Thursday, July 3, 2014

بلاسود بنکاری - چند حقائق

ڈاکٹر شاہد حسن صدیقی کا آج کا کالم "اسلامی بینکاری - حقائق,نتائج اور سفارشات" اسلامی بنکوں کے بارے میں غلط فہمی کا خوب ازالہ کرتا دیکھائی دیتاہے. ڈاکٹر صاحب بہت پہلے سے اس بات کی طرف توجہ دلارہے ہیں کہ بلاسود اسلامی بنکاری دراصل روایتی بنکاری ہی ہے. کاروبار وہی سودی مگر نام اسلامی کردیاگیاہے. جیسے قیام پاکستان کے وقت جب دنگے فساد کی ہوا چلی تو کراچی کے ایک ہندو نے اپنی شراب کی دوکان جلنے سے بچانے کے لئے اس کا شٹرڈاؤن کرکے لکھوا دیا "شراب کی اسلامی دوکان".... اور حیرت انگیز طور پر وہ دوکان جلنے سے بچ گئی. اسی طرح جب اسلامی بینکاری کی ہوا چلی تو سب بنکوں نے اپنے بنکنگ بزنس کو نقصان سے بچانے کےلئے اسلامی بنکاری کا آغاز کردیا. مفتی حضرات بنکوں کے مستقل یا وزٹنگ ملازمت میں آگئے اور اسلامی بنکاری کے فتوے جاری ہونے لگے. نئے اسلامی فارم چھپوا لئے گئے اور نئے اسلامی ناموں سے اسلامی بنکاری شروع ہو گئی.  سٹیٹ بنک کی ایک رپورٹ کا ذکر کرتے ہوئے ڈاکٹر صاحب نے بتایا کہ روایتی بنکوں نے اپنے صرف 9.5 فیصد کھاتہ داروں کو قرض دیا جبکہ اسلامی بنکوں نے 2.5 فیصد کو قرض عنایت فرمایا. گویا کہ افادیت میں اسلامی بنکوں کی کارکردگی بہت مایوس کن رہی. مجھے ایک مرتبہ ایک اسلامی بنک سے کار لون کے سلسلہ میں معلومات لینے کا اتفاق ہوا. جب میں نے موازنہ کیا تو پتہ چلا کہ جس قدر سود مجھے سودی بنک کو ادا کرنا پڑے گا اس سے کچھ زیادہ ہی اسلامی بنک والوں کو اسلامی کرایہ کی صورت میں ادا کرنا پڑے گا میں نے بنک منیجر سے دریافت کیا کہ ایسا کیوں ہے کہ مجھے سودی بنک کے سود سے بھی زیادہ ادا کرنا پڑرھا ہے تو انھوں نے فرمایا بس اس کا فائدہ یہ ہے کہ یہ اسلامی اور حلال ہے جبکہ دوسرا حرام.

سود کی تعریف پر مفتی حضرات کا اتفاق نہیں تبھی تو کچھ علماء موجود اسلامی بنکوں کو اسلامی کا سرٹیفیکیٹ جاری کرتے رہے جبکہ کچھ دیگر علماء کا خیال ان سے مختلف رہا اور وہ اس بنکاری کو سودی قراردیتے رہے. بنکوں نے بہرحال لوگوں کے جزبات اور ضروریات کے مطابق اپنے کاروبار کو پہلے بھی ڈھال لیا تھا اب اگر کوئی نئی ھدایات جاری ہوں گی تو اس میں سے بھی رستہ بنالیں گے کیوں کہ بنکوں کا کاروبار ہی دوسروں کی دولت اکٹھا کرنے اور اس کے استحصال سے چلتا ہے. بنکوں کی کوئی بھی قسم عام آدمی کو پیسہ دے کر سود یا منافع لئے بغیر چل ہی نہیں سکتی. آپ نئے قوانین لے آئیں وہ نئے طریقے نکالیں گے جس سے وہ اپنے مقرر شدہ اہداف حاصل کرلیں گے.

کوئٹہ میں ایک بازار ہے اس میں چند لوگوں کا کاروبار لوگوں کو قرض فراہم کرنا ہے. اس کاروبار سے منسلک لوگ بہت نمازی پرھیزگار ہیں. ہرسال حج و عمرہ کی سعادت بھی ضرور حاصل کرتے ہیں. وہ سود کی حرام کاری نہیں کرتے. وہ اسلامی بنکوں کی طرح کاروبارکرتے ہیں اور اس پر جائز اور حلال منافع کماتے ہیں. ان کا طریقہ کار کچھ یوں ہے کہ اگر آپ کو ایک لاکھ کی ضرورت ہے تو آپ ان کے پاس جائیں اور ان سے اپنا مدعا بیان کریں وہ آپ کو روپے نہیں دیں گے بلکہ حاجی صاحب آپ سے فرمائیں گے کہ آپ ہم سے ڈرائی فروٹ کی یا چاول کی ایک عدد بوری خرید لیں جو ہم آپ کو ادھار پر دیں گے. اس بوری کی قیمت ہوگی فرض کریں ایک لاکھ دس ہزار روپے اور آپ کو اس ادھار کو دو ماہ میں ادا کرنا ہے. جب معاملہ طے پا جائے گا تو ساتھ ہی دوسرے صاحب موجود ہوں گے جو اس بوری کو آپ سے ایک لاکھ روپے میں خریدنے پر رضامند ہوں گے. آپ وہ بوری ان صاحب کو بیچ کر اپنی مطلوبہ رقم لے کر ایک لاکھ دس ہزار کا ادھار اپنے کندھوں پر لئے اپنے گھر لوٹ جائیں گے. اس طرح دونوں افراد کی غرض بھی پوری ہوئی اور خدا بھی ناراض نہ ہوا.

No comments:

Post a Comment