میں جب نیا نیا انقلابی بنا تو میں نے سمجھا کہ اب سب بت ٹوٹ گئے میں ہر طرح کی ذہنی آزادی سے سوچنے کے۔قابل ہو گیا اور میں ایک ایسے قبیلے میں آگیا ہوں جہاں سوچ کسی دانشور کسی لیڈر کے اقوال کء پابند نہیں ہو گی بلکہ سائنس کی ترقی سوچ کو آگے بڑھائے گی۔ جیسے سائنس ترقی کے مراحل طے کرتی ہے اسی طرح ترقی پسند انقلابی بھی سوچ کو وقت کے ساتھ آگے بڑھاتے ہونگے۔۔۔۔ جیسے سائنس کسی ایک سائنسدان کی لونڈی نہیں نہ کسی سائنسدان کا۔کوئی فرقہ یا گروہ یے جو الگ سے سائنس کو اپنی سوچ کے مطابق چلا رہا ہو ایسے ہی سیاسی و معاشی میدان میں سوچ ترقی کرتی ہو گی۔ یہ انقلابی لوگ اپنی غلطیوں سے سیکھ کر آگے بڑھتے ہونگے مگر بدقسمتی سے ایسا نہ ہوا۔۔۔۔۔
مارکس نے انڈسٹریلائزیشن کے ابتدائی دور میں جب مزدور پر جبر کی انتہا دیکھی تو اس نے اس جبر کے خلاف سوچ کو مرکوز کیا۔ معاشرے میں موجود ظلم کی فضا کی وجوہات اور ان کو ختم کرنے کے طریقے دریافت کئے۔ اس نے بہت اعلی کوشش کی اور ایک نئے انداز سے گھمبیر معاملات کو دیکھا۔ ہیگل کے جدلیاتی سسٹم کو بلکل نیا انداز دے کر اس دور کے مسائل کی نشاندہی کی۔۔۔۔
اس بڑی تفصیل۔سے بتایا کہ کیسے انڈسٹری میں مزدور کی محنت کو لوٹا جا رہا ہے۔ اس دور میں ہونے والی تیز ترین ترقی کے باوجود غریب کی بدترین حالت کی بہت درست نشاندہی کی۔۔اور اس حل بھی تجویز کیا۔۔۔۔ اس تجویز کردہ حل کو بڑی جدوجہد اور انقلابی قربانیوں کے بعد من و عن روس میں 1917 کو نافز کردیا گیا۔ مگر کیا ہوا۔۔۔۔۔ اس ساری جدوجیہد کا نتیجہ اچھا نہیں نکلا۔ کئی دہائیوں تک ایک مقید معاشرہ رکھ کر پراپیگنڈا کے زور ہر دنیا کو یہ باور کروایا گیا کہ روس میں انقلاب نے یہاں سے غربت ختم کردی۔۔۔۔ انقلابی لوگ روس کو دنیا کی جنت کہا کرتے تھے۔۔۔۔ مگر جب جبر کا بند ٹوٹا تو ہم جیسے بہت سے انقلابیوں کے خواب بھی چکنا چور ہو گئی۔۔۔۔ اب بھی مارکس کے پجاری اس کی تعلیمات میں انقلابی تبدیلیوں کی ضرورت پر بات نہیں کرتے بلکہ ان کا کہنا ہے کہ جو کچھ بھی غلط ہوا وہ دراصل انقلاب سے غداری کی وجہ سے ہوا۔۔۔۔ ان کا کہنا ہے کہ اگر لینن کا طریقہ فالو کیا جاتا تو روس کی حالت کچھ اور ہوتی۔۔۔۔۔ ایسی باتوں سے وہ اپنے کو یا ان کو بےوقوف بناتے ہیں جن کے لئے مارکس ایک نبی اور کیمونزم یا سوشلزم ایک مذہب کی طرح ہے۔۔۔ ان کی نظر میں فرموداتِ مارکس ازلی ہیں اور جو مسائل کا حل حضرتِ مارکس نے پیش کر دیا وہ لاسٹ اینڈ فائنل ہے۔ ان انقلابی سائنسدانوں کی نظر میں دنیا کی ہر چیز تبدیل ہو سکتی ہے مگر مارکس نے جو فرمودات ارشاد فرمادئیے ہیں ان سے مفر نہیں ہے۔۔۔۔۔ یہیں سے غیر سائنسی سوچ جنم لیتی ہے اور اندھا اعتقاد شروع ہوتا یے۔۔۔۔۔ یہ اندھا اعتقاد آج بھی دانشوروں کی تحریروں میں اور عام انقلابی شخص کی سوچ میں ملتا ہے ۔۔۔۔ دانشور اپنی تحریروں کے اسیر ہو جاتے ہیں اور ہم جیسا عام انقلابی دانشوروں کے دلائل اور تقلید کی سہل پرستی کا شکار ہو جاتا ہے۔۔۔۔۔۔
مگر بہت آہستہ سے روس اور چین جیسی انقلابی حکومتوں نے مارکسی نظریات سے یوٹرن لے کر سرمایہ کاری کو لمیٹڈ اور تبدیل شدہ شکل میں اختیار کر لیا ہے کیوں کہ
دانشور تو صرف دنیا کی تشریح کرتے ہیں اصل کام تو دنیا کو تبدیلی کرنا ہے۔
اسی اصول۔اختیار کرتے ہوئے چین نے اپنے بنیادی۔ڈھانچے میں بنیادی تبدیلیاں کیں جسے کچھ لوگ انقلاب سے غداری کہتے ہیں اور انھیں تبدیلیوں کی بدولت آج چین دنیا کی معاشی سپر پاور بنتا جا رہا ہے۔۔۔۔
انسانی معاشرے ہر وقت تبدیلی کے زیر اثر رہتے ہیں۔ بہت۔چھوٹی چھوٹی مائیکرو لیول کی تبدیلیاں جن کو عام آدمی محسوس نہیں کرپاتا مگر ایک جینریشن سے دوسری تک پہنچتے پہنچتے تبدیلی بہت واضع ہو جاتی ہے اور اسی کو بعض اوقات جنریشن گیپ بھی کہتے ہیں۔ مارکس کے دور۔سے اب تک انسانی معاشرے نے بہت بڑی بڑی تبدیلیاں دیکھی ہیں۔ آج سرمایہ داری نظام ویسا نہیں رہا جیسا مارکس کے دور میں تھا آج انڈسٹری کی پیداواری صلاحیت اور۔ٹیکنالوجی بھی بدل گئی ہے آج حکومتوں میں احساس بھی بڑھ گیا ہے اور عوامی شعور بھی بلند ہوچکا ہے۔۔۔۔ آج مارکس کے دئیے ہوئے اصول انسانی معاشرے کو بہتر بنانے کے لئے بنیاد تو فراہم کر سکتے ہیں مگر صرف انھیں پرانے اصولوں کی بنیاد پر قائم معاشرہ کبھی ترقی نہیں کر سکے گا۔
میری انقلابیوں سے گزارش ہے کہ اپنے مطالعہ کو تھوڑا وسیع کریں اور دوسرے نقطہ نظر کو بھی سننے کی صلاحیت پیدا کریں۔ صرف اپنے خول میں محدود سوچیں تعفن پیدا کردیتی ہیں اور وقت بدلنے پر سوچ نہ بدلے تو وہ سائنس کی بجائے مذہب کی شکل اختیار کرلیتی ہیں۔ انقلاب کا اصل مقصد ذہن میں رکھیں وہ ہے اپنے لوگوں کی حالت کو بہتر کرنا۔ طبقاتی تقسیم کو کم سے کم کرنا اور وہ سب سہولیات جو کبھی صرف امیر اور مراعات یافتہ طبقہ کے پاس تھیں انھیں عوام تک رسائی دینا۔۔۔۔۔ اس مقصد کو حاصل کرنے کا جو راستہ بھی اختیار کیا جائے اس سے ایک سچے انقلابی کو کیا اعتراز ہو سکتا ہے۔ آج اگر چین اور روس کے انقلابی اس نتیجہ پر پہنچے ہیں کہ انھیں سرمایہ داری نظام کو ایک محدود پیرائے میں اختیار کر کے وہ نتائج حاصل ہوسکتے ہیں جو انھیں مارکس کے انقلابی اصولوں سے حاصل نہیں ہو پائے تو اس میں کیا برائی ہے۔ کنٹرولڈ سرمایہ داری آج دنیا میں بہترین نتائج پیدا کررہی ہے۔ نارڈک ممالک اس کی بہترین مثال ہیں۔ ہمیں اپنی سوچوں کو تبدیل کرنا ہوگا ورنہ بقول شاعر یہی کہا جا سکتا ہے کہ
تمھارے حواریوں نے عقیدے بدل لئے
تو اپنی بوڑھی سوچ میں ترمیم کر نہ کر
تمھارے حواریوں نے عقیدے بدل لئے
تو اپنی بوڑھی سوچ میں ترمیم کر نہ کر
No comments:
Post a Comment