Thursday, April 24, 2014

اختلاف رائے

حامد میر کا واقع تو افسوسناک ہے اس میں کوئی دو رائے نہیں ہیں مگر اس واقع کے بعد اب جو اس کے اثرات نمودار ہورہے ہیں وہ یقینا ہر مخلص پاکستانی کےلئے شرمناک تماشہ ہے جسے ہمارے دشمن مرچ مصالحہ لگا کر پیش کرتے ہوں گے. دشمنوں کی کیا بات کروں ہمارے بہت سے ہمدرد بھی ایسا ہی کرتے نظر آتے ہیں. ان میں ٹی وی سکرینوں پر نظر آنے کے شوقین مزاج بہت سے تجزیہ نگار بھی شامل ہیں. اور کچھ تو خاص قسم کے ایجنڈا کی تبلیغ و ترویج کرتے نظرآتے ہیں... بہرحال سب اپنی جنگ کرتے نظر آتے ہیں اور ملک کا صرف نام لیا جا رہا ہے... بلکل ایسے ہی جیسے انتخابات میں سیاستدان ہمارے ساتھ کرتے ہیں. اپنے مفادات کے تحفظ کو عوامی مفادات کا نام دے لیتے ہیں اس طرح وہ عوام کی حمایت حاصل کرلیتے ہیں.

خود حامد میر نے اپنے اوپر متوقع واقع پرخدشات کا اظہار کر رکھا تھا. حامد میر پر حملہ ہونے کے بعد عامر میر نے ایجنسی اور اس کے سربراہ کے بارے میں الزامات کو دہرایا اور ان کو ذمہ دار ٹہرایا. ان کے اس معکف کو جیو ٹی وی پر دکھایا اور دہرایا گیا. جس شخص پر الزام لگا اس کی تصویر بھی دکھائی گئی. انصار عباسی نے جو کہ ایک معزز صحافی ہیں اور بہت سنجیدہ معاملات پر بہت اچھا لکھتے ہیں, نے اپنے خیالات کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ میرے خیال میں متعلقہ ایجنسی کے سربراہ کو استعفی دے دینا چاہیے. انصار عباسی سمیت دیگر تمام صحافیوں کا معکف تھا کہ واقع کی تحقیقات ہونی چاہیے اور مجرموں کو قرارواقعی سزا ملنی چاہیے. ایک معزز خاتون صحافی نے کہا کہ ایجنسی اگر ملوث نہیں ہےتب بھی ملوث ہے کیونکہ ان کا کہیں تو کردار نظر آنا چاہئے. کوئی خفیہ معلومات وغیرہ..... ان کے معکف میں وزن لگتا ہے کیونکہ چند دن پہلے مشرف کے راستے سے بم برآمد ہوئے. وہ پھٹنھے سےپہلے ہی تلاش کر کے بے اثر کردئے گئے... اس میں کس کی کارکردگی نظر آئی تھی

حامد میر پر حملہ سے ایک چنگاری پھوٹی جو اب شعلہ کی شکل اختیار کررہی ہے. خفیہ ایجنسی اور حکومت کی درخواست پیمرا کو وصول ہو چکی ہے جس میں جیو کے لائسینس کی منسوخی کی اپیل کی ہے. پیمرا نے فوری ردعمل کے بجائے جیو کو اپنا موقف بیان  کرنے کیلئے مناسب وقت فراہم کردیا ہے. اس ساری کہانی میں مثبت پہلو یہ ہے کہ پہلی مرتبہ حکومت اور ایجنسی کے متفقہ معکف ہونے کے باوجود زور زبردستی کا مظاہرہ نہیں کیاگیا بلکہ رول آف لاء کی حکمرانی کو یقینی بنانے کیلئے قانونی راستہ اختیار کیا گیا ہے. اس کے لئے حکومت کے رویے کو سراہا جانا ضروری ہے. اگر حکومت ایسا نہ کرتی تو حکومت کاروباری ماحول کو سازگار بنانے کیلئے جواقدامات کررہی ہے ان کو نقصان پہنچتا. تمام تر جزبات انگیختگی کے باوجود حکومت کو دونوں جانب قانونی توزن برقرار رکھنا ہوگا.

میرے خیال میں جیو پر بظاہر جن الزامات کی وجہ سے ہمارے مقتدر و عسکری حلقوں میں غصہ کے جزبات نظر آتے ہیں وہ ایسے نہیں جن کو جیو کے ساتھ مخصوص کیا جا سکتا ہو. الزامات کی خبر نشر کرنا متعلقہ افراد کی تصاویر دکھانا اور پھر بار بار چلانا ایسا ہم نے کئی بار دیکھا ہے. یہ سب کچھ ہم نے سربراہان مملکت کے بارے میں ہوتے دیکھا ہے. ایسا مظاہرہ ہم نے جج صاحبان کے بارے میں بھی دیکھا. ملک کے صدر اور وزیراعظم اور سپریم کورٹ کے معزز ججوں سے زیادہ معزز تو کوئی نہیں ہوتا نا....اگر ان پر الزامات در الزامات اور نظربندیاں اور قیدوبند سب جائز تھا. اگر ان اقدامات سے میرے ملک کے کسی ادارے اور ملک کی توہین نہیں ہوتی تو پھر ان کے ماتحت اداروں کو بھی اور ان کے سربراہان کو بھی اعلی ظرفی کا مظاہرہ کرنا چاہئے. ذاتی نفرت اور ذاتی لڑائیوں کو خدارا ملکی سلامتی اور ملکی وقار کی قیمت پر نہ لڑا جائے.

میرا خدشہ یہ ہے کہ اس سارے معاملہ میں ملک دشمن فائدہ اٹھائیں گے.  ہمارے آپس کے اختلافات اور باہم دست و گریباں ہونا دراصل ملکی رسوائی کا باعث ہوگا. ہمارے حساس ادارے اپنی عزت کی جنگ اپنے ہی ملک میں لڑنے میں مصروف رہیں یہ بات دشمنوں کو تو بہت بھائے گی مگردردمند پاکستانیوں پر بہت گراں گزرہی ہے

ایک طرف تو ہم ملک دشمن عناصر سے مزاکرات کی بات کرتے ہیں اور ان کو اپنے بھائی بند کہتے نہیں تھکتے دوسری طرف جیو کو چند بیانات چلانے پر بند کرنے کی حد تک چلے جاتے ہیں کیا اس معاملہ پر ہم شدت پسندی کا مظاہرہ تو نہیں کرنے جارہے. کیا جیو کا قصور اتنا بڑا ہے کہ ان سے معاملات مل کر حل نہیں ہوسکتے..... کیا مزکرات معاملات کو سلجھانے کا بہتر آپشن نہیں

No comments:

Post a Comment