Thursday, July 3, 2014

سوچ کی غلامی


پیدا ہوتے ہی کانوں میں آذان دی جاتی ہے. اس کے بعد زندگی بھر اسلامی تعلیمات کا درس جاری رہتا ہے. پہلے قائدہ اور پھر قرآن پڑھایا جاتا ہے. سکولوں میں اکثر مضامین میں اسلامی اقدار کی تبلیغ کی جاتی ہے.  جمعہ کے اجتماعات میں درس و تدریس کا اہتمام ہوتا ہے. رمضان کا مہینہ ایک طرح سے ریفریشر کورس ہوتا ہے جس میں اسلامی تعلیمات کے مطابق زندگی کو مزین کرنے کی کوشش کی جاتی ہے. اس ساری جدوجہد اور تبلیغی سسٹم  ہونے کے باوجود ہم کردار اور علم میں سب سے پیچھے کیوں ہیں. ہمارے یہاں کرپشن, جھوٹ اور بد دیانتی کو لائف سٹائل کا حصہ مان لیا گیا ہے. مان لیا سے میری مراد یہ نہیں کہ زبان سے اقرار کرتے ہیں نہیں بلکہ عملی طور پر ہم اکثر ایسی صورتحال میں سرنگوں نظر آتے ہیں جہاں کرپشن کا راج ہو. کیا وجہ ہے کہ ہماری زندگیوں سے وہ کردار نہیں جھلکتے جن کی امید پر ہمیں مذہبی تعلیم سے آراستہ کیا جاتا ہے. 

میں نےاکثر ان افراد کو گالیاں پڑتے سنا ہے جو رولز کی بات کریں اور شارٹ کٹ کے راستے مصدود کردیں. ہم لوگ اپنے لئے مقامی لیڈر بھی وہ ہی چنتے ہیں جو کردار کا غازی ہوناہو طاقتورہو اور پولیس میں اثرورسوخ رکھتا ہو اور وہاں سے کام نکلواسکتاہو. ناجائز تجاوزات پر ایکشن کرنے والے سرکاری افراد کو اکثر پرتشدد ردعمل کا سامنا کرناپڑتا ہے. حال ہی میں گورنمنٹ نے بجلی کے بلوں کے ساتھ بلب جمع کروانے پر انرجی سیور دینے کا اعلان کیا. گورنمنٹ کا مقصد  توشاید یہ تھا کہ بجلی کے بحران میں بجلی بچایا جائے اور بلب چونکہ انرجی سیور سے کہیں زیادہ بجلی خرچ کرتے ہیں اس لئے جو لوگ ابھی تک بلب استعمال کررہے ہیں اور وہ انرجی سیور خریدنے کی صلاحیت نہیں رکھتے تو وہ گورنمنٹ کو بلب دے کر انرجی سیور لے لیں مگر ہم مال مفت کو کہاں چھوڑنے والے ہیں.... دوکانوں پر بلبوں کی سیل پر اچانک اضافہ دیکھا گیا. لوگ ہر بل پر موجود فری انرجی سیور کی سہولت کو کیش کرواتے نظر آرہے ہیں. دنیا بھر میں جہاں کہیں خاص دن یا تہوار ہوتے ہیں تو لوگوں کی سہولت کے لئے اشیاء کی قیمتوں میں خاطرخواہ کمی کی جاتی ہےمگر ہمارے یہاں الٹی گنگا بہتی ہے ہم لوگ رمضان آتے ہی اشیاء صرف ,پھلوں اور سبزیوں کی قیمتوں میں ہوشرباء اضافہ دیکھتے ہیں. سگنل توڑنا ہمارے لئے معمولی بات اور روز کا معمول ہے. گویا کہ جب اور جس جگہ ہمیں میسر آئے ہم لاقانونیت اور بدکرداری کا مظاہرہ کرنے سے چوکتے نہیں.

تماشہ گیر ہمیں سب سے زیادہ بھاتے ہیں کہیں کوئی بہروپیہ لیڈر کے روپ میں ڈرامہ کرتا نظر آئے قوم اس کی مقلد ہوجاتی ہے. فورا اس کی پیروی کرنے اور اس کے نظریات پر مرمٹنے والے پیدا ہوجاتےہیں. اپنی سوچ اور عقل کی تربیت کا احتمام نہ ہم نے پہلے کیا نہ اب اکیسویں صدی میں اس تکلف میں پڑنے کا ارادہ ہے. ہم تو وہ لوگ ہیں جنھیں یوٹیوب سے ڈھونڈ کر کوئی شخص گستاخانہ فلم دیکھا دے تو اس غصہ میں اپنے دامن چاک کرنا شروع کردیتے ہیں. فلم بنانے والے اور دیکھانے والے اپنا بزنس دوبالا کرجاتےہیں اور ہم اپنوں کو نقصان پہنچا کر سمجھتے ہیں دین کا حق ادا کردیا. ہمارے صاحبان فیصلہ ساز بھی کمال کے ہیں ان کے فیصلوں میں ابھی بھی ڈکٹیٹروں جیسا مزاج جھلکتا ہے. بین کردو... اس میڈیم کو جس پر کسی کمبخت نے یہ فلم رکھدی ہے. اور وہ تلاش کرنے پر مل جاتی ہے... بین کردو ... ان سب چیزوں کو جو ہماری سوچ کے خلاف جائیں. اس سے ہمارے بچے گمراہ ہوسکتے ہیں. اگرچہ انٹرنیٹ پر اربوں کی تعداد میں ایسی سائٹس ہیں جہاں گستاخانہ مواد موجود ہے لیکن کسی نے ابھی تک ان کی نشاندہی نہیں کی اس لئے انٹرنیٹ بین ہونے سے بچا ہوا ہے اب اگر کسی نے سوچا کہ اس قوم کو انٹرنیٹ سے محروم کیا جائے تو وہ کوئی ایسا اقدام کرسکتا ہے کہ جس سے ہمارے فیصلہ ساز حکم فرمادیں کہ آج سے انٹرنیٹ بھی بین....

 مجال ہے کہ ہم کبھی واقعات کو ان کے اصل سیاق و سباق کے مطابق سمجھ سکیں ہمیں تو جو جیسا دیکھانا چاہتا ہے ویسا ہی ہم دیکھ اور سمجھ لیتے ہیں اور اس پر اپنی ذہانت پر خود ہی داد بھی دے لیتے ہیں. سوچ کی اسیری کا سلسلہ کبھی رکےگا بھی یا ہم غلاموں کی زندگی ہمیشہ اندھی تقلید کی نظر ہوتی رہے گی. یہ ایسا سوال ہے جس کا جواب ہمیں اپنے گریبانوں میں جھانک کرلینا ہوگا. ہمیں دیکھنا ہوگا کہ کیا ہم اپنی پود کو وہی تعلیم مہیا کررہے ہیں جو مفاد پرس حکمرانوں نے ہمارے لئے منتخب کیا یا ہم دورحاضر کی جدید تعلیم سے اپنے بچوں کو لیس کررہے ہیں.

ہم لوگ تقلیدی اندھیروں کے ایسے اسیر ہوئے ہیں کہ اکثر جزبات میں بہہ کر اپنے ہی گھروں کو آگ کے سپرد کردیتے ہیں اور اس پر ندامت تو درکنار ہمیں نقصان کا احساس تک نہیں ہوتا. فرقہ پرستی ہمارے خون میں رچ بس چکی ہے. اختلافات جیسے بھی رہے ہوں ان میں خون کا رنگ شروع دن سے شامل ہوگیاتھا. اسلامی سکالرز کے مطابق اصل اسلامی ریاست دیکھنا ہو تو خلفاءراشدین کا زمانہ دیکھو. اس دور میں اصل اسلامی ریاست کا قیام عمل میں آیا. اس کے بعد تو خلافت کی جگہ ملوکیت نے لینا شروع کردی. مگر افسوس کہ خلفاء راشدہ کا زمانہ بھی باہم دست و گریناں ہونے کی داستانیں چھوڑ گیا ہے. اسی دور سے دوبارہ قبائلی اختلافات نے جنم لیا اور بےشمار مسلمان مسلمانوں سے لڑتے ہوئے مارے گئے. چار میں سے تین خلفاءراشدین کا قتل مسلمانوں ہی کے ہاتھوں ہوا. حضرت عمر رضی اللہ تعالی کا یہ قول بہت مشہور ہے کہ دجلہ کنارے اگر کتا بھی بھوکہ مرجائے گا تو عمر اس کا جوابدہ ہوگا تو پھرحضرت عائشہ صدیقہ اور حضرت علی کرم اللہ وجہہ کی لڑائی میں جو مسلمان قتل ہوگئے ان کے خون کا حساب کون دے گا.
 جب ہم اتحاد بین المسلمین کی بات کرتے ہیں تو لوگوں کو سمجھاتے ہیں کہ "سب علماء اکرام قابل احترام ہیں اور سب نے اپنے اپنے طور پر جس طرح اسلام کو سمجھا اس کے مطابق اپنی شریعت ترتیب دے لی لہزا اختلاف کے باوجود ہم سب ایک قوم ہیں اور کوئی کافر نہیں سب مسلمان ہیں بس عمل کا طریقہ مختلف ہے." یہ بات بہت اچھی لگتی ہے اگر ایسا ہے تو کیا ہم اپنا ایک دن سنی شریعت کے تحت اور دوسرا دن شیعہ شریعت کے تحت گزارسکتے ہیں.

اگر ہم واقعی ترقی کرنا چاہتے ہیں اور دنیا میں عزت کا مقام حاصل کرنا چاہتے ہیں تو بوڑھی سوچ کو ترک کرکے  ہمیں نئی سوچ کی بتی جلانا ہوگی. تنقیدی سوچ کو پیدا کرکے ہم اپنے اندر موجود "اغلاط العوام" کی نشاندہ کرپائیں گے. واقعات کو صیحیح سیاق و سباق میں سمجھ پائیں گے اور پھر آزاد سوچوں کے ساتھ ہم درست فیصلوں کے قابل ہو پائیں گے. قرآن جس کو ہم سینوں سے تو لگا رکھتے ہیں اس میں خدا کتنی بار تفکر اور عقل کے استعمال کی دعوت دے رھا ہے اس کا ہمیں ذرہ برابر بھی احساس نہیں

No comments:

Post a Comment