Thursday, June 12, 2014

جس کی لاٹھی اس کی بھینس


ہمارے ایک فاضل کالم نگار نے ایک اچھا کالم لکھا جس میں انھوں نے ملک کے چند ٹارزنوں کا ذکر کیا. اس میں جرنیلوں سے لے کر اعلی عدلیہ کے ججز اور پھر سیاستدان شامل تھے. ان پر الزام ہے کہ انھوں نے اپنے زیادہ تر اثاثے بیرون ملک چھپا رکھے ہیں. آپ نے سب ٹارزنوں کا ذکر کیا مگرجرنیلی ٹارزنوں سے کچھ اجتناب ہی برتا. اچھا ہے کیوں کہ آج کل جو ہوا چل نکلی ہے اس میں ان ٹارزنوں کے بارے میں بات کرنے والے گولیاں کھا رہے ہیں. وہ پرویز رشید نے ان کے لئے خوب اصطلاح نکالی ہے. غلیل والے. اج کل اسی میں سب کی بھلائی ہے کہ اصطلاحات میں بات کی جائے.

ناجانے کیوں لوگ سیاست دانوں کو تو گالیاں دینے سے نہیں چوکتے آپ اخبارات میں کالمنگاروں کے صفحات دیکھ لیں ہر صفحہ پر کسی نہ کسی صاحب نے سیاست دانوں کی ایسی کی تیسی کی ہو گی. اور صحافی حضرات پر ہی کیا موقوف خود سیاست دان بھی اپنے بھائی بندوں کو گالی گلوچ کرنے سے نہیں کتراتے. ملک کی تمام تر برائیوں کا منبہ انھیں کی ذات ناہنجار میں تلاش کیا جاتا ہے اور ملکی ترقی کی خاطر موجودہ سیاسی سیٹ اپ کو تہس نہس کرنا ثواب عظیم سمجھا جاتا ہے. لیکن میں سوچتا ہوں کہ ملک کو سنوارنے اور بگاڑنے میں جتنا ہاتھ سیاستدانوں کا ہے اس سے زیادہ عمل دخل ہمارے ملک کے جرنیلوں کا بھی ہے. اگر کرپشن زیادہ ہے تب بھی اگر دہشتگردی ہے تب بھی اور بےروزگاری یا بےانتظامی ہے تب بھی سب مسائل میں ان کا بھی کہیں نہ کہیں حصہ تو بنتا ہے کہ سب سے زیادہ طاقتور حکمرانی کے ادوار انہیں کے رہے. سیاست دانوں کو تو کبھی اپنی ٹرم پورا کرنے ہی نہیں دیا گیا.....

آپ نے کالم میں سوئس بنکوں میں موجود اربوں ڈالروں کا ذکر کیا. آپ نے لکھا کہ جرنیلوں,بیوروکریٹس اور سیاست دانوں کے اثاثے باہر پڑے ہیں اور پھر آپ نے ان کے نام بھی درج فرمائے. ان میں سیاست دان اور ججوں تک کو تو درج کیا مگر جرنیلوں کے نام درج کرنا بھول گئے... یا پھر نہیں بھولے نہیں ہوں گے ... جرنیلوں کا نام لینے سے پہلے ہم لوگوں کے لئے لازم ہے کہ ثبوت فراہم کیا جائے ان پر بغیر ثبوت کے کسی قسم کی بات لکھنے کا حشر وہی ہوسکتا ہے جو چند صحافیوں کا ہوچکاہے. 

آپ جب بھی کبھی چائیں کہ کوئی خبر اڑا دیں تو اس کے لئے ملک کے کسی بھی قابل احترام شغصیت کو منتخب کریں اور پھر اس کے بارے میں جہاں تک خیال کا گھوڑا لے جائے لکھتے جائیں کوئی رکاوٹ نہیں ڈالے گا مگر کسی بھی جرنیل پر قلم کشائی کی گستاخی کی اور پاس ثبوت نہ ہوا تو پھر سمجھو زندگی کا آخری کالم تھا جو لکھ چکے.... میں سوچتا ہوں اخلاقی طور پر تو بات ٹھیک ہی ہے کہ بغیر ثبوت کسی کی پگڑی نہ اچھالی جائے مگر اس اخلاقی کردار کا مظاہرہ ہم سیاستدانوں,ججز یا کسی بھی اور شخصیت کے معاملہ میں کیوں نہیں کرتے.

لگتا ایسا ہے کہ ملک میں جس کی لاٹھی اس کی بھینس کا قانون رائج ہے. اگر ڈنڈا ہے تو سب آپ پر قربان ہونے کو تیار ورنہ آپ کہلائیں گے غدار. 

No comments:

Post a Comment