٹو مزدوروں اور کسانوں کے دلوں میں بس گیاتھا کیا بھٹوصاحب نے مزدوروں اور کسانوں کے لئے روٹی کپڑا اور مکان کا وعدہ کبھی پورا کیاتھا... نہیں مگر آج بھی اس کے نام پر مزدور مرمٹنے کو تیار ہیں. اس شخص نے مزدوروں کو آواز دی تھی آزادی دی تھی روٹی نہیں.... رشوت ستانی یا معاشرتی برائیوں کو مٹانے کا کوئی آپ کے پاس اس کے علاوہ تیزتر کلیہ ہے تو بتادیں ورنہ... رشوت سے ستائے لوگوں کی آواز بلند ہونے سے ہی اس برائی سے نجات کا کوئی راستہ نکل سکتا ہے. جتنی زیادہ آواز بلند ہوگی اتنا اس کے سدباب پر اھل حل و عقد مجبور ہوں گے. آمریت کی سب سے بڑی طاقت ہی یہی ہوتی ہے کہ وہ آتے ہی سب کو خاموش کرواتے ہیں. اور اس کے بعد مسلسل آوازوں کو دبا کے رکھتے ہیں.... اور جب آواز کا والیوم کھل جاتا ہے جیسا کہ پرویز مشرف سے ہوگیا تو پھر اس کا حشر بھی سب نے دیکھ لیا. اسے مجبورا اپنی کھال بھی اتارناپڑی اور صدر کی کرسی بھی گئی. اس کے ساتھ ساتھ میڈیا نے عوام کو باشعور بنانے میں کچھ کردار تو ضرور ادا کیا ہے. تبھی تو اس دفعہ کارکردگی اور نئی امید کو ووٹ پڑے. اب اگر نئی امید کو یہ امید تھی کہ وہ سارا میدان ہی لوٹ لے گی تو اب عوام اتنے بھی بھولے نہیں رہے.... ہماری حس جمالیات میں بھی اضافہ ہوگا.... ذرہ رکیں سر.... ابھی بہت سفر باقی ہے ابھی تو ہم نے پہلا قدم اٹھایا ہے جمہوری دور ایک سنگ میل طے کرپایا ہے ایک جمہوری حکومت سے دوسری حکومت کا آغاز ہونا پاکستان کی تاریخ میں پہلے کبھی ایسا نہیں ہوا.... کیا یہ سفرآپ کو بہتری کا اور قائداعظم کے ملک پاکستان کا سفر نہیں لگتا.


ضیاء کے دور کے بعد کے جمہوری دور کا ذکر کرتے ہوئے آپ نے فرمایا کہ پہلے آمریت کا جبر تھا اب جمہوریت کی بدعنوانی کا دور دورا ہے... آپ بطور دانشور مجھے سمجھائیں کہ جبر کا دور بہتر ہوتا ہے کہ بدعنوانی کا... میرے خیال میں جبر سے بری اور کیا چیز ہوگی جس میں آپ کے جسموں کے ساتھ ساتھ سوچوں کو بھی غلام بنادیا جاتا ہے. جبر میں پیدا ہونے والے دانشور کبھی جمہوریت کی سختیوں کو برداشت کرنے حوصلہ کھوج نہیں پاتے. انھیں جبر کی فضاء ہی رآس آتی ہیں اور وہ اسی کے گن گاتے نظر آتے ہیں. جمہوریت کوئی جادو کی چھڑی نہیں کہ ادھر گھمایا اور ادھر نتیجہ سامنے... اس کے ثمرات حاصل کرنے کے لئے نسلوں تک ایک ہی ڈگر پر سفر کرنا پڑتا ہے. ہمارا قبیلہ تو کبھی بھی جمہوری راستہ پر ایک دہائی تک بھی سفر نہ کرسک پھر ہم کیوں ان ملکوں کی مثالیں دیتے ہیں جنھوں نے صدیوں تک بےروک و ٹوک اس منزل کی جانب سفر کیا.


14 جولائی 2012 کے جنگ میں آپ کا کالم چھپا ہے: جمہوریت میں بدعنوانی کے بارے میں آپ کی اپنی رائے کچھ یوں ہے کہ" بدعنوانی کا آسیب صرف پاکستان تک ہی محدود نہیں ہے, ہر سیاسی نظام میں اس کا عکس دیکھا جاسکتاہے." اور پھر آپ نے اپنے اس کالم میں دیگر ملکوں کے بدعنوان حکمرانوں کے علاوہ زرداری صاحب کا ذکر کیا اور فرمایا کہ"ہوسکتا ہے کہ بدعنوانی کی انتہا کردی گئی ہومگرخدا کےلئے یہ تو بتائیں کہ کیا یہ پاکستان کا سب سے بڑا اور واحد مسئلہ ہے"


جمہوریت یا آمریت کے ثمرات بتاتے ہوئے آپ نے روس اور کیوبا اور پھر مغربی جمہوریت ( مغربی عیسائی جمہوریت کہا جس سے لگتا ہے آپ نےبھی اپنے افکارتازہ کو کسی مولانا سے مشرف بہ اسلام کرواکے لکھنا شروع کردیاہے. ) کا ذکر کیا ہے مگر یہ بتانا بھول گئے کہ ان ملکوں میں وہ نظام جو آپ کے مطابق نتائج فراہم کررہے ہیں وہ کتنے عرصہ سے مسلسل نافذالعمل ہیں. ان کو ہمارے ملک کے ساتھ ملانا ناانصافی نہیں تو اور کیا ہے.یہاں آپ ہی کے مطابق دو نظام اپنی بدترین شکل میں عوام کے سینے پر مونگ دل رہے ہیں. ایک نظام تو جبر کا ہے اس پر تو دنیا کا کوئی ذیشعور انسان آمادہ نہ ہوگا دوسرا جمہوریت ہے اس کو ثمرآور ہونے میں اتنا ہی وقت لگتا ہے جتنا کسی بھی فصل کو اگنے اور پھر پک کر تیار ہونے میں لگ سکتا ہے. جمہوریت تو ایک نظام ہے جیسا جمہور ہوگا ویسا اس کا نتیجہ بھی ہوگا. یہ نہ تو عیسائی ہوتا ہے نہ مسلمان. مذہب تو انسانوں کا ہوتاہے نظاموں کا نہیں لیکن نہ جانے کیوں ہمارے دانشور اس سب کو دانستہ طور پر مکس کردیتے ہیں اور پھر اسلامی نظام کا الگ سے راگ الاپنے لگتے ہیں. اگرملک میں جمہوریت ہواور اکثریت مسلمانوں کی ہو تو اس جمہوریت میں جو بھی سسٹم ہوگا لازمی طور پر اسلامی سسٹم ہی ہوگا.ورنہ الگ سے کیا کوئی آمریا طاقتور گروہ اپنی طاقت سے اس کو نافذ کرے گا.


آپ نے "عناصر" کا ذکر کیا ہے کہ وہ اپنے خواص نہیں بدلتے اس سے مراد آپ کی افراد ہیں تو جناب انسان تو ہر لمحہ کچھ نہ کچھ نیا سیکھتا ہے اور اپنے خیالات و افکار میں تبدیلی کرتا رہتا ہے مگر "عناصر" سے مراد اگر آپ کی مخصوص طبقات ہیں تو آپ کا نے بجا فرمایا مگر زرداری اور شریف برادران کو سنگل آوٹ کر کے آپ کچھ ذاتیات کی طرف نکل گئے. عسکری فرقہ کی سوچ ہمیشہ ایک جیسی ہی ہوتی ہے چاہے وہ نیا کے کسی ملک کا عسکری فرقہ یا قبیلہ کیوں نہ ہو ان کی نظر میں مسائل کا حل قوت کے استعمال میں ہی رکھا ہوتا ہے. اسی طرح سیاسی قبیلہ کے لوگ ایک ہی عنصر سے بنے ہوتے ہیں. ان کی سیاسی مجبوریاں دنیا کی سب سے بڑی حقیقتیں ہوتی ہیں. دنیا کا کوئی سیاست دان ہو اس کو سیاسی مجبوریوں کے تحت وہ کچھ کرنا پڑجاتا ہے جو اس کے عام طور پر موجود نظریات سے متصادم ہی کیوں نہ ہو. اس حقیقت سے کوئی بچ نہیں سکا نہ زرداری نہ شریف برادران نہ عمران نہ کوئی اور.....

کالم کے آخر میں آپ نے بڑی صفائی کے ساتھ ملک کی مرکزی سیاسی جماعتوں کی یہ کہہ کردھلائی کردی کہ وہ کسی نہ کسی شخصیت کے زیراثر ہیں. اور وہ شخصیات آپ کی نظر میں بہت کوتاہ نظر اور جاہل واقع ہوئے ہیں کیوں کہ وہ ان انقلابی اصلاحات کو سمجھ ہی نہیں سکتے جو ملک کو آگے بڑھانے اور نظام میں بہتری لانے کے لئے درکار ہیں. اس کے بعد آپ نے تین سیاسی جماعتوں کا ذکر کرتے ہوئے آپ نے ان کے کارکنوں کی یہ خصوصیت گنوائی کہ ان کے کارکن بہت تربیت یافتہ ہیں مگر پھر آپ نے خود فرمایا کہ جماعت اسلامی تو اپنے نظریات کی قیدی ہے اور الطاف حسین کی تعریف کے بعد ان کو محاجروں کا لیڈر قرار دے دیا اور پھر طاہرالقادری کو آپ نے مبلخ کہہ دیا کہ وہ انقلابی تحریک کے امام کیسے ہوسکتے ہیں. آپ کے اس کالم میں انقلاب کی شدید خواہش کا اظہار ہوتا دیکھتا ہوں مگر پھر آپ ہی کے الفاظ یہ صورت بھی ظاہر کرتے ہیں کہ نہیں ابھی انقلاب کا صرف شور شرابہ کرنے والے ڈگڈگی بجاتے پھر رہےہیں اس سارے عمل میں عوام کہاں ہیں اس پر آپ نے بلکل صحیح فرمایا کہ "عوام کے ذہنوں پر روایتی سوچ کے پہرے ہیں" گویا عوام اس سارے عمل سے باہر ہی ہیں.


آپ نے دو مرکزی سیاسی جماعتوں کے لیڈروں کو تو فارغ کردیا کہ وہ تو انقلابی ہونہیں سکتے پھر آپ نے باقی باندہ چھوٹی سیاسی جماعتوں کا ذکر بھی کردیا اور ان کی مجبوریاں بھی بتا دی کہ وہ کیوں اس کاروان کے امیر نہیں ہوسکتے...تو جناب آپ یہ راض کھول کیوں نہیں دیتے کہ آخر وہ کون سا تیس مارخان ہے جو ان باریکیوں کو جانتا ہے... اور انقلاب کی امامت سنبھالے گا ...

آخر میں انقلاب کے لئے مایوسی کا اظہار کرنے کے بعد آپ نے فرمایا کہ" کوشش کرنے میں کیا حرج ہے"

میرے خیالات سے آپ اختلاف کرسکتے ہیں مگر کیا کیجئیے کہ آپ کے اپنے خیالات آپس میں میل نہیں کھاتے ان پر آپ کیا فرمائیں گے. ایک سال پہلے آپ نے انقلابیوں کو کچھ اور مشورے دئیے جبکہ اب آپ جلتی پر آگ ڈالنے پر زور دے رہے ہیں. آپ نے ایک سال پہلے جو لکھا تھا وہ آپ کے موجودہ خیالات سے بلکل مختلف تھا. یہ ذکر ہے آپ کے 14جولائی 2012 کے ایک کالم کا جو روزنامہ جنگ میں چھپا تھا. اس میں آپ نے ایسے ہی کچھ انقلابیوں کو نصیحت فرماتے ہوئے کہا تھا کہ " درحقیقت یہ نظام حکومت ایک عمدہ طریقے سے تبدیلی اور اس کے نتیجے میں بہتری کے اصول پر عمل کرتا ہے. اگراس مرتبہ آپ کو ووٹ مل گئے ہیں تو کام کیجیے اور لوگوں کے اعتماد پر پورا اترنے کی کوشش کریں, اگر نہیں تو اگلے انتخابات تک صبر کرنے ہوئے اپنی باری کا انتظار کریں."

پھر آپ نے فرمایا کہ " جمہوری حکومت چاہےزرداری صاحب کی قیادت میں ہی کیوں نہ قائم ہو, ایک غیرجمہوری .حکومت سے بہرحال بہتر ہے...کیا یہ بہتر نہیں کہ ایک جمہوری حکومت اپنی آئینی مدت پوری کرلے اور پھر پاکستانی ووٹرز کو فیصلہ کرنے کا اختیار دیاجائے. معاملات سدھارنے کی یہی درست طریقہ ہے. اس کے علاوہ کوئی شارٹ کٹ کام نہیں دیگا. ایک اور بات, بدعنوانی کا آسیب صرف پاکستان تک ہی محدود نہیں ہے, ہر سیاسی نظام میں اس کا عکس دیکھا جاسکتا ہے. صدارت کا عہدہ چھوڑنے کے بعد فلپائن کی گلوریا ارویو بدعنوانی کے الزامات کی زد میں آئیں. فرانس کے نکولس سرکوزی صدارت چھوڑنے کے بعد اب جوڈیشل انکوائری کا سامنا کررہے ہیں. زرداری صاحب نے سوئس اکاؤنٹس کے حوالے سے ہوسکتا ہے بدعنوانی کی انتہا کردی گئی ہو مگر خداکےلئے یہ تو بتائیں کہ کیا یہ پاکستان کا سب سے بڑا اور واحد مسئلہ ہے...." اور اس کالم کے آخر میں آپ نے تمام سیاسی لوگوں کو مشورہ دیاتھا کہ"... سیاسی طبقے کو کیا ہوگیا ہے ... اگر نظام پٹڑی سے اترا تو نقصان سب سے زیادہ کس کاہوگا" اور پھر مسلم لیگ کو مشورہ دیتے ہوئے فرمایا کہ "...کسی بھی مہم جوئی سے بچنا ہوگا. چاہے کوئی بھی جواز پیش کیا جائے, کوئی بھی ایسا اقدام ملک کو بیس سال پیچھے دھکیل دے گا. چنانچہ ہمیں اپنے نیک ارادوں کے اسپ تازی کو لگام دینی چاہیے. یہ کام پاکستان کے عوام پر چھوڑ دینا چاہئے کہ وہ کیا فیصلہ کرتے ہیں..."

 آپ کے بہت سے عقیدت مند ہوں گے جو آپ کی رائے سے اپنی سوچیں مرتب کرتے ہوں گے. آپ کا اخلاقی فرض بنتا ہے کہ اپنے پڑھنے والوں کو حقائق سے آگاہ کریں ان کی رائے کو ملک اور قوم کی بہتری کے لئے ھموار کریں اور سچ ہی لکھیں. جب آپ سچ لکھیں گے تو آپ کی باتوں میں اور آپ کے کالموں میں تضادات نہیں ہوں گے. اب وہ دور نہیں کہ سال پہلے کسی نظریے کی حمایت کی تو سال بعد کسی اور نظریے کی وکالت شروع کردی. آج انفورمیشن ٹیکنالوجی نے آپ کی باتوں کو ریکارڈ کرکے لوگوں کے حضور پیش کرنا شروع کردیا ہے. اب لوٹاکریسی جلد ایکسپوز ہوجاتی ہے. سیاسی لوگوں نے یہ بات جان لی اسی لئے ان میں لوٹوں کی تعداد میں خاطرخواہ کمی آئی ہے مگر شائد چند صحافی بھائیوں نے یہ سبق نہیں پڑھا. آپ نے ایک کالم میں گور ویدال کا ذکر کیا تھا اور اس کے خیالات کی بہت تعریف فرمائی تھی اسی کا ایک قول نقل کر کے ختم کرتا ہوں

A writer must always tell the truth, unless he is a journalist

No comments:

Post a Comment