Thursday, June 2, 2016

فوری انصاف کی عدالتیں اور دبنگ عوام

کہتے ہیں کہ ہمارے ہاں عدالتیں جلدی انصاف مہیا کرنے سے قاصر رہی ہیں۔ اس بات کو میں نہیں کہتا بلکہ ہمارے ملک کے کئی اہل علم و دانش اس بات کو دوہرا چکے ہیں۔ مگر میری نظرعدالتوں کی ایک ایسی قسم پرپڑی ہے جو کہ فوری انصاف مہیا کرنے کی وجہ سے بہت مقبول ہے۔ عوام ان کی کاروائی براہ راست دیکھتے ہیں۔ یہ عدالتیں اس وقت تک نہیں اٹھتیں جب تک جج صاحب فیصلہ نہ سنادیں۔۔۔ میں بات کررہا ہوں اینکر عدالتوں کی۔۔۔ یہ عدالتیں ہر روز ٹی وی چینلز پر نشر ہوتی ہیں۔ اگر کوئی عدالتی کاروائی دیکھنے سے محروم رہ جائے تو عدالت نشر مقرر بھی ہوتی ہے۔ ان عدالتوں میں اینکر جج ہوتےہیں اور سیاستدان مجرم۔ اس میں مدعی بھی سیاستدان ہوتے ہیں اور مدعلیہ بھی۔ اور پھر اپنے مخالف پر بےدردی سے وار کیئے جاتے ہیں۔ اپنے خیالات کو دوسروں پر تھوپنے کی بھرپور کوشش کرتے ہیں۔ اگر ایسا نہ کرپائیں تو مدمقابل کو ملعون قراد دے دیتے ہیں۔ سیاست دان واحد ایسا پیشہ ہے جس میں دوسرے سیاسی ساتھیوں کی عزت اچھال کر اپنی عزت کو بڑھایا جاتا ہے اور اس بات کا ثبوت بھی سیاسی علماء نے ہی فراہم کیا ہے۔ حال ہی میں ایک ٹی وی انٹرویو میں محترم احتزاز احسن نے فرمایا کہ پاناما لیکس کا معاملہ اٹھانے کا مقصد نواز شریف کی عزت خراب کرنا ہے ۔۔۔۔ ٹی وی چینلز کے پروگرامز دیکھیں تو لگتا ہے ملک کے جید علماء اکرام اور جج صاحبان تشریف فرما ہیں اور  بڑے ہی ضروری کیسز کی شنوائی  روزانہ کی بنیاد پر کی جارہی ہے۔ ہر روز ایک فیصلہ صادر فرمایا جاتاہے اور پھر اگلے دن دوبارہ اسی کیس کی شنوائی کسی دوسرے چینل کے کسی دوسرے محترم اینکر جج صاحب کے دربار میں ہورہی ہوتی ہے۔۔۔۔۔

ایسا سب کچھ پچھلی کئی دہائیوں سے جاری ہے۔۔۔ پہلے جب چینلز نہیں تھے تو اخباریں اس قسم کے کیسز سے بھری ہوتی تھیں۔ اوریہ سب صرف اور صرف سیاسی حکومتوں کے ادوار میں ہی شروع ہوتا ہے۔ اور ایسا کیوں ہے اس راز کو بھی کئی بار افشاں کیا جاچکا ہے۔۔۔  سیاسی پارٹیوں اور ان کی قیادت کو لوگوں کی نظر میں گندہ کرنے کی یہ کوششیں بہت اچھی ہیں مگر اس بےوقوف عوام کا کیا کریں کہ یہ لوگ بھی جب موقع ملتا ہے پھر انھیں سیاست دانوں کو ووٹ دے ڈالتے ہیں۔۔۔ عوام کو بھی سوچنا چاہیے کہ بھئی ان سیاستدانوں کوبغیر کسی اصلی عدالت کے کرپٹ قرار دلوانا کوئی آسان اور سستا سودا نہیں ہوتا۔۔۔ اس پر بھی لاکھوں روپے خرچ ہوتےہیں۔۔۔۔ چینلز کے اداکار ججز کا اچھا خاصا معاوضہ ہوتا ہے جو عوام کے ٹیکسز میں سے ادا ہوتا ہے۔۔۔۔ ان اینکر ججز کے فیصلوں پر اعتبار نہ کرنے اور ان کرپٹ لوگوں کو ووٹنگ کرنے پر عوام پر توھین عدالت کا مقدمہ چلنا چائیے۔ عوام اپنے اس بےہودہ رویے کی سزا پہلے بھی بھگت چکے ہیں۔ انھیں کئے بار مارشل لاء کی قید بہ مشقت ہوچکی ہے اور اگر ابھی بھی عوام نے فوری انصاف کی اینکر عدالتوں کا احترام نہ کیا تو تحریک انصاف ہےنا اس کا فیصلہ کرنے کےلئے۔

چند دن پہلے کی بات بھول گئے جب دھرنے کے دو بڑے ججز نے فیصلہ سنادیا تھا اور بس تھرڈ ایمپائر کی انگلی کا انتظارتھا۔۔۔۔ ایک طرف عمران اور دوسری طرف قادری انگلی انگلی کررہے تھے۔۔۔۔ ہر طرف انگلی کا چرچہ تھا کہ ابھی اسمبلی آوٹ ہونے کو ہے۔۔۔۔۔ خیر ہوئی اور وہ انگلی نہ ہوئی۔۔۔۔۔ اس دھرنے کی سڑکی عدالتوں کے علاوہ روزانہ کی بنیاد پہ چلنے والی اینکر عدالتیں معمول کے مطابق اپنا کام کرتی رہیں۔۔۔۔ وہاں تو ہر گھنٹے ایک فیصلہ سنایا جارہاتھا۔۔۔۔ اس اینکر عدالتوں نے عوام کے ذہنوں میں ھیجان برپا کررکھا تھا۔۔۔۔۔ قادری چند دنوں کی سڑکی عدالت لگانے کے بعد کھسیانی بلی کی طرح واپس ہولیا مگر عمران کو عقل تب تک نہ آئی جب تک دہشت گردوں نے ہمارے بچے خون میں نہ نہلادیئے۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ اس کے بعد مجبوری تھی۔۔۔۔ تحریک انصاف کی عدالت بھی اپنا بوریابستر سمیٹ کے گھر لوٹ گئی۔

اب ایک بار پھر اینکری عدالتیں زوروں پر ہیں۔۔۔ اب کی بار دھاندلی کی جگہ پانامہ نے لے لی ہے۔۔۔۔۔ کرپشن ایک ایسا طعنہ ہے جس کو سن کر ہر سیاستدان لگتا ہے کہ کچھ کانا ہے :) مگرعمران نے اب کی بار بھی نہایت ناپختگی کا مظاہرہ کرتے ہوئے ایسی ایسی باتیں کردیں کہ اب وہ خود ان باتوں کی زد میں آرہے ہیں۔۔۔۔۔ حضرت عمران نے فرمایا کہ آف شور کمپنیاں بناتے ہی چور ہیں۔۔۔ کیونکہ انھوں نے چوری کا پیسا چھپانا ہوتا ہے۔۔۔۔ اور پھر کچھ ہی دنوں بعد ان کی اپنی آف شور کمپنی نکل آئی۔۔۔ اتنا شور عمران نے کیوں کیا ۔۔۔۔ اس پر بھی حضرت صاحب نے خود فرمایا کہ یہ توپانامہ لیکس اللہ کی طرف سے ہیں۔۔۔۔ اس لئے یہ اچھا موقع ہے کہ اس پر خوب شور کریں کیوں کہ اس بار تو نواز شریف ضرور گرفت میں آجائے گا۔۔۔ میرے اس بھولے بادشاہ سے کوئی پوچھے کہ حضرت صاحب آپ جن کی گود میں بیٹھے ہیں۔ جن کے جہازوں پر سوار ہوتے ہیں۔۔۔ جنھوں نے آپ کو گھیر رکھا ہے۔۔۔ ان کی آف شور کا بھی بہت شور ہے۔۔۔۔ آپ کے اردگرد تو آف شور والے زیادہ ہیں اور آپ کی تو اپنی آف شور آگئی ہے تو کہیں یہ اللہ کی طرف سے آپ پر عذاب تو نہیں آنے والا ؟

اینکری عدالتوں کے ججز اگر میری بات سن رہے ہیں تو سن لیں کہ یہ کمبخت عوام کسی کی نہیں سنتے۔ ان کا اپنا سیاسی مزاج ہے ان کی سیاسی سمجھ بوجھ کو آپ کبھی بھی پہنچ نہیں سکوگے۔ یہ سب آپ کی سمجھ سے بالا ہے۔ یہ عوام جلسے جلوسوں کی رونق بڑھانے تو جماعت اسلامی اور قادری کی دعوت پر ان سے عقیدت کی وجہ سے  پہنچ جاتےہیں مگر جب ووٹ ڈالنے کی باری آتی ہے تو ان کا فیصلہ خالص سیاسی ہوتا ہے اس میں وہ کسی جزباتی یا مذہبی استحصال کا شکار نہیں ہوتے ۔۔۔۔ ووٹ ڈالنے کا یہ جب فیصلہ کرلیں تو پھر یہ اپنی بھی نہی سنتے تمھاری ۔۔۔۔۔۔۔۔ کیسے سننیں گے۔۔۔۔ یہ بڑی دبنگ عوام ہے یہ پاکستانی ہیں

No comments:

Post a Comment