Saturday, July 6, 2019

طبقاتی کشمکش Class Struggle

طبقاتی کشمکش کی جب بات کی جاتی ہے تو کارل مارکس کا نام ذہن میں آجاتا ہے۔ معاشرے میں موجود طبقات کی تقسیم اور اس کے معاشرے پر اثرات پر کارل مارکس نے بہت بہتر انداز سے روشنی ڈالی۔ اس نے معاشرے کو دو بنیادی طبقات میں تقسیم کیا اور پھر اسے بڑی وضاحت سے ان کے اختلاف اور باہم کشمکش کا ذکر کیا۔ آج میں معاشرے کی تقسیم کو ایک نئے انداز سے دیکھنے کی کوشش کروں گا جس میں آپ کو دو سے زیادہ طبقات کی نشان دہی کروں گا۔ انسانی معاشرہ انتا سادہ سی چیز نہیں کہ ایک اور دو میں تقسیم کرکے اسے سمجھا جاسکے۔ ہمارے معاشرے طبقات کی مختلف پرتوں پر مشتمل ہیں جو کسی نہ کسی طرح ایک دوسرے سے تصادم میں مبتلاء ہیں۔ اس ساری کشمکش میں سب سے زیادہ نقصان معاشرے کے سب سے کمزور طبقہ کو ہورہا ہے۔ آئیں اس کشمکش کو سمجھنے کو کوشش کرتے ہیں۔

طبقات کیا ہیں؟
سرمایہ دارانہ نظام میں دولت اور طاقت کے حصول کےدوران معاشرے میں چند طبقات جنم لے لیتے ہیں۔ ان طبقات کے مفادات الگ الگ ہوتے ہیں۔ مفادات کے حصول کے لئے پیدا شدہ تقسیم سے ایک کلاس پیدا ہوتی ہے۔
سرمایہ دارنہ نظام میں آجر اور مزدور کے مفادات کے ٹکراؤ سے جو جدوجہد ہوتی اسے کلاس اسٹرگل یا طبقاتی کشمکش کہتے ہیں۔ عام طور پر مارکس کے فلسفے کے مطابق معاشرے کو دو طبقات میں تقسیم کیا جاتا ہے۔ بورژوازی اور پرولتاری۔
بورژوازی سرمایہ دار یا آجر کو کہتے ہیں جس کے پاس تمام پیداواری ذرائع ہوتے ہیں جبکہ پرولتاری طبقہ وہ مزدور طبقہ ہے جسے اپنے روزگار کے حصول کی خاطر اپنی جسمانی یا ذہنی صلاحیتوں کو آجر کے پاس فروخت کرنا پڑتا ہے۔ مزدور کے پاس پیداواری ذرائع نہیں ہوتے تو وہ کسی بھی قیمت پر اپنی صلاحیتوں کو آجر کے پاس فروخت کرنے پر مجبور ہوتا ہے۔

طبقاتی کشمکش کیا ہے؟

کارل مارکس نے اپنی کتاب دی کیمونسٹ مینوفیسٹو میں کہا تھا کہ معاشرے میں کلاس تب تک نہیں بنتی جب تک کلاس ممبرز کو اس بات کا احساس نہ ہوجائے کہ وہ معاشرے میں ایک الگ طبقہ ہیں اور یہ کہ ان کے حقوق کو غصب کیا جا رہا ہے۔ جب پسے ہوئے طبقات میں یہ احساس پیدا ہوگا تو وہ اپنے حقوق کے حصول کیلئے جدوجہد کا آغاز کریں گے اور یہیں سے طبقاتی کشمکش شروع ہوگی۔


طبقاتی پرتیں
مارکس نے تو طبقات کو دو بڑے حصوں میں تقسیم کیا تھا۔ اس نے یہ تقسیم صنعتی پیداواری معاشرے کو مدنظر رکھ کر کی ہوگی مگر معاشرے کی بناوٹ اتنی سادہ بھی نہیں ہوتی۔ اس میں مفادات کی جنگ جاری رہتی ہے اور کئی طرح کے مفاداتی گروہ پیدا ہوتے رہتے ہیں۔ عام طور پر تمام معاشرے طبقات کی مختلف پرتوں میں تقسیم ہوتے ہیں ان پرتوں کی مختصر وضاحت ذیل میں درج کی جارہی ہے۔


مزدور
سب سے نیچے وہ طبقہ ہوتا ہے جس کے پاس نہ سرمایہ ہوتا ہے نہ ہی کوئی ایسی مہارت جس کی بنیاد پر وہ اپنی روزی روٹی کما سکے۔ سب سے زیادہ یہی طبقہ استحصال کا شکار ہوتا ہے مگر سب سے زیادہ جہالت بھی یہیں ہوتی ہے اور کلاس کا شعور ناپید ہوتا ہے۔

منتظم یا منیجرز
مزدوروں سے اوپر ایک کلاس ہوتی ہے جو کہ نچلے درجے کی مڈل کلاس کہلا سکتی ہے اس کلاس کے ذمہ مزدورں سے محنت کروا کر زیادہ سے زیادہ پیداوار حاصل کرنا ہوتا ہے۔ نہ صرف حصول پیداوار ان کی ذمہ داری ہے بلکہ مارکیٹ سے گزار کر صارف تک ترسیل بھی ان کے ذمہ ہوتا ہے۔ اس کلاس میں صنعتی یونٹس میں موجود منیجر کے علاوہ تمام قسم کے تاجر بھی شامل ہوتے ہیں اگر غور سے دیکھا جائے تو یہ ڈسٹری بیوٹرز سے مقامی تاجر تک تمام آجر کے بازو یا ساتھی ہوتے ہیں جو مزدور کی پیداوار کو مارکیٹوں میں فروخت کرنے اور آجر کے لئے منافع کما کر دینے میں مددگار ثابت ہوتے ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ آجر ان کو مختلف مراعات آفر کرتا رہتا ہے۔

سکیورٹی ادارے
یہ ادارے ملک کے اندر اور باہر موجود خطرات سے نبٹنے کے ذمہ دار ہوتے ہیں۔ ان کو بھی بےشمار طرح کی مراعات حاصل ہوتی ہیں۔ ان کا بنیادی کام ملک میں امن و سلامتی کو یقینی بنانا ہوتا ہے۔ ملک کے باہر سے خطرات ہوں یا اندرون ملک بغاوت کے خدشات ہر دو صورت میں ان کے پاس وافر وسائل موجود ہوتے ہیں۔ جس کے استعمال میں ان کے پاس کافی اختیار اور کھلی چھوٹ ہوتی ہے۔ بغاوت کے خدشات پر کسی بھی خطرے کوغائب کرنے کے ان کے پاس پورے اختیارات ہوتے ہیں۔

مذہبی پیشوا
اقتدار اور معاشی قوت کے حصول میں یہ طبقہ ہمیشہ ہی حکمرانوں کے بہت قریب رہا ہے۔ ان کے پاس ریاستی حکمرانی تو براہ راست نہیں ہوتی مگر معاشرے میں مذہبی رجحان کو فروغ دے کر لاعلم عوام کو جذباتی نعروں اور خیالی قصے کہانیوں سے اپنا پیروکار بنا لیتے ہیں۔ ان کی معاشی اور نفسیاتی کمزوریوں کو اپنی طاقت بنالیتے ہیں۔ وسائل سے محروم طبقے کو خدائی طاقتوں کی طرف رجوع کرنے اور پھر صبر کرنے کی تلقین کرتے ہیں۔ ان کی نچلے طبقہ پر جذباتی کنٹرول کو استعمال کیا جاتا ہے ان کو وسائل مہیا کیے جاتے ہیں اور ان سے معاشرے کی باغی قوتوں کو کنٹرول کرنے کا انتظام کیا جاتا ہے۔ غربت اور بے بسی و بے کسی کی زندگی گزارنے والوں کو اگلی دنیا کی نوید سنائی جاتی ہے۔ اور معاشرے میں موجود ناانصافی کو خدا کی مرضی اور غریب کا امتحان کہہ کر تسلی دی جاتی ہے۔


آجر اور حکمران
طبقات کی ان پرتوں میں سب سے اوپر آجر اور حکمران طبقہ ہوتا ہے جو کہ ظاہری طور پر الگ نظر آتا ہے مگر دراصل یہ ایک ہی پرت کی دو مختلف تہیں ہوتی ہیں۔ سرمایہ دار ہی حکمران ہوتے ہیں اور وہی باقی تمام طبقات کو اپنے مفاد میں کامیابی سے استعمال کرتے ہیں۔
اوپری اور درمیانی طبقات ملکر سب سے زیادہ پسے ہوئے طبقہ کے استحصال کا بندوبست کرتے ہیں اور اپنی حکمرانی اور قوت برقرار رکھنے کیلئے معاشرے میں یقینی بناتے ہیں کہ مزدور طبقہ جہالت کے اندھیروں میں گم رہے۔ وہ مزدورں میں کلاس کا شعور پیدا نہیں ہونے دیتے۔ وہ مزدور طبقہ کو دیگر کئی جعلی طبقات میں بانٹ کر رکھتے ہیں۔ ان میں مذہبی، سیاسی، لسانی اور قومیتی تفریق اتنی گہری کردیتے ہیں کہ وہ اصل صورتحال کو سمجھنے کے قابل ہی نہیں رہتے۔ انھیں تعصبات کی بنیاد پر آپس میں تقسیم در تقسیم کردیا جاتا ہے اور ان تعصبات کو تعلیم میں شامل کر کے نسل در نسل ان کی رگوں میں نشے کی لت کی طرح سے لگا دیا جاتا ہے۔ جبکہ اوپر سطح  پر یہ تمام تقسیم موجود نہیں ہوتی۔ وہاں اگر کوئی لڑائی ہوتی بھی ہے تو وہ طاقت اور دولت کی حرس کی وجہ سے پیدا ہوتی ہے جسے اوپر کا طبقہ بہت چالاکی سے نچلے طبقے مین منتقل کر دیتے ہیں۔

No comments:

Post a Comment