Saturday, March 23, 2024

ہم اتنے بیمار کیوں ہیں؟

 انسانی جسم کمال کی مشین ہے۔ یہ ایک صدی تو آرام سے چل سکتی ہے بشرطیکہ ہم اس کی مناسب دیکھ بھال کرتے رہیں اور اس کو صاف ایندھن مہیا کریں۔

 

دیگر مشینوں کی طرح عام طور پر اس کو ریگولر ڈاکٹر کے پاس جانے کی ضرورت نہیں ہوتی۔ انسانی جسم میں خدا نے ایک خودکارمرمت کا نظام رکھا ہے۔ یہ نظام 24 گھنٹے سرگرم عمل رہتا ہے۔ ہمارے جسم کو جہاں جس پرزے کو بدلنے کی ضرورت ہوتی ہے یہ اسے بدل دیتا ہے اور اس کی جگہ نیا پرزہ کام کرنے لگتا ہے۔ اس پراسیس کو سیل ریپئر پیتھالوجی کہتے ہیں۔ ہمارا امیون سسٹم باہر سے حملہ آور فسادیوں کو قابو کرتا اور انھیں ختم کرتا رہتا ہے۔

 

جسم بیمار تب پڑتا ہے جب ہم اس نظام کو خراب کربیٹھتے ہیں۔  امیون سسٹم یا مدافعتی نظام کی خرابی میں سب سے اہم کردار ہمارے کھانے پینے کی عادات ہیں اس کے بعد ہمارے رہن سہن اور کام کاج کی ضروریات ہیں جو ہمیں بیمار کرتی ہیں۔

 

ہم کھانے پینے کو معمولی بات گردانتے ہیں۔ جب بھی جو بھی کھانے کو ملتا ہے ہم کھا جاتے ہیں۔ جو پینے کو ملے ہم پی لیتے ہیں۔ ہماری نظر میں کھانے پینے کا معیار ایک ہی ہے کہ چیز کھانے میں مزیدار ہو۔۔۔۔ پھر چاہے وہ ہمیں اندر سے بیمارکر رہی ہو تو اس کا ہمیں زرہ برابر بھی احساس نہیں ہوتا۔

 

آج ہم جو کھاتے اور پیتے ہیں اس میں سے 90فیصد اشیاء جنک فوڈ کی کیٹیگری میں آتی ہیں۔ ہماری خوراک جسم کے توازن کو بگاڑ رہی ہے۔ اسی وجہ سے آج بوڑھے تو بوڑھے جوان بھی بہت شدید بیمار ہیں۔ اور بیماریوں کا تناسب بڑھتا جا رہا ہے۔

 

ہمارا ملک دنیا میں شوگر کے مریضوں کے تناسب سے سب سے اوپر جا پہنچا ہے۔ یہاں ہر100 میں 30 لوگ شوگر کا شکار ہوچکے ہیں۔ شوگر ایک بیماری نہیں یہ توجسم میں پیدا شدہ بہت سی امراض اور خرابیوں کی علامت ہے۔

 

خراب کھانے کی عادات کی وجہ سے انسولین رزیسٹنس پیدا ہوتی ہے، کئی سالوں تک انسولین اور گلوکوز کا آمیزہ ہمارے خون میں دوڑتا رہتا ہے جو بلآخر ہمارے جسم کو بیمار کردیتا ہے اور ہم جگر کی خرابی، پتے کی بیماری، دل کے امراض، جوڑوں کے امراض، معدے کے مسائل اور بےشماردیگر بیماریوں کا شکارہونے لگتے ہیں۔

 

اگر آپ ان 30 فیصد لوگوں میں شامل نہیں ہونا چاہتے جو تیزی سے بیمار ہورہے ہیں تو پھر آپ کو آج فیصلہ کرنا ہے۔ اچھی خوراک کو اپنائیں، جسم کو زیادہ سے زیادہ حرکت میں رکھیں اور مثبت رویہ اختیار کریں۔

 

تحریر: سلیم اعوان


No comments:

Post a Comment