Sunday, June 1, 2014

ہم کہاں جائیں... وزیراعلی صاحب کچھ توجہ اس جانب بھی

میرے کالم "بدلے گا پاکستان" کو پڑھ کے ایک دوست نے کہا کہ پاکستان کےحالات کے بارے میں زیادہ خوش فہمی اچھی نہیں. ایک تو یہاں کوئی اچھا پراجیکٹ کامیابی سےہمکنار ہوتا نہیں اور اگر ہو بھی جائے تو بد انتظامی کا سیلاب اسے بہاکرلےجاتاہے. اگر کچھ لوگ معاملات کو سنبھالنے کی کوشش کر بھی رہے ہیں تو کیا ملک بدل جائے گا... نہیں ایسا ہوتا نظر نہیں آتا کیونکہ یہاں تو آوےکاآوا ہی بگڑا ہوا ہے. اوپرکی سطح پر اگر حالات بہتر ہوئے ہیں تو اس کا فوری فائدہ عوام کوتوہوتا نظر نہیں آتا. یہ تو بڑے لوگوں اور سرمایہ داروں کے لئےآسانیاں پیدا ہو رہی ہیں. جب ان کے مفادات کا گلاس بھرے گا تو پھر ٹریکل ڈاؤن افیک کے تحت غریب تک فائدہ پہنچے گا. مگرجس سطح پر عوام جی رہے ہیں اورجہاں انھیں روزانہ کی بنیاد پر مسائل کا سامنا ہے ان مشکلات کے بارے میں کب سوچا جائے گا. نیچے جو کرپشن ہورہی ہےکیا بڑوں تک اس کی خبر نہیں پہنچتی. کیوں بڑے لوگ صرف میدڈیا پرچلنے والی خبروں کو ہی اہمیت دیتے اور ان کو دیکھ کر انکوائریاں ہوتی ہیں. کیوں سسٹم کو مضبوط نہیں کیا جاتا.

میں نے کوئٹہ میں اپنا سافٹ وئر ہاؤس بنایا تو پہلے ہی ماہ میں ایک مقامی صاحب مجھے دھمکانے پہنچ گئے. اس کا ارادہ شاید ڈرادھمکا کے ماہانہ بھتہ طے کرنا تھا. میں آفس میں اکیلا تھا. اسکو سمجھانے کی بھرپور کوشش کی مگر جب وہ نہ مانا تو میں نے کہا رکو میں ابھی تمھارا بندوبست کرتا ہوں اور میں نے ٹیلیفون سے 15 پر کال ملائی. میں نے سن رکھا تھا کہ کسی بھی ایمرجینسی میں 15 ملانے پر پولیس فوری مدد کے لئے پہنچ جاتی ہے.  کوئی تین منٹ کےپیدل سفر پر تھانہ اور 15 کا دفتر تھا. مگر 35 منٹس تک کوئی مدد نہ پہنچ پائی. اس شخص نے بھی شاید سن رکھا تھا کہ 15 والے جلدی آتے ہیں تو وہ وہاں سے کھسک لیا ورنہ اگر اس کو تجربہ ہوتا تو وہ میرے سے بھتہ لے کر ہی جاتا. اس شخص کے جانے کے بعد میں سوچتا رھا کہ شاید یہ کوئٹہ ہے اس لئے یہاں ایسی صورتحال ہے لیکن اگر یہی واقعہ لاہور میں ہوتا تویقیننا پولیس کا ردعمل مختلف ہوتا. لیکن یہ میری خام خیالی تھی. چند سالوں کے بعد جب میں واپس اپنے شہر لاھور منتقل ھوا تو یہاں بھی ایک دن مجھے 15 پر کال ملانا پڑگئی. ھوا یوں کہ چند بزرگوں کے ساتھ میں کسی جگہ جارھا تھا کہ ایک چوک پر دوسری طرف سے آتی تیز رفتار گاڑی نے ہماری گاڑی کو ٹکر ماردی. میری گاڑی کو کافی نقصان پہنچا. مارنے والے ڈرائیور سے میرے تکرار شروع ہوگئی میں نے بہتر جانا کہ 15 پر کال ملاکر مدد منگوالوں. 15 پر کال کی اور پھر ادھر ادھر دیکھنے لگا کہ کب میرے مددگار پہنچیں گے کیونکہ ڈرائیور بھاگنا چاہتاتھا اور میں اسے روک رھاتھا. اس بار بھی تھانہ ہم سے زیادہ دور نہ تھا. ہمارے پاس سے دو مرتبہ پولیس موبائل تیزی سے صورتحال کا جائزہ لیتے ہوئے گزر گئی مگر انھیں شاید دلچسپ صورتحال نظر نہ آئی لہذا وہ دیکھتے ہوئے گزر گئے اور ہم انھیں دیکھتے رہ گئے. کئ دن بعد میں ورکشاب میں بیٹھا سوچ رھاتھا کہ آخر اس 15 کال سنٹر کا مقصد کیا ہے. کیا اس طرح کے ادارے بنانا صرف دکھاوا ہی ہوتا ہے. کیا ان پر چیک اینڈ بیلنس کا کوئ نظام قائم کرنا ضروری نہیں ہوتا جو ان کی کارکردگی کو جانچتا رہے.
عوام کی بیچارگی کی صورتحال پولیس تک محدود نہیں بلکہ جس کسی سرکاری ادارے میں آپ کا گزر ہو وہیں کالی بھیڑیں راج کرتی نظر آتی ہیں. میرے محلے کی سڑک کا قصہ بھی کرپشن اور بدانتظامی کی واضع مثال ہے. اپریل 2013 میں اچھی خاصی سڑک کو واسا والوں نے توڑ ڈالا. انھوں نے سڑک کے درمیان سے بڑے سیوریج پائپ لائن بچھانا تھی. واسا والوں نے سڑک کی تعمیر کےلئے مطلوبہ رقم ٹی ایم اے آفس میں جمع کروادی. ہم بےشمار مرتبہ ٹی ایم آے آفس میں سڑک کو بنانے کا گزارش لے کر گئے مگر وہاں کے حکام پر کوئی اثر نہ ہوا. پھر ہم نے سوچا کہ حکمران جماعت کے سرکردہ لوگوں سے ہیلپ لینا چائیے لہذا ہم نے مسلم لیگ کی پرائمری تنظیم سے لے کر ایم پی اے اور پھر ایم این اے صاحبان تک کو اپنی گزارشات پہنچائیں. مگر کچھ بھی نتیجہ برآمد نہ ہوا. ارکان اسمبلی کے کام کرنے کا طریقہ بھی اسی کوشش میں سامنے آیا. ان کے پاس کوئی مسئلہ لے کر جائیں تو وہ فرماتے ہیں. کس کو فون کرنا ہے. فون نمبر لے آو ہم فون کردیں گے.... باقی اس کے علاوہ ان کے ذمہ شاید کچھ نہیں ہوتا. میں حیران ہوں کہ ہم ان لوگوں کو لائنوں میں لگ کر ووٹ اس لئے دیتے ہیں اور ان کو اپنا نمائندہ بناتے ہیں کہ بعد میں وہ ہمارے مسائل کا حل نکالنے میں ہماری مدد کی بجائے اپنی دیگر مصروفیات میں مست رہیں. پنجاب محتسب میں بھی درخواست جمع کروائی مگر کچھ نہ ہوا. اس ساری کوشش میں سال گزر گیا مگر ہماری وہ سڑک نہ بنی جس کی رقم بھی پہلے سے ادا کی جاچکی تھی. پھر میں نے کسی سے سی ایم کمپلینٹ سیل کا سنا تو اس میں بھی درخواست ڈال دی. ویب سائٹ پر درخواست جمع کرنے پر مجھے کمپلینٹ نمبر جاری کیا گیا. کئی دن گزر جانے کے بعد کوئی جواب نہ ملا تو میں نے سی ایم سیکریٹیریٹ میں کال کرکے شکایت سیل کے نمبر لئے. ان نمبرز پر کال کرنے پر کوئی جواب نہ ملا. کسی نے دوسری طرف سے فون نہیں اٹھایا. پھر میں نے شکایت سیل کے سرکردہ شخص کا نمبر لیا مگر وہ نمبر بھی رسپانس نہیں کررہاتھا. تب سے اب تک کسی نے نہ کال سنی نہ کوئی جواب آیا. اب میرے پاس سی ایم کمپلینٹ سیل کا کمپلینٹ نمبرتو موجود ہے مگر یہ سمجھ نہیں آرھا کہ اس نمبر کا میں کروں کیا
..........
میاں صاحب سے گزارش!
آپ کی محنت اور مخلصانہ کوششوں پر کسی قسم کے شک کی ذرہ برابر بھی گنجائش نہیں. آپ کی شبانہ روز کوششوں کا نتیجہ ہے کہ امید کے دئیے ہمارے دلوں میں دوبارہ روشن ہوگئے ہیں. ترقی کے جس سفر کا آغاز آپ نے کیا ہے وہ یقیننا ہمیں دنیا میں ایک بلند مقام دلوائے گا. مگر محترم میاں صاحب! آپ کی توجہ شاید میکرو لیول پر مرکوز ہے جبکہ مائیکرو لیول پر موجود خرابیاں جوں کی توں ہیں. آپ سے گزارش ہے کہ نچلے درجہ میں موجود ان معاملات پر جہاں عوام کو مشکلات کا سامنا کرنا پڑتا ہے. یہ وہ مسائل ہیں جن سے عوام کی زندگی وابستہ ہے. آپ نے میٹرو بس جیسا عظیم منصوبہ تو صرف دس ماہ میں مکمل کردکھایا مگر آپ ہی کی حکومت میں ایک 1200 فٹ لمبائی کی سڑک ایک سال تک زیر تعمیر رہتی ہے جبکہ اس کی مطلوبہ رقم بھی متعلقہ ادارے کے پاس جمع تھی. پورے ایک سال تک ہم غریبوں کی زندگی کوعزاب کیوں بنایا گیا. کیا کوئی اس بدانتظامی کے لئے جوابدہ بنے گا.

No comments:

Post a Comment