Wednesday, March 12, 2014

نصاب تعلیم : راہ نجات


کسی بھی ماشرے کی ترقی و تنزلی میں سب سے اھم کردار تعلیم کا ہوتا ہے. اچھی تعلیم زندگی کےبارے میں مثبت سوچ پیدا کرتی ہے. اور معاشرتی و معاشی ماحول کو سازگار بنانے کیلئے لوگوں میں ایسی مہارتیں پیدا کرتی ہے جس کی مدد سے لوگ معاشرے کی ترقی میں مل جل کرسرگرم عمل رہتے ہیں. 

ترقی یافتہ اور مہزب معاشروں میں تعلیم کو بہت اہمیت حاصل ہوتی ہے. بدلتے ہوئے حالات میں تعلیم کے نصاب پر گہری نظر رکھی جاتی ہے. جہاں تبدیلی اور اضافے کی ضرورت ہوتی ہے وہاں مطلوبہ نتائج حاصل کرنے کیلئے مسلسل تبدیلی کا عمل جاری رکھا جاتا ہے. نصاب تعلیم میں تبدیلیاں کرتے ہوئے جن پہلووں پر غور کیا جاتا ہے ان میں سائنس اور ٹیکنالوجی, معاشرتی شعور, علاقائی اور بین الاقوامی تعلقات شامل ہیں. اس کے علاوہ  نصاب میں فرد کی انفرادی اور خودی کی ترقی کو خاص اہمیت حاصل ہوتی ہے. نصاب میں نئی معلومات اور مہارتیں شامل کرنے کے بعد ان کے نتائج پر گہری نظر رکھی جاتی ہے.  اس طرح ایک مسلسل عمل کے ذریعے وقت کے ساتھ تعلیم کا نظام بہتر سے بہتر ہوتا جاتا ہے اور اس طرح قومی ترقی کو یقینی بنایا جاتا ہے.

پاکستان میں ہم نے اپنا سفر تعلیم پر پہلی کانفرنس سے کیا. یہ کانفرنس 1947 میں منعقد کی گئ. اس کانفرنس میں قائد اعظم کا مندرجہ ذیل پیغام ہماری راہنمائی کرتا نظر آتا ہے:
"...اس میں کوئی شک نہیں کہ ریاست کے مستقبل کا دارومدار اس بات پر ہے کہ ہم اپنے بچوں کو کس طرح کی تعلیم مہیا کرتے ہیں...." اور پھر آپ نے فرمایا کہ:
"ہمیں یہ نہیں بھولنا چاہیے کہ ہمیں دنیا سے مقابلہ کر کے جیتنا ہے جواس جانب بہت تیز رفتاری سے بڑھ رہی ہے."
اس کے بعد سات تعلیمی پالیسیاں بنیں. آٹھ پانچ سالہ منصوبے تیار ہوئے اور کوئی آدھا درجن کے قریب دیگر سکیمیں بھی متعارف کروائی گئیں. اور اس کے علاوہ دیگر کانفرنسوں, ورکشاپس,سیمیناروں اور مباحث کا تو شمار ہی کیا. مگر بدقسمتی سے کچھ بھی کارگر ثابت نہ ہوا. ھر نئی پالیسی یا منصوبہ دیتے ہوئے ہمارے صاحبان اقتدار نے چاہے وہ ملیٹری سے تھے یا سول سے انھوں نے گزشتہ پالیسی کے ناکام ہونے کا اعتراف ضرور کیا. نئے پی سی ون بنتے رہے اور ہر نئی ڈاکومنٹ میں کاپی پیسٹ کا کام جاری رہا. ہمارے ملک کی افسرشاھی نے مقتدر حلقوں کی نالائقیوں کو سمجھ کے ان سے فائدہ اٹھانا شروع کر دیا اور ملک جہالت کی تاریکی میں دھنستا رہا.
ہم نے تعلیمی نظام کو بدلے ہوئے حالات کیلئے نئی مہارتوں کی تربیت کو نصاب میں شامل کرنے کے بجائے قوم کو اپنے شاندار ماضی مے گرداب میں الجھا دیا. قیام پاکستان کے فورا بعد سے تعلیم کو اسلامی سوچ کے تہت تبدیل کرنے کا سلسہ شروع ہوا. اسلامی تشریح کے مطابق علم کا مطلب صرف قرآن اور حدیث کا جاننا قرار پایا. زیادہ سے زیادہ مذھبی معلومات , مناجات اور عبادات کے اسباق شامل کئے گئے. اس تشریح کے بعد سائنس اور ٹیکنالوجی اور اس کے زبان انگریزی کی اہمیت کو کم کیا جانے لگا. انگریزی زبان اور انگریزی تعلیم کو ملعون قرار دیا جانے لگا. اردو اور عربی زبان پر زور دیا جاتا رہا مگر یہ سب کچھ تھا عوام کی رہنمائی کیلئے مگر خواص نے اپنے لئے اور اپنے بچوں کے لئے وہی ملعون زبان و تعلیم کا انتخاب کیا کیونکہ جدید دور کے تمام علوم تو اسی انگریزی زبان سے حاصل ہونا تھے.
پھر ستم ظریفی یہ کہ اقلیتی عوام کی تسلی کے لئے پہلے تو اسلامیات کے بجائے اخلاقیات کا نصاب دیا گیا مگر آہستہ آہستہ اسلامیات کو دیگر لازمی مضامین میں بھی شامل کر دیا گیا. اب ہمیں اسلامی تعلیمات اسلامیات کے علاوہ اردو اور انگلش زبان میں اور معاشرتی علوم میں بھی وافر مقدار میں نظر آتی ہے. گویا کہ اب اقلیتی افراد چاہیں یا نہ چاہیں ان کے بچوں کو بہرحال اسلامیات پڑھنا ہی ھوتی ہے.

نظام تعلیم میں مذھبی رنگ شامل کرنے میں پہل ذوالفقار علی بھٹو نے کی اس کے بعد جنرل ضیاالحق نے تو جیسے تعلیم کا قبلہ ہی تبدیل کردیا. اسلامائیزیشن کی اس کوشش میں اصل تاریخ کو مسخ بھی کیا گیا اور تاریخی واقعات میں جھوٹ شامل کرنے سے بھی گریز نہ کیا گیا. نصاب میں مختلف اقوام کو دشمن کے طور پر پیش کیا گیا اور ان کے بارے میں صرف نفرت انگیز مواد کو ہی شامل کیا گیا.  اس نصاب تعلیم کے زیراثر طلباء کیلئے انگریز اور ہندو اقوام دشمن اقوام قرار پائیں. جس کا لازمی نتیجہ یہ بھی نکلا کہ سائنس اور ٹیکنالوجی انگریزی تعلیم کے طور پر ذھنوں پر راسخ ہوگئی. عوام کو تو اردو میڈیم میں اسلامی تعلیمات سے مشرف بہ اسلام کیا جاتا رہا مگر خود خواص کے بچے انگریزی تعلیم سے فیضیاب ہوتے رہے. 
جنرل ضیاءالحق کے تعلیمی تجربات میں ایک اصطلاح کو سب سے زیادہ اہمیت حاصل رہی. جس کی مدد سے مستقبل کے جنگجو تیار کرنا مقصد تھا. وہ اصطلاح تھی "جہاد". اس لفظ کو بار بار نصاب میں ڈال کر انگریزوں اور ہندوں کے خلاف نفرت کو ابھارا گیا. اسی دور میں مذھبی تنظیموں کے عسکری ونگز فروغ پانے لگے اور کئی نئی عسکری تنظیمیں وجود میں آگئیں. حکمرانوں نے پہلے تو ان تنظیموں کو کشمیر کی جنگ میں اور پھر افغان وار میں استعمال کیا. اور پھر اس کے بعد کیا ہوا وہ لکھنے کی ضرورت نہیں کہ وہ سب ابھی تک ہم سب بھگت رہے ہیں.
ایک طرف تو ترقی یافتہ ملکوں کے تصاب تعلیم ہے جہاں زندگی سے اور انسانیت سے محبت کرنا سکھایا جاتا ہے اور معاشرے میں زندہ رہنے اور معاشرے کی ترقی کیلئے ضروری مہارتیں سکھائی جاتی ہیں اور دوسری طرف ہمارا نصاب تعلیم ہے جس میں اقوام عالم سے نفرتوں کے اسباق شامل ہیں. سائنس اور ٹیکنالوجی کی جگہ مذھبی تعلیم کو ترجیح نے ہمیں نہ دنیا کے قابل بنایا نہ ہی ہم کسی اعتبار سے مذھبی و اخلاقی معیار پر ہی کامیاب قرار پا سکے ہیں.

3 comments:

  1. جن لوگوں کا ذکر آپ نے مذہبی رنگ ڈالنے کے سلسلے میں کیا، ان کے اصل عزائم کیا تھے یہ ایک الگ موضوع ہے، لیکن کم از کم یہ تو ظاہر ہے کہ آپ کی نظر میں یہ ناپسندیدہ ہے کیوں کہ انسانیت کو تقسیم کرتا ہے۔

    لیکن آپ نے جو محمد علی جناح کی تقریر کا اقتباس دیا ہے اس میں موجود فساد سے صرفِ نظر کر گئے شائد۔ موصوف نے جب یہ کہا کہ

    "ہمیں یہ نہیں بھولنا چاہیے کہ ہمیں دنیا سے مقابلہ کر کے جیتنا ہے جواس جانب بہت تیز رفتاری سے بڑھ رہی ہے."

    تو ان کی کیا مراد تھی۔ یہ تو صاف نظر آ رہا ہے کہ بزرگوار سرمایہ داری نظام کی وضع کی ہوئی نیشنلزم کی لعنت کو ترقی کی بنیاد بنار رہے ہی۔ لوگوں کو انسانیت کی اتنی غلیظ اور گھٹیا تقسیم پتا نہیں کیسے ہضم ہو جاتی ہے۔ اس تقسیم کو استعمال کر کے سرمایہ داریت پرستوں نے جتنا انسانیت کا خون بہا کر اور انہیں نچوڑ کر دولت اکٹھی کی ہے اس کی مثال پوری انسانی تاریخ میں نہیں ملتی۔

    ReplyDelete
    Replies

    1. میرے دوست جواد! پہلے تو بہت شکریہ کہ تم نے میرے مضمون پر کمنٹ کرنے لیلئے وقت نکالا. جہاں تک قائداعظم کا تعلق ہے تو مجھے لگتا ہے کہ تم نے اس پیغام کو دوسرے رخ سے دیکھا ہے. میرے نظر سے ایسی کوئی چیز نہیں گزری جو اس طرف اشارہ کرے کہ قائد کا مطلب سرمایہ داری یا اس کی پیدا کردہ نیشنلزم ہے. ان کا یہ فرمان علم کی ترقی کی جانب اشارہ کرتا ہے.... میں حیران ھوں کہ تم نے اس کا مطلب نیشنلزم کیسے نکالا.

      ویسے تمہاری اطلاع کیلئے عرض ہے کہ نیشنلزم سرمایہ داری کی وضع کردہ نہیں ہے اس کی ھسٹری بہیت پرانی ہے. اس کے آثار بہت پرانی تہذیبوں میں بھی ملتے ہیں. اس کا تعلق قبائلی تعصب سے ہے اور یہ ہماری نفسیاتی کمزوری ہے کہ ہم کسی نہ کسی گروہ کا حصہ بن کر رہنا چاہتے ہیں. جبکہ سرمایہ داری ایک طرح کا سیاسی اور معاشی نظام ہے جو کوئی نیشن اختیار کرتی ہے. نشنلزم کا جزبہ تو اسلامی یا کافر کسی بھی معاشرے کا لازمی جز ہے. جس معاشرے میں نیشنلزم کا جزبہ کمزور پڑجاتا ہے وہی قومیں کمزور پڑجاتی ہیں. اس کی زندہ مثالیں پاکستان اور بنگلہ دیش ہیں. پاکستان جہاں نیشنلزم پروان نہیں چڑسکا اس کی ترقی کی رفتار کمزور جبکہ بنگلہ دیش جہاں نیشنلزم مضبوط ہے ان کی ترقی کی رفتار ہم سے کئی گناہ زیادہ ہے. باوجود اس کے کہ ان کی مشکلات معاشی و سیاسی میدان میں ہمارے جیسی ہی رہیں. مگر انہوں نے ملک الگ ہوتے ہی اپنی قومی سوچ کا قبلہ درست کر لیا اور نیشنلزم اور سیکولزم کے اصولوں کو اپنا لیا. ہم منافقوں کے گروہ نے اپنی عملی زندگیوں میں تو اسلام نافز نہ کیا مگر ملک میں اسلامی نظام کا ڈرامہ کرتے رہے. اس میں سیاست دان ہی نہیں ہم سب ملوث ہیں. اپنے گریبان میں جھانکو اور دیکھو کہ تمہیں ھر طرف سے اسلامی اسلامی کی للکار سنائی دے گی مگر کوئی بھی حقیقی اسلامی دوکان نہیں ہے. بقول پرویز صاحب یہ سب شراب کی اسلامی دوکانیں ہیں اور کچھ نہیں....

      Delete
  2. This comment has been removed by the author.

    ReplyDelete