Tuesday, April 29, 2014

قبائلی پاکستان

پاکستان کی بنیاد دو قومی نظریہ تھا. اس کی واضع تشریح جناب قائداعظم نے فرمائی اور پاکستان کو حقیقت بنادیا. آپ کی تشریح کے مطابق ہندوستان میں دو قومیں آباد ہیں ایک ہندو اور دوسری مسلمان. ان کے رہن سہن اور عبادات کے طور اطوار ایک دوسرے سے بلکل مختلف ہیں لہذا ہندوستان کو دو الگ حصوں میں تقسیم کیاجائے.... 14اگست 1947 کو ہم نے اسی بنیاد پر پاکستان حاصل کرلیا. ہمارا ایک قوم کے طورپر سفر شروع ہوا. ہمیں ثابت کرنا تھا کہ واقعی ہم ایک قوم ہیں اور ایک نظام زندگی کے تحت زندگی گزار سکتے ہیں.  مگربدقسمتی سے  کچھ ہی عرصہ کے بعد ہم ایک منتشر  قوم کی مانند نظر آنے لگے. ملک کی مختلف کلاسز ایک دوسرے سے برسرپیکار نظر آنےلگیں. سیاسی منظرنامے پر سیاستدان,افسرشاہی اور فوجی قیادت طاقت کی خاطر آپس میں الجھنے لگے. طاقت کے اس کھیل میں جیت زورآور کی ہوناتھی لہذا افسرشاہی اور فوجی طاقت کے سرچشموں پر قابض ہوگئے. کلاسز کی لڑائی کے اس دور میں ملک دو لخت ہوگیا. اس کے بعد کبھی سیاسی کبھی مارشل لاء کے ادوار یکےبعد دیگرے آتے رہے. عوام تعداد میں سب سے زیادہ ہونے کے باوجود اپنی حکومت نہ بناسکے. عوام کو سمجھایاگیا کہ ان کے مفاد میں یہی ہے کہ وہ اس گندگی سے دور ہی رہیں. اس طرح  پاکستانی عوام کو آخرت سے لولگانے کی  تلقین کی جاتی رہی اور دوسری جانب زورآور طبقات اپنے اپنے مفادات کو "عوامی" مفادات کا مقدس نام دے کر خوب موج مستی کرتے رہے. مذہبی طبقہ نے اپنی سوچ عوام میں منتقل کی اور سب کو جنگجو بنادیا. تب سے اب تک کئی دہائیاں گزر چکی ہیں اور آج ہم اس نہج پر پہنچ چکے ہیں کہ اب ہمیں کسی دوسرے دشمن کی ضرورت ہی نہیں رہی.

آج ہماری سوسائٹی ہزاروں قبائل میں تقسیم ہوچکی ہے. ہر قبیلہ اپنے مخصوص مفادات کیلئے کسی بھی دوسرے قبیلہ سے ٹکراجانے کو اپنا جائز حق سمجھتاہے. مذہبی,عدالتی,سیاسی, صحافتی اور عسکری قبائل کے علاوہ پولیس,کلرک, اورتاجر سب ہی اپنی کلاسز کے تحفظ میں سرگرم ہیں. قبائلی سردار اپنے مخصوص مفادات کیلئے دوسرے قبائل کو للکارتے رہتے ہیں. کہیں اقتدار کی دوڑ ہے تو کہیں عزت و وقار کی. کسی کو اپنا حق چایئے تو کسی کوبولنے کی آزادی, کسی کو اپنے سرداروں کا تحفظ فکرمند کرتا ہے تو کسی کو کاروباری تحفظات ہیں. پہلے یہی قبائل اپنے مفادات کےلئے بھی عوام کے قبیلہ کا ذکر کرنا نہ بھولتے تھے. اپنے مفادات کو عوامی ڈیمانڈ ظاہر کرتے تھے اب بہت سے تو اس تکلف سے بھی جان چھڑاچکے ہیں. ہاتھیوں کی لڑائی میں گھاس کی فکر کون کرے.

سب سے کمزور قبیلہ تو عوام ہے مگر سب سے طاقتور کی سلیکشن ابھی باقی ہے. سب کی عزت مقدم جبکہ عوام ذلیل و خوار ہیں. یہ سب قبائل عوام کا خون چوس کر اپنے لوگوں کے لئے زندگی کی سہولتیں کمارہےہیں. ایک طرف ایک ایک شخص پرکروڑوں روپے کی حفاظتی دیواریں کھڑی کی جاتی ہیں اور دوسری طرف عوام پر تمام قبائل اپنا غصہ نکاتے رہتے ہیں. مذہبی , سیاسی, عسکری یا انتظامی قبائل سب کے سب عوام پر غصہ نکالنے پر متفق ہیں. پاکستان کے قبائل ہردم جنگ پر آمادہ نظر آتے ہیں. ان کی جنگ کا مقصد کچھ بھی ہو اس کے اثرات ہمیشہ عوام کو ہی بھگتنا ہوتے ہیں. 

اس صورت حال میں اسلام سے پہلے کا عرب یاد آتاہے. تب عرب قوم مختلف قبائل میں بٹی ہوئی تھی. ہر قبیلہ اپنی زورآوری دیکھاتاتھا. اس دور میں عرب ایک قوم نہ تھے قبائلی  معاشرہ ہونے کی وجہ سے نہ ایک قانون تھا نہ کوئی ایک حکمران. عربوں کی یہ حالت تو ان کی جہالت کی وجہ سے تھی جو ان کو ورثہ میں ملی تھی..... مگر ہم ایسے کیوں ہوگئے ہیں.... پاکستان تو اس بات کی کامیاب وکالت پر بنا تھا کہ ہم مسلمان ایک قوم ہیں. ہم قائداعظم کی اس دلیل کو غلط ثابت کرنے پر کیوں تلے ہوئے ہیں. ہم دوقومی نظریہ کی عملی طور پر تکزیب کرچکے ہیں... پہلے مرحلے میں ہم دو بڑے قبائل میں منقسم ہوئے اور ملک دو حصوں میں بٹ گیا. اب تو ہم بےشمار قبیلوں میں تقسیم ہوچکے ہیں.... پاکستان کے معزز قبائل سے اور ان کے سرداروں سے گزارش ہے کہ تھوڑا تھوڑا اور بانٹ کر کھائیں تو یہ ملک کبھی ختم نہ ہوگا.   اس سرکٹی زندہ لاش کو جسے آپ عوام کے نام سے جانتے ہیں کچھ نہ کچھ ضرور گرادیا کریں. تاکہ ٹریکل ڈاؤن افیک کے ذریعے سے اس کے پیٹ میں کچھ بچا کھچا جاتا رہے.

ابن خلدون نے اپنی کتاب المقدمہ میں کہا تھا کہ بڑی عصبیتیں چھوٹی عصبیتوں پر قبض ہوجاتی ہیں. جب اسلام نے عربوں میں مذہب کی بڑی عصبیت ڈالدی تو ان کی چھوٹی قبائلی عصبیتیں مغلوب ہوگئیں اور پھر وہ ایک قوم بن کر ابھرے اور ساری دنیا پر چھا گئے. آج ہمیں بھی ایک قوم بنناہے. ہمیں بھی اپنی چھوٹی قبائلی عصبیتوں کو ترک کرنا ہوگا. اور بڑی عصبیت کو جو ہے "پاکستانیت", اس کو اپنانا ہوگا. اگر ہم پاکستانی قوم بن جائیں تو ہمارے بہت سے رستے زخم اسی وقت بھر جائیں گے. اور پھر ہمارا ترقی کا سفر پھر سے شروع ہوجائے گا.... اور یہ ایسا سفر ہوگا جس میں مخصوص قبائل فائدہ نہیں اٹھائیں گے بلکہ ملت کا ہر فرد مقدر کا سکندر ہوگا.....

No comments:

Post a Comment