Sunday, November 29, 2015

Ashraf Fayadh - Saudi Artist facing death : میں ملحد نہیں ہوں

Photo Credit: news.yahoo.com/saudi-prison-artist-facing-death-says-hes-no-140656152.html

ایک فلسطینی آرٹسٹ اور شاعراشرف فیاض کو اسلام سے مرتد ہونے پر سعودی عرب میں موت کی سزا سنائی گئی ہے۔

اشرف فیاض نے جیل کے اندر سے مکہ آن لائین کو انٹرویو دیتے ہوئے بتایا کہ ایک سعودی کالج کے طالبعلم کی شکایت پر اس کے خلاف مذہبی پولیس نے مقدمہ درج کیا جس میں اس پر الزام لگایا گیا تھا کہ وہ ملحد ہوگیا ہے اور الحاد کواپنی شاعری کی کتاب کے ذریعے سے پھیلا رہاہے۔ مذہبی پولیس نے اشرف کو چند گھنٹوں کے لئے حراست میں لیا اور پھر رہا کر دیا۔ فیاض نے بتایا کہ اس کی شاعری کے کتاب کوعلماء کی اعلی مجلس کوبھیجا گیا تاکہ وہ اس کے متن کا اندازہ لگا سکیں۔ اس پرعلماء کونسل نے فیصلہ دیا کہ اس کی کتاب میں ملحدانہ خیالات پائے گئے ہیں۔
اشرف کا کہنا ہے کہ میں لحد نہیں ہوں ایسا ممکن ہی نہیں ہے۔

ایک سعودی کورٹ نے پہلے اسے آٹھ سو کوڑوں اور چار سال قید کی سزا سنائی۔ اشرف کا کہنا ہے کہ اسے وہ سزا موبائل فون میں سے ملنے والی تصویروں کی وجہ سے دی گئ۔ جو اس رات مذہبی پولیس کو حراست کے دوران ملا تھا۔ وہ تصویریں میری ایک ارٹسٹ ساتھی کی ہیں جو ایک نمائش کے دوران لی گئی تھیں۔ سعودی عرب میں مذہبی پولیس غیرشادی شدہ مردوں اور عورتوں کی علیحدگی کے معاملہ میں بہت سختی سے عمل کرواتی ہے۔

سعودی نیوز ویب سائیٹ کا کہنا ہے کہ چند روزپہلے کسی نے ٹوئیٹ کیا کہ فیاض کے خلاف فیصلہ ”اسلامک اسٹیٹ” جیسا ہے۔ یاد رہے کہ اسلامک اسٹیٹ ایک دہشتگرد گروپ ہے۔ جو اسلام کا بہت متشددانہ اور مخاصمانہ چہرہ لے کر دنیا کے سامنے آیا ہے۔ اس خبر پر سعودی وزارت انصاف نے اس شخص پربھی مقدمہ چلانے کا فیصلہ کیا ہے۔

اشرف فیاض کو ایک ہی سنوائی کے بعد نچلی کورٹ نے موت کی سزا سنادی ہے۔ اشرف کا کہنا ہے کہ فیصلہ اس طالبعلم کی شہادت پر سنایا گیا جس نے میرے خلاف شکایت کی تھی۔ اور جس بات کا مجھ پر الزام لگایا گیا ہے وہ میری کتاب میں سرے سے ہے ہی نہیں۔ بلکہ الزام کی بنیاد میری چند ایک نظموں کی غلط تشریح ہے۔ اشرف فیصلے کے خلاف اپیل کرنے کا ارادہ رکھتا ہے جس کا مطلب ہے کہ اور اپیل کورٹ میں جائے گا اور پھر اس کا مقدمہ سپریم کورٹ تک پہنچے گا۔

ایک اشرف ہی کا معاملہ نہیں وہاں ایسی بہت سی خبریں ہیں جن کو ہمارے ہاں میڈیا میں جگہ نہیں ملتی۔  انڈیپنڈینٹ کی ۸ اکتوبر کی خبر کے مطابق ایک سعودی بیوی نے شوہر کی گھر کی نوکرانی سے ذبردستی بوس و کنار کی ویڈیو بنا کر آن لائن پوسٹ کی تو وہاں کے ایک ٹاپ وکیل کا کہنا ہے کہ عورت کو پانچ لاکھ سعودی ریال کے ساتھ ایک سال قید کی سزا ہوسکتی ہے۔ ابھی کل کی بات ہے کہ ایک کویتی ایکٹر کو اس وقت ایک مال سے گرفتار کرلیا گیا جب وہ اپنی فین لڑکیوں کے ساتھ سیلفیاں اتروانے میں مصروف تھا۔ اس پرغیرعورتوں سے ملنے اور امن عامہ میں خلل ڈالنے کا الزام لگایا گیا ہے۔

مذہبی لوگوں کی شدت پسندی اور انسانی قدروں کی پامالی نے مجھے سوچنے پرمجبور کر دیا ہے کہ جو کوئی بھی شریعت کی بات کرتا ہے وہ اتنا عدم تحمل کا شکار کیوں ہوتا ہے؟ شاید مذہب کا استعمال صرف یہ رہ گیا ہے کہ اس لاٹھی سے انسانوں کو بھیڑوں کی طرح ھانکا جائے۔ ایک طرف تومذہب اعلی اخلاقیات کا درس دیتا ہے اور دوسری طرف مخالفانہ سوچ کے خلاف انتا غیرانسانی رویہ کیسے پیدا کردیتا ہے؟ اختلافی خیالات کے اظہار کو دبانے سے کسی کی سوچ بدلی نہیں جاسکتی۔ اگر ایک شخص ملحد ہوجاتاہے تو اسکا یہ علاج کہ اسے بیان کرنے سے روک دیا جائے، کیا یہ طریقہ درست ہے؟ ملحد کے لئے موت کی سزا اسے بولنے سے تو روک دے گی مگر کیا اس سے مسلمانوں میں منافقوں کی تعداد میں اضافہ نہیں ہوتا ہوگا؟

کیا کسی شخص کے موبائل فون میں کسی غیرعورت کی تصویر کی سزا آٹھ سو کوڑے اور چار سال سزا اسلامی ہے؟ کیا ایک اسلامک اسٹیٹ میں ایسا ہوتاہے؟ کیا یہ اس نبی کا اسلام ہے جس کو ہم رحمت العالمین کے نام سے یاد کرتے ہیں؟

No comments:

Post a Comment