Friday, April 25, 2014

بدلے گا پاکستان : خواب یا حقیقت

2013
  کے انتخابات نے جہاں بہت سے سیاسی جوکروں کو بےنقاب کیا وہیں بڑے بڑے سیاسی بھیڑیوں اور لومڑوں سے بھی نجات دلائی. ان انتخابات کے نتائج سے پاکستانیوں کے شعور کا بھی اظہار ہوا اور سب سے بڑہ کر مایوسیوں کے ماحول میں امید کی نئی کرنیں ذھنوں میں روشن ہوئیں. 
ایک طرف تو طالبان کی دھشت گردیاں تو دوسری جانب کرپشن کی درندگیاں تھیں. مہنگائی کا ہنگامہ بھی تھا اور اندھیروں کا راج بھی. مایوسیوں کے اس دور میں عوام بھرپور انداز سے اپنے جمہوری حق کا استعمال کرنے نکلے اور انھوں نے کرپشن اور مصلحت کی سیاست کو مسترد کیا "این آر او" جیسے عظیم سرٹیفیکیس کو بھی عوام نے ردی کو ٹوکری میں ڈال دیا. ان انتخابات کا بغور جائزہ لیا جائے تو نظر آتا ہے کہ یہ عوامی فیصلہ کئی لحاظ سے تاریخی تھا. ان الیکشنز میں پہلی بار ہوا کہ عوام نے جزبات کے بجائے کارکردگی کو سراہا. اس کے ساتھ دوسرا پہلو بھی توجہ طلب ہے کہ عوام نے امید کے نئے چراغوں کو بھی بجھنے نہیں دیا. ایک طرف جہاں مسلم لیگ (ن)کو جمہوری اقدار کی پاسداری اور عوامی خدمت کے صلہ میں بھرپور حمایت ملی وہیں عوام نے تحریک انصاف کے انقلابی ایجنڈے کو بھی عملی جامہ پہنانے کا موقع دیا. میں خود بھی تبدیلی کے اس قبیلے کا ایک فرد ہوں جس نے ایک بار پھر اچھے مستقبل کی خاطر ان انتخابات میں اپنے حلقہ احباب میں متحرک ہو کر لوگوں کو ووٹ ڈالنے کیلئے تحریک چلاتا رہا. میں نے پنجاب میں خوابوں کو حقیقت میں تبدیل ہوتے اپنی آنکھوں سے دیکھاتھا اور مجھے امید تھی کہ اس بار اگر جمہوریت کو موقع ملا تو پاکستان ضرور بدلے گا

پاکستان مسلم لیگ کی حکومت کی تشکیل سے میری امیدیں روشن ہونے لگیں. ابتدائی دنوں میں حکومت کی تشکیل کے دوران میاں نواز شریف صاحب نے اپنے رویے سے بڑے لیڈر ہونے کا ثبوت دیا. انھوں نے حکومت سازی کے  نمبرشماری کے مروجہ طریقہ سے ہٹ کر فراغدلی کا ثبوت دیا. آپ نے جہاں کسی کو تھوڑی بہت بھی اکثریت حاصل تھی اس کا احترام کیا اور اس کو حکومت بنانے کا نہ صرف موقع دیا بلکہ کئی لوگوں کے اکسانے کے باوجود آپ نے صوبہ پختونخواہ اور بلوچستان میں دیگر جماعتوں کو حکومت بنانے میں مدد فراہم کی. 
میاں صاحب کے دانشمندانہ رویے کی وجہ سے جو مثبت ماحول بنا تھا وہ میرے جیسے محبان جمہوریت کے لئے اظمینان کا باعث تھا. حکومت کی تشکیل کے بعد یوں محسوس ہو رہاتھا کہ اب ہماری ترقی کا سفر شروع ہوچکا ہے. دہشتگردی , مہنگائی , لوڈشیڈنگ اور بےروزگاری جیسے عفریت اب جلد ہی واپس بوتل میں قید کردئیے جائیں گے. مسلم لیگ کی پہلے سال کی کارکردگی یقینا حوصلہ افزا رھی. اس دوران جن منصوبوں پر کام شروع ہوچکا ہے اور مذید جو منصوبے ابھی پائپ لائن میں ہیں ان کے ثمرات اگلے تین سے چار سالوں میں عوام تک منتقل ہونا شروع ہوجائیں گے. پہلی مرتبہ تمام صوبائی حکومتوں کے ساتھ وفاقی حکومت کے تعلقات نہایت خوشگوار ہیں. اور ترقی کے اس سفر میں سب جمہوری قوتیں متفق و متحد نظر آتی ہیں

سب کچھ صحیح چل رہا تھامگر اچانک معاملات نے پراسرار رخ اختیار کر لیا ہے. پہلے آرمی چیف کا آرمی کے وقار سے متعلق بیان چلا تو لگا جیسے کہیں کچھ ہوا ہے جو محترم آرمی چیف کو آرمی کے وقارسے متعلق بیان دینا پڑا.... پھر کچھ دنوں میں ہی وزراء کی نئی پرانی تقاریر کا ملغوبہ سوشل میڈیا پر داغ دیا گیا. اس کے بعد ان تقاریر کی وڈیوز کو ٹی وی پر لا کر عسکری اور جمہوری قوتوں میں فاصلے پیدا کرنے کی مزموم کوشش کی گئی. ابھی اس سب سے میاں نوازشریف بنرد آزما ہورہے تھے کہ اچانک حامد میر پر حملہ کا واقع سامنے آگیا. اور اس واقع کے اگلے ہی دن جیو سب کے نشانے پر آگیا. جیو ان چینلز میں صف اول میں ہے جو جمہوری اقدار کے لئے آواز بلند کرتے رہے ہیں اور اس پاداش میں کئے طرح کے نتائج بھی بھگت چکا ہے. ہوں لگتا ہے جیسے  اس کا جمہوری حکومت کے کئی اقدامات پر سراہنا اور حکومت کے نظریات سے متفق ہونا اس کے لئے مہنگا پڑنے جا رہا ہے. مجھے لگتا ہے کہ یہ سب واقعات کی کسی لمبی سیریل کا آغاز ہے. ملک اور جمہوریت دشمنوں نے ایک بار پھر سے اپنے پنجے گاڑھنا شروع کر دیئے ہیں. اور مجھے 1999 کا وہ دن یاد آ رھا ہے جب میں نے میاں نوازشریف کی حکومت کے خاتمہ کی خبرسنی . اس دن کا دکھ میرے دل و دماغ میں ابھی تک تازہ ہے. اس دن مجھے لگا جیسے میری اپنی حکومت کو قبضہ گروپ نے چھین لیا ہے. اس دن میں ایک ویران سڑک پر آنسو بہاتا ہوا دور تک نکل گیا تھا. میرے ذہن میں صرف ایک ہی سوال گونج رہا تھا کہ آخر میرے ووٹ کی باربار تحقیر کیوں کی جاتی ہے. میں جتنا اس بارے میں سوچتا تھا اتنا ہی زیادہ میری آنکھوں کے سامنے کا منظر دھندلا ہوتا جاتا تھا.

امیدوں کا جو ایک آشیانہ ہم نے ووٹوں کی بنیاد پر کھڑا کیا ہے مجھے آج پھر اس کی مخدوش حالت کا احساس ہونے لگا ہے. ایک بار پھر میرے ذہن میں سوالات پیدا ہونے لگے ہیں کہ کیا میرے ووٹ کی دوبارہ تذلیل کی جائے گی. کیا میری اور میرے بچوں کی قسمت میں خوابوں کو چکناچور ہوتے دیکھنا ہے. اپنے اپنے اداروں کی توقیر کی تو ہر کوئی بات کرتا ہے مگر کیوں کوئی میرے ووٹ کی حرمت کا خیال نہیں کرتا.  کیا مجھے ایک بار پھر ویران سڑک پر اپنا دکھ آنسوؤں کی نظر کرنا ہوگا.


2 comments:

  1. Saleem Awan your views on the current state of affairs and democracy in Pakistan are highly pertinent to the real situation. It's nice to read your blog and your views on political affairs. Keep it up. I am sharing your thoughts. Thanks

    ReplyDelete
  2. Thank you very much for your kind words. I am encouraged to sound my inner voices a little louder. I am a naive writer. Being a good friend, keep on commenting and criticising on my views so that I can get more incentive and topics to dig around.

    ReplyDelete