Friday, January 6, 2023

سوچ کا بحران : لارڈ میکالے اور آج کا پاکستان

 

لارڈ میکالے نے 1835 کو برٹش پارلیمنٹ میں ایک تقریر کی جس میں وہ ہندوستان کے بارے میں کہتا ہے کہ میں اس ملک میں پھرا ہوں وہاں کوئی شخص بھکاری نہیں دیکھا۔ وہ لوگ بہت اعلیٰ ظرف اور اقدار کے مالک ہیں انھیں جیتا نہیں جا سکتا۔ انھیں محکوم بنانے کا ایک ہی طریقہ ہے کہ انھیں احساس کمتری میں مبتلاء کردو۔ انھیں احساس دلا دیا جائے کہ تم اور تمھارا سارا نظام کرپٹ اور کمتر ہے اور انگریز کا نظام اعلیٰ اور ارفع ہے۔۔۔۔۔ اس کام کیلئے لارڈ میکالے نے برصغیر میں ایک ایسا نظام تعلیم ترتیب دیا جس کا واحد مقصد ہمیں انگریزوں کا غلام بنانا تھا۔ اور پھر ایسا ہی کیا گیا اور ہم غلام بن گئے اس کے بعد انگریز صدیوں تک حکومت کرتے رہے۔۔۔۔ پھر جب انھیں نکلنا تھا تب تھی انھوں نے یہ یقینی بنایا کہ یہ خطہ کبھی ان کی غلامی سے نہ نکل سکے انھوں نے اپنے تربیت یافتہ لوگوں کے ذریعے ہمیں اپنی زبان کا محتاج بنائے رکھا۔۔۔۔ ہم نے زبانی کلامی اپنی آزادی کا بہت شور کیا مگر ہم ان کی زبان ان کے کلچر سے باہر آہی نہیں سکے۔ ہمارے کلچر پگڑی شلوار قمیض اور اچکن کو فائیو اسٹار ہوٹل کے گارڈ کا لباس بنا دیا جبکہ اپنے پینٹ کوٹ کو ہماری عدالتوں ججوں اور وکیلوں کا پہناوا بنایا۔ ہمارے فخر کو کمتر بنایا گیا اور ودیسی اطوار کو اعلیٰ درجے دیا گیا اور یہ سلسلہ آج بھی جاری ہے۔ آج بھی ویسا ہی منترا ہم سب یاد کر چکے ہیں۔ ہمیں لگتا ہے کہ پاکستان میں ہمارا نظام گھٹیا ہے پاکستان کے سیاستدان کرپٹ ہیں اور دوسرے ملکوں کی مثالیں دیتے نہیں تھکتی کبھی ہمیں یورپی نظام چاہیے کبھی ہم خمینی جیسا لیڈر مانگتے نظر آتے ہیں کبھی ہمیں صدام ہیرو بن جاتا ہے اور نئے پیدا ہوئے بچوں کے نام اس کے نام پر رکھنے لگتے ہیں کبھی چین کا نظام اچھا لگتا ہے کبھی برطانیہ ۔۔۔۔ ہر روز ہم پر تعن و تشنیع کے تیر چلائے جاتے ہیں اور یہ احساس پیدا کیا جاتا ہے کہ ہم کمتر ہیں۔۔۔۔ 

اس تکرار کا پاکستان کی نئی نسل پر بہت برا اثر پڑتا ہے اور وہ ہر اس چیز سے نفرت کرنے لگتا ہے جس کا ہمارے کلچر سے کوئی بھی تعلق ہوتا ہے۔ اور اسی احساس کمتری کی کا اثر ہوتا ہے جب بچے اپنے والدین کے اطوار کو اپنانے کی بجائے پردیسی کلچر کو اختیار کرنے میں فخر محسوس کرتے ہیں۔ ہم انھیں بگڑے ہوئے بچے کہہ کر اپنی خفگی تو مٹا لیتے ہیں مگر یہ نہیں جان پاتے کہ دراصل ان کی سوچ کے بگاڑ میں ہمارے نظریات کا بہت عمل دخل ہے ہم ہی ان کے بگاڑ کی وجہ ہیں۔۔۔۔۔ 


No comments:

Post a Comment