Monday, March 18, 2024

ترقی کا سفر اور بونی قوم

 انسان کا ذہن بھی عجیب الخلقت شے ہے۔ آپ جس نظریہ کو اپناتے ہیں اس کیلئے دنیا جہاں کے دلائل اکٹھے کر لیتے ہیں۔ ذہن آپ کو ویسی ہی دنیا دکھاتا ہے جیسی آپ دیکھنا چاہتے ہیں۔ سوچ بدل جائے تو اردگرد کے حالات بھی بدلتے نظر آتے ہیں۔


پاکستان میں غلامانہ سوچ کی ترویج زیادہ کی جاتی ہے۔ ہمیں آج بھی یہ احساس دلایا جاتا ہے کہ ہم آزاد قوم نہیں بلکہ غلام ابن غلام ہیں۔ ہم نے پاکستان بننے سے آج تک کچھ حاصل نہیں کیا۔ ہمارا نظام خراب ہے ہمارے سیاستدان کرپٹ ہیں۔ 


یہ سبق ایک خاص سوچ کا عکاس ہے جس میں سب برا ہی نظر آتا یے۔ ہر طرف اندھیرے اور ظلمت کا راج ہے۔ قوم کی کسمپرسی کا زمہ دار حکمرانوں کو قرار دیا جاتا ہے۔ مگر یہاں کوئی نہیں سوچتا کہ جو قومیں ترقی کر گئی ہیں ان کے پیچھے صدیوں کی لمبی تاریک راہیں ہیں جن سے گزر کر وہ قومیں آج درخشاں حال اور روشن مستقبل کی مالک بن گئی ہیں۔ ان کے اس سفر میں حکومتوں کی کتنا ہاتھ ہے اور عوام کی اجتماعی سوچ کا کتنا عمل دخل ہے یہ تحقیق طلب معاملہ ہے۔ مگر ایک بات پکی ہے کہ وہاں بھی ترقی کا سفر آسان مرحلہ نہیں تھا۔ حکومتیں وہاں ہماری آج کی حکومتوں سے بہتر تو بلکل بھی نہیں تھیں۔ وہاں بھی ایلیٹ کلاس ہی حکمران رہی اور وہ بھی اپنے مفادات میں فیصلے صادر فرماتے تھے۔ ان کی جنگیں عوام کے مفاد میں نہیں بلکہ اپنی حکمرانی قائم کرنے کیلئے ہوتی تھیں جن میں لاکھوں لوگ مروا دئیے جاتے تھے وہاں عورتوں کو چڑیل بنا کر جلا دیا جاتا تھا وہاں کالے رنگ والوں کو غلام بنا کر رکھا جاتا تھا۔۔۔ یہ سب حکومتوں کی سرپرستی میں ہوتا تھا۔


مگر وہاں ایک عوام میں علم کی شمع جلتی رہی وہاں تعلیم کو عوام میں پزیرائی حاصل رہی وہاں دانشور طبقہ بکاؤ مال نہیں بنا وہاں مرد پیدا ہوتے رہے جو حکومتوں سے بھیک مانگنے کی بجائے خود کچھ کر گزرنے کے خواب دیکھا کرتے تبھی تو وہاں سائنس پروان چڑھی۔ وہاں گلیلیو نے حکومت کا شکوہ نہیں کیا بلکہ حکومت کے غیض و غضب کا نشانہ بنے مگر علم کا رستہ نہیں چھوڑا ۔۔۔ وہاں فورڈ کو کسی حکمران کے سپانسر نہیں کیا بلکہ مسٹر فورڈ نے خود ایک خواب دیکھا ۔۔۔۔ اور لوگوں کی مخالفت کے باوجود سچ کردکھایا۔۔۔۔ 


ہمارے یہاں مرد پیدا نہیں ہوئے زیادہ تر ہیجڑے پیدا ہوئے جو کبھی نظام کا گلا کرتے ہیں کبھی سیاستدانوں کا ۔۔۔ وہ خود کچھ کرنے کے قابل نہیں تو کسی پر تو غصہ نکالنا ہے تو کیوں نہ سیاست دانوں پر گالی نکال کر کر لیں۔۔۔۔۔۔


اگر ٹھیک سے پیارے وطن کی تاریخ مرتب کی جائے اور اسے سمجھ کر پڑھا جائے تو نظر آئے گا کہ ہمارا آج وجود قائم رکھ پانا بھی ایک بہت بڑا معجزہ ہے۔ ہم جس طرح کے حالات سے گزر کر آئے ہیں وہ غیر معمولی تھے ہمیں آج بھی دشمنوں نے گھیر رکھا ہے۔ ہمارے بارڈر پر طرف سے غیر محفوظ ہیں مگر آج بھی دنیا کی بہت سی قوموں سے بہتر زندگی گزار رہے ہیں۔۔۔۔ 


ہم نے بہت سست روی سے ترقی کی ہے۔ ہم دنیا میں ایمرجنگ ایکانومی بن کر ابھر چکے ہیں۔ دنیا کی بیس بڑی معیشتوں میں ہمارا نام لکھا جانا مقدر بن چکا تھا مگر پھر ہم اپنے مخصوص حالات اور اندرونی کمزوریوں کی وجہ سے پیچھے کے سفر پر چل نکلے ۔۔۔۔ 


آج حالات خراب ہیں مگر اصل بات یہ ہے کہ ہم کل کی جنگ لڑنے کیلئے آج زندہ ہیں۔۔۔۔۔ 


ترقی اور خوشحالی کوئی کم قیمت شے نہیں جو معمولی لوگوں کو مل پائے یہ تو آگ میں کندن ہوجانے والی قوموں کا مقدر بنتی ہے۔  یہاں ترقی کے معنی یہ ہیں کہ ہمیں جہدوجہد نہیں کرنا ہم نے نہیں بدلنا۔ ہم نے لائسنس نہیں بنوانے ہم نے ہلمٹ نہج۔ پہننا ہم نے دو نمبریاں نہیں چھوڑنا بلکہ یہ سب قائم رکھتے ہوئے حکومت قوم کو ترقی دلوائے۔۔۔


جس قوم میں بونے پیدا ہوتے ہیں وہاں بلندی کا معیار بھی نچلے درجے پر جا پہنچتا ہے۔۔۔۔

No comments:

Post a Comment